بغیرویزا افغان شہریوں کے پاکستان میں داخلے کا آج آخری روز

پاکستان میں داخل ہونے کے قانونی راستوں سے افغان مہاجرین کی آمد کا ریکارڈ مرتب کیا جائے گا


غیر قانونی راستوں سے پاکستان کی حدود میں داخل ہونے والوں کو گولی کا نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

کل (بدھ) یکم جون 2016 کے بعد طورخم سے پاکستان آنے والے افغان شہری پاکستان کا ویزا لیے بغیر پاکستان میں داخل نہیں ہو سکیں گے،راہداری پرمٹ بھی صرف پاکستان میں سرحدی علاقے سے ملحق 20 کلو میٹر کے اندر شنواری قبائل کو جاری کیا جائے گا جس کے تحت وہ افغانستان جا سکیں گے اور افغانستان کے شنواری قبائل پاکستان آ سکیں گے تاہم بعد میں انھیں بھی پاسپورٹ اور ویزے کا پابند کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

عسکری ذرائع کے مطابق پاکستان آرمی کی جانب سے واضح کر دیا گیا ہے کہ یکم جون کے بعد بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے کوئی بھی افغان شہری پاکستان میں داخل نہیں ہو سکے گا۔4 کلومیٹرکے علاقے میں انٹر نیشنل بارڈر کے بین الاقوامی قواعد و ضوابط کے مطابق امیگریشن کے بعد ہی کسی کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی جبکہ ویزے کے بغیر پاکستان میں داخل ہونے والوں کو مروجہ قوانین کے مطابق واپس بھیج دیا جائے گا۔ راہداری پرمٹ بھی صرف پاکستان میں سرحدی علاقے سے ملحق20 کلو میٹر کے اندر شنواری قبائل کو جاری کیا جائے گا۔جس کے تحت وہ افغانستان جا سکیں گے اور افغانستان کے شنواری قبائل پاکستان آ سکیں گے تاہم بعد میں انھیں بھی پاسپورٹ اور ویزے کا پابند کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر 8 مقامات سے دونوں ملکوں کے شہریوں کو پاسپورٹ اور ویزے کے بعد ایک دوسرے ملک میں جانے کی اجازت ہو گی جن میں طورخم کے علاوہ ،ارندو، کرسل، نوا پاس، غلام خان، انوراڈی،اور خرلاچی شامل ہیں۔ عسکری ذرائع کے مطابق اگر کوئی افغان مہاجر سرحد پار کرنے کے بعد اپنے ملک واپس جاتا ہے تو اسے افغان مہاجر قرار نہیں دیا جا سکتا اور دوبارہ پاکستان آنے کے لیے اُسے پاکستان کا ویزہ لینا ہو گا۔اس طرح گرمیوں میں ہزاروں افغان مہاجرین کا اپنے وطن چلے جانا اور پھر موسم سرما میں پاکستان آنے کا لطف انھیں مہاجر کے اسٹیٹس سے محروم کر دے گا۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں داخل ہونے کے قانونی راستوں سے افغان مہاجرین کی آمد کا ریکارڈ مرتب کیا جائے گا جبکہ غیر قانونی راستوں سے پاکستان کی حدود میں داخل ہونے والوں کو گولی کا نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔

عسکری ذرائع کے مطابق سال2001 سے 2016 ء تک دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے 4 ہزار188 جوانوں اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ 14 ہزار840 جوان زخمی ہوئے۔ عسکری ذرائع کے مطابق قبائلی علاقوں میں کئی ہزار فٹ بلند پہاڑوں پر مستقل فوجی چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق رواں سال اب تک 8 فوجی جوانوں نے ملک و قوم کی بقا اور سالمیت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے جبکہ42 زخمی ہوئے۔

آپریشنزکے دوران 292 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 159 شدت پسند زخمی بھی ہوئے۔آپریشنز کے دوران طالبان کے زیر استعمال سرنگوں کا پتہ بھی چلایا گیا۔آپریشن ضرب عضب کے دوران مجموعی طور پر 2 ہزار820 شدت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ،943 زخمی ہوئے، ایک ہزار237 نے گرفتاریاں پیش کیں جبکہ ایک ہزار95 شدت پسند گرفتار بھی کیے گئے۔

دوسری طرف پاک آرمی چترال سے جنوبی وزیرستان تک ایک ہزار120 کلومیٹر سرحدی علاقے میں535 چیک پوسٹیں قائم کر دی ہیں اس طرح پاکستانی حدود میں بنائی جانے والی یہ پوسٹیں لگ بھگ ہر کلو میٹر کے فاصلے پر بنائی گئی ہیں جبکہ افغانستان نے اتنے ہی علاقے میں صرف 145 چیک پوسٹیں بنائی ہیں جو ہر 20 کلو میٹر کے بعد ایک چیک پوسٹ بنتی ہے۔دونوں جانب سے ہونے والی بارڈرمیٹنگز میں پاک فوج نے افغانستان سے بھی ہر 2 کلو میٹر کے فاصلے پر اپنی چیک پوسٹ بنانے کی درخواست کی ہے جس پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں