تقسیم ہند کے بعدکراچی کے بلوچوں کی حالت زار
کراچی اوراس کے قریبی گاؤں صدیوں سے تہذیب اور تمدن کا مرکز رہے ہیں
کراچی اوراس کے قریبی گاؤں صدیوں سے تہذیب اور تمدن کا مرکز رہے ہیں اور بڑی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں شعبہ ہائے زندگی کی ترقی کی رفتار بھی تیز رہی ہے ۔ صحافت کے میدان میں کراچی کی مرکزی حیثیت کی بنا ء پر بلوچی تاریخ میں بھی کراچی تمدنی زندگی کی بنیاد رہا ہے ۔شہر کراچی کی عظمت اور تاریخی عمارات اور ترقی کا ذکر کرتے ہوئے اگر کراچی کی بلوچ کمیونٹی کا ذکر نہ کیا جائے توکراچی کی کہانی ادھوری رہ جاتی ہے ۔ تقسیم ہند سے قبل کراچی میں آباد بلوچ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے ۔کاروبار اور ملازمت میں بھی شامل حال تھے ۔
کراچی کے چاروں اطراف باقاعدہ کاشتکاری ہوا کرتی تھی اورسولہ سو پچاس قدیم دیہات سندھیوں اوربلوچوں کی ملکیت میں تھے۔ ان زمینوں کو پانی دریائے سندھ، برساتی نالے، ملیرندی، ڈملوٹٰی کنوؤں، لیاری ندی، تھدو نالو( کور) ، ٹیوب ویل، ہالیجی اورکھینجر جھیل ودیگر ندی نالے سے فراہم کیا جاتا تھا ۔ جن علاقوں میں کاشتکاری ہوتی تھی ان علاقوں میں لالوکھیت ، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد ، نیوکراچی،گلشن اقبال، فیڈرل بی ایریا، کے اے ڈی اسکیم ، چنیسرگوٹھ ، ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری ، گلستان جوہر، ہاکس بے، ماری پور، منگھوپیر ، شاہ فیصل کالونی، ڈگ روڈ،ائیرپورٹ، ملیر، ماڈل کالونی، لانڈھی، کورنگی انڈسٹریل ایریا، شرافی گوٹھ، ناگمان ولیج، انگارہ گوٹھ ، جام گوٹھ ، اورگڈاپ کے علاقے شامل تھے ۔
قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے آنیوالوں (میں انھیں مہاجر نہیں، پاکستانی شہری کہتا ہوں) کی آباد کاری کے لیے ایک محکمہ قائم کیا گیا جس نے کے ڈی اے کے قیام کے ساتھ ہی ان چارسو قدیم دیہاتوں پر قبضہ کرلیا اور ہجرت کرکے آنیوالے افراد کو ان زمینوں پرآباد کیا اور جدید رہائشی اسکیموں کا اعلان کیا گیا یہاں کے لوگوں کے احتجاج کرنے پر انھیں یہ کہہ کر خاموش کیا گیا کہ ہجرت کرکے آنیوالے آپ کے مسلمان بھائی ہیں آپ ان کے انصاری بھائی بن جائیں ، حکومت آپ کو ان زمینوں کے عوض معاوضہ ادا کریگی ۔ یہاں کے بلوچ روادارانہ مذہبی سوچ کے حامل تھے ، اسی بناء پر حکمرانوں نے انھیں قائل کیا۔
ہجرت کر کے آنیوالوں کے لیے یہاں کے بلوچوں نے دریا دلی کا ثبوت دیا اور حکومت سے اپنی زمینوں کا معاوضہ نہیں لیا لیکن کراچی کے بلوچوں کی یہ تاریخی قربانی کسی کو یاد نہیں ، حقائق بڑے تلخ ہیں میں انھیں کریدنا نہیں چاہتا بس اتنا عرض ہے کہ کراچی کے بلوچوں کے ساتھ اچھی مثال قائم نہ کی جاسکی ۔ وہ تمام ندی نالے جہاں سے دریا اور بارش کے پانی کا گزر ہوتا تھا وہاں سے بڑے پیمانے پر ریت نکالنی شروع کی گئی جنھیں کراچی میں نئے رہائشی اسکیموں کے مکانات کی تعمیر اور سرکاری عمارات ، نجی بلڈنگز کی تعمیراتی کاموں میں استعمال میں لایا گیا۔
ان ندی نالوں سے ریت بتدریج ختم ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے پانی زمین کی تہہ میں جانے لگا ۔ کنویں ، ندی نالے سوکھنے لگے ، ڈملوٹی کے چودہ تعمیراتی حوالہ سے مضبوط کنویں تباہ ہوئے جن میں پانی فلٹر ہوکر گرتا تھا، اس طرح تمام قابل کاشت زمینیں بنجر ہوگئیں ۔ زمین دار اورکسان بیروزگار ہو گئے اور انھوں نے اپنی زمینوں کے ساتھ مال مویشی کوڑیوں کے دام بیچنے شروع کردیے اور انھیں کہیں نوکری بھی نہ مل سکی اس طرح وہ معاشی لحاظ سے کمزور سے کمزور تر ہوتے رہے اور آج بھی ان ( کراچی کے بلوچوں) کی معاشی صورتحال قابل رحم ہے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی سیاسی قوتوں کا رویہ بھی کراچی کے بلوچوں کے ساتھ مثالی نہیں رہا۔ پاکستان میں جتنی بھی جمہوری و سیاسی تحریکیں ابھری ان کا مرکز کراچی ہی رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ اندرون سندھ اور بلوچستان سے اٹھنے والی تحریکوں میں یہاں کی بلوچ کمیونٹی نے بھر پور حصہ لیا اور ہمیشہ وہاں کی سیاسی قوتوں کی مدد کی۔ سندھی اور بلوچی کلچرکو اپنایا ۔کراچی کی بلوچ کمیونٹی کی حمایت کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کی عوامی تحریکیں نہ صرف کامیاب ہوئیں بلکہ اپنے اپنے صوبوں اور مرکز میں بھی اقتدار حاصل کیا لیکن افسوس ! یہ کہ ان سیاسی جمہوری قوتوں نے بھی کراچی کی بلوچ کمیونٹی کو ان کا جائز حق نہ دیا، انھیں نظر اندازکیا گیا،ان کے مسائل پر توجہ نہ دی گئی جو بڑھتے بڑھتے ناسور ہوگئے ۔ ان عدم توجہات کی کیا وجوہات تھیں یہ آج بھی ایک راز معلوم ہوتا ہے البتہ کراچی کے بلوچوں کی نئی نسل کے لیے دعوت فکر ضرور ہے ۔
کراچی کے بلوچوں کی ثقافتی حوالے سے عرض یہ ہے کہ انھوں نے شہری زندگی میں رہائش پزیر ہونے کے باجود اپنی زبان ، روایت اورثقافت کو زندہ رکھا، یہی وجہ ہے کہ آج بھی شادی بیاہ اور دیگر رسومات میں کراچی کی بلوچ کمیونٹی میں اپنی ثقافت کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ زبان دوستی کی بناء پر یہاں کے بلوچوں نے بلوچی دیوان (میوزیکل پروگرامز ) کے نام پر محافل کو رائج کیا ، مشاعرے منعقد کیے، شادی بیاہ کی تقریبات میں بلوچ فنکاروں کی محفلیں سجائیں، لوک گیتوں، شاعری ، ادبی محافل منعقد کیے، ساز و زیمل کی محفلیں کیں، بلوچی رسالوں کا اجراء کیا، فنکاروں ادیبوں شاعروں، گلوکاروں، موسیقاروں کی حوصلہ افزائی کی اوران ثقافتی تقریبات کو رائج کیا۔
اس زمانے میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں بلوچ فنکاروں، شاعروں ، ادیبوں اور صحافیوں نے نام پیدا کیا ۔ گلوکاروں و موسیقاروں میں بلاول بیلجیم ، عمر جمالی ، استاد بھورل ، فیض محمد بلوچ ، استاد نزر محمد نسکندی،استاد ہاشم رنگون والا، استاد محمد شفیع ، استاد عبدالستار، جاڑک ، قادر بخش قادوک، آمنہ طوطی، زلیخہ ، ماہ گی، شریفہ سوتی ، گوہر بانوک ، استاد عمر، داد محمد سوتی، صدیق بلوچ ، محمد جنگی، محمد سوری، صالح محمد ملیری، عزیز بلوچ ، بلاول، ماسٹرجمعہ،استاد محمد یعقوب، استادخالق داد ۔ مزاح میں شریف چارلی ، غلام حسین، اور در محمد افریقی سرود نواز واجہ ۔ شاعروں میں ظہورہاشمی، حاجی صابر، اکبر بارکزئی، نون میم دانش، شمیم، احمد جگر ، احمد ظہیر، ملنگ شاہ ، بلوچی شاعرہ بانل دشتیاری، مراد ساحر، احمد دہانی ، خیرمحمد ندوی ( جنھوں نے بلوچی رسالے اومان اورسوغات شائع کیے ) وغیرہ شامل تھے ۔ اسی زمانے میں ڈرامہ نویسوں میں مراد آوارنی ، فتح محمد نسکندی ، غلام رسول مہران ، ڈرامہ فنکاروں میں جان محمد بلوچ ، سرفراز بلوچ ، صدیق شیدی ، یوسف نسکندی ، عمر بھونپوری ، نظر محمد وغیرہ نامور فنکار تھے۔
اسکرپٹ رائٹرز میں رمضان بلوچ ایڈوکیٹ اور ریکارڈنگ میں محمد ڈولی پہلے اسکرپٹ رائٹر اور ریکارڈنگ کرنیوالے افراد تھے۔ بلوچی گانے ودھن کی مقبولیت کا یہ اندازہ کافی ہو گا کہ غیر بلوچی لوگ بھی بڑے شوق سے بلوچی گانے سنتے ہیں پاکستان سے فنکاروں کے جو بھی طائفے بیرون ممالک جاتے ہیں ان کے پروگراموں میں بلوچی گیت کا تڑکا ضرور شامل کیا جاتا ہے کیونکہ شائقین ان سے بلوچی گیت کی فرمائش کرتے ہیں خاص طور پر بلوچی گیت لیلیٰ او لیلیٰ اور سالونکء سیریں ضرور گایا جاتا ہے ۔ لیلیٰ او لیلیٰ کے خالق عالمی شہرت یافتہ لوک گلوکار فیض محمد بلوچ جس کی گائیکی کا کوئی ثانی نہیں نے دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستان کی نمائندگی اور ملک وقوم کا نام روشن کیا ۔
یہ الگ بات ہے کہ عالمی شہرت کے باجود وہ غریب تھے اور غریب ہی رہے اور کسمپرسی کے عالم میں وفات پاگئے، حکومت تو حکومت ہوتی ہے کسی نامور شخص نے عیادت تک نہ کی ۔پا کستان کی پہلی بلوچی فلم '' ھمل ماہ گنج'' لیاری کے فنکاروں کی تخلیق ہے ، معروف اداکار انور اقبال اس فلم کے فلم ساز و ہیرو تھے جہنوں نے بعد میں کئی فلموں اور ٹی وی ڈرامو ں میں اپنے فن کا شاندار مظاہرہ کیا ، سینئر صحافی نادر شاہ عادل نے بھی اس فلم میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن یہ فلم متنازع ہونے کی وجہ سے سینما گھروں کی زینت نہ بن سکی۔ 1988 کا مقبول سیاسی گیت ( دلا تیر بجاں ) نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی جس کی دھن پا کستانی اور انڈین فلموں میں بھی سنائی دیتی ہے ۔
اس گیت کی دھن ظہور احمد نے ترتیب دی تھی اس کے شاعر حضرت شاہ تھے اور اسے شبانہ نوشی نے گایا تھا ، جس کی تاج پوشی بیگم نصرت بھٹو نے کی تھی ۔ حضرت شاہ کسمپرسی کی حالت میں دنیا سے کوچ کرگئے۔ ظہوراحمد زیبی جو نیم نابینا ہے، سیاسی داد وتحسین سے محروم رہے۔ بلوچی لیوا بھی بلوچوں کی ثقافت کی ایک پہچان ہے ۔ ابراہیم ڈاڈا اور ابراہیم لچک نامور بلوچی ڈانسر رہے ہیں، بہت سی پاکستانی فلموں میں بلوچی گانے اور رقص پیش کیے جاتے رہے ہیں ۔ آج بھی لیاری میں بہت سے فنکارموجود ہیں جو ڈاکومنٹریز، شارٹ ٹیلی فلم، اور کمرشل ویڈیوز اور فلموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ ممتاز اولمپین با کسر حسین شاہ پر عدنان سرور اور ان کی ٹیم نے''SHAH '' کے نام سے ایک خوبصورت فلم بنائی ہے جو بے حد پسند کی گئی۔