’’کنفیوزڈ سرجری‘‘

خدارا! اپنے لوگوں پر اعتبار کرنا سیکھیں اور اقتدار کو خاندان کی باندی سمجھنے کے بجائے عوام کی طاقت سمجھیں۔


شاہد کاظمی May 31, 2016
حکمران جماعت نے اس سرجری کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نکلنے نہیں دیا اور افسوس یہ کہ سرجری کو حکمران جماعت کے نااہل اور غیر سیاسی ترجمانوں نے مسائل سے چھٹکارے کی کنجی سمجھ لیا۔

حقیقی معنوں میں پاکستان جیسا ملک کرہِ ارض پر دوسرا نہیں ہے۔ اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں ہاتھی نکل جاتا ہے اور اُس کی دم پر واویلا شروع کردیا جاتا ہے۔ پھر اُس دم کا ایسا حشر کیا جاتا ہے کہ ہاتھی بے چارہ خود واپس آجائے کہ بھئی لو میں واپس آگیا ہوں، جو کرنا ہے کرلو لیکن دم کو بخش دو۔

ہمارے سیاسی رہنماؤں کا حال تو ''انے دیاں ریوڑیاں'' والا ہے کہ انہیں جب دو چار لوگ میدان سیاست میں پہچاننا شروع کردیں تو وہ ایسے انداز اپنا لیتے ہیں اور ایسی ایسی بھونڈی حرکتیں شروع کردیتے ہیں کہ الاماں۔ عوام بے چارے حیران و پریشان یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہمیں تو کھانے کو نہیں مل رہا اور اشرافیہ قسط وار لیکس پر باہم دست و گریباں ہے۔ ہمارا شدید گرمی میں پانی کی کمی کے سبب پیاس سے بُرا حال ہے اور اس ملک کے ایوان اقتدار کی راہداریوں میں سرگوشیاں کرنے والے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال کر یہ توقع کئے رہتے ہیں کہ عوام واہ واہ بھی کریں اور اپنا مزید کباڑہ بھی۔

بیماری کو ہمارے سیاستدانوں نے اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنادیا ہے۔ آپ کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں، کسی بھی ٹی وی چینل کا مشاہدہ کرلیں، آپ کو یہ پڑھنے، سننے یا دیکھنے کو نہیں ملے گا کہ اس سال گرمی کی شدت سے مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے کیا اقدامات کئے گئے ہیں؟ بلکہ آپ کو بڑے میاں صاحب کی ''سرجری'' ہی سب سے بڑا مسئلہ نظر آئے گا۔ کوئی شک نہیں کہ اوپن ہارٹ سرجری آسان عمل نہیں، نہایت ہی پیچیدہ اور مشکل مرحلہ ہے، صرف ہمارے محترم وزیر اعظم صاحب کے لئے ہی نہیں بلکہ ان کے پورے خاندان کے لئے بھی، لیکن جس انداز سے اس سارے معاملے کو پیش کیا جا رہا ہے کیا آزاد، خود مختار اور مضبوط قوموں کا یہی انداز ہوتا ہے؟

حکمران جماعت نے اس سرجری کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ نکلنے دیا۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سرجری کو حکمران جماعت کے نااہل اور غیر سیاسی ترجمانوں نے مسائل سے چھٹکارے کی کنجی سمجھ لیا ہے۔ (ترجمانوں کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا کہ پوری صورت حال میں ہر کوئی ترجمان بنا ہوا ہے، سمجھ ہی نہیں آرہا کہ کسی کی بات مانی جائے اور کس کی نہیں۔ اِس کی تازہ مثال آپریشن سے متعلق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اور وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے متضاد بیانات ہیں جس میں پرویز رشید کہتے ہیں کہ قوم کی دعا قبول ہوگئی اور آپریشن کامیابی سے مکمل ہوگیا جبکہ مریم نواز کہتی ہیں کہ ابھی آپریشن میں کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں۔

پھر ہوٹل میں کھانا کھانے میں کسی قسم کا کوئی سیکیورٹی رسک نہیں ہے لیکن اسپتال کا نام تک عوام کو بتانے میں سیکیورٹی رسک ہے۔ توبہ توبہ اس تمام معاملے کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ لوگ مخمصے کا شکار ہوگئے ہیں کہ سرجری ہونی بھی ہے یا لیکو لیک ایشو سے چھٹکارا پانے کا حربہ ہے؟ آپ کیوں سرجری جیسے حساس معاملے کے حوالے سے کنفیوژن پیدا کر رہے ہیں۔ یہ قوم جتنا بھی اختلاف رکھے اتنی بھی بداخلاق نہیں کہ ایک شخص کے علاج پر بھی منافقت کرے۔

حد تو دیکھیے کہ ملک کا وزیراعظم ملک میں نہیں اور ایک غیر منتخب شخص کو تمام اختیارات تفویض کر دیے گئے ہیں کہ بھئی تم مختار کل ہو جو چاہے کرو۔ کیا ملک ایسے چلائے جاتے ہیں؟ کیا منتخب نمائندوں کا اسمبلی میں قحط پڑگیا تھا یا آپ کو کسی پر اعتبار نہیں ہے؟ اور آدھا پاکستان کہلانے والا صوبہ ایسے چل رہا ہے کہ پتہ ہی نہیں کہ اختیارات کس کے پاس ہیں۔ نہ اسپیکر کے حوالے سے واضح معلومات ہیں نہ ہی کسی اور شخصیت کے حوالے سے۔ صدرصاحب کے پاس سے اختیارات تو ویسے ہی ترامیم کے جھرمٹ میں ختم کردیے گئے۔

اگر واقعی وزیراعظم کا نائب پاکستان کے آئین میں نہیں ہوسکتا ہے تو ماضی قریب میں پرویز الٰہی صاحب کو جب نمائشی ہی سہی لیکن نائب وزیر اعظم بنایا گیا تو کیوں کسی قانونی ماہر یا کسی آئینی ماہر نے اپنی علمیت سے اس معاملے کو روکا نہیں؟ ایک ہی تھالی کے بینگن کے مصداق جب جس کا جی چاہتا ہے اپنی مرضی کے اقدامات کرتا ہے اور اپنی مرضی کے اقدامات نہ ہونے پر احتجاج شروع کر دیتا ہے۔ اس مملکت خدادا کو پرچون کی دکان سمجھ لیا گیا ہے کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا ہے۔

خدارا! اپنے لوگوں پر اعتبار کرنا سیکھیں اور اقتدار کو خاندان کی باندی سمجھنے کے بجائے عوام کی طاقت سمجھیں۔ ویسے جس عوام سے آپ اپنا علاج تک چھپا رہے ہیں اور ایک معمول کی سرجری کو آپ نے ''کنفیوزڈ سرجری'' بنا دیا ہے جب ان سے ہی ووٹ مانگتے ہیں تو ہلکی پھلکی شرم آتی ہے یا وہ بھی چھپا جاتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں