قسطنطنیہ سے استنبول تک
پرانےمسلمان اپنا ماضی اورماضی کےرشتےفراموش نہیں کر سکتےیوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم لوگ ان رشتوں کی ڈورسےبندھے ہوئے ہیں
حیرت ہے کہ اسلامی تاریخ کا وہ پتھریلا مختصر سا راستہ میں نے کیسے صحیح سلامت طے کر لیا تھا جب کہ میرے جیسے ماضی پرست کے لیے خود یہ راستہ ایک بڑی ہی جذباتی تاریخ کو اپنے اندر بڑی مشکل سے قابو کیے ہوئے تھا۔
اس چھوٹے سے راستے پر سفید بجری بچھی ہوئی تھی اور محمد فاتح کا سفید گھوڑا اسی بجری پر چند قدم چل کر اس خوبصورت عمارت ایا صوفیہ میں داخل ہوا تھا اس فاتح کی آنکھوں میں آنسو تھے ایک تو اس بات کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کے لیے دعا فرمائی تھی اور ارشاد تھا کہ کتنا ہی خوش بخت ہو گا وہ لشکر جو قسطنطنیہ کو فتح کرے گا اور دوسرے اس ناقابل شکست سمجھے جانے والے شہر کو اس نے فتح کر لیا۔ جب قسطنطنیہ کے شہری صبح گھروں سے باہر نکلے تو ان کی گلیوں میں اجنبی لوگوں کے گھوڑے دندنا رہے تھے وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں ان اجنبی لوگوں کو دیکھتے رہے جو سونتی ہوئی تلواروں کو لہراتے ہوئے اس ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے شہر میں گھوم رہے تھے۔ یہ فتح و نصرت کے پرچم لہرا رہے تھے۔
مسلمان سپہ سالاروں کی زندگی کی یہ سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ اس شہر کو کسی طرح فتح کر لیں۔ بھاری زنجیروں میں لپٹا ہوا یہ تاریخی شہر بازنطینی سلطنت کا مشرقی مرکز تھا۔ ایک بڑی سی پہاڑی کے دامن میں زنجیروں کا ایک سلسلہ اوپر سے اتر کر زمین کی سمت آیا تھا اور اس شہر کے گرد لپٹ گیا تھا۔ ان زنجیروں کو توڑے بغیر اس شہر کی ہوا بھی نہیں لگ سکتی تھی لیکن ایک نوجوان سپہ سالار اور خلیفہ محمد نے جو فاتح کے نام سے مشہور ہوا اپنے پیرومرشد کے حضور حاضر ہوا جو اس کے لشکر کے ساتھ سفر کر رہے تھے ان سے دعا کی التجا کی اور بتاتے ہیں کہ اس نے پیر کے سامنے نعرہ تکبیر بلند کیا اور خیمے سے باہر نکل آیا۔
یہ ترک فاتح ان زنجیروں کو پھلانگ لشکر کے سمیت کیسے راتوں رات قسطنطنیہ میں داخل ہو گیا اس پر مورخوں نے کتابیں لکھی ہیں۔ اس نے جنگل سے موم والے درختوں کو کاٹا ان کی موم نچوڑی اور اسے ان زنجیروں پر لیپ دیا۔ پھر اس کا لشکر ان زنجیروں پر سے پھسلتا ہوا اس شہر میں داخل ہو گیا۔ اس میں داخلے کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ سلطان محمد فاتح کی فوج جب اس شہر میں داخل ہو گئی تو کہانی ختم ہو گئی اور یہ عظیم المرتبت شہر سرنگوں ہو گیا۔ اس شہر کے کسی فاتح لشکر میں شرکت مسلمانوں کے لیے ایک بابرکت عمل بن گئی۔
حتیٰ کہ حضور پاکؐ کے مدینہ میں قیام کے میزبان ابو ایوب انصاریؓ جو بوڑھے ہو چکے تھے لشکر میں شامل ہو گئے اور وصیت کی انھیں اس شہر کی فصیل کے قریب ترین دفن کیا جائے آج ان کا مزار اس شہر کا مرکز ہے جہاں ہر وقت ہجوم رہتا ہے۔ مجھے اس مزار کی زیارت کی برکت مل چکی ہے۔ مزار کے قریب ہی ترکوں کی ایک شاندار مسجد ہے۔ عظیم ترک بادشاہ کی تعمیر کرائی گئی عقیدت کی ایک زندہ مثال۔ یہ سب باتیں یاد اس طرح آئیں کہ ترکوں نے گزشتہ دنوں قسطنطنیہ (استنبول) کی فتح کا جشن منایا۔ اس فتح کو 563 برس ہو گئے ہیں۔ اس جشن اور جلوس میں دس لاکھ کے قریب ترک شریک ہوئے۔ اس کی قیادت ترک صدر رجب طیب اردوان نے کی۔
اس فتح کے بعد شہر کا نام بدل کر استنبول رکھ دیا گیا اور پاکستان کے دارالحکومت کا نام بھی ہم نے اسلام آباد رکھ کر 'استنبول' کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ آنحضرت علیہ السلام کی دلی خواہش تھی کہ قسطنطنیہ فتح کیا جائے۔ اس شہر کو فتح کرنے والے لشکر کے لیے حضور پاک سے کئی دعائیں منقول ہیں جو خلافت عثمانیہ کے ایک خلیفہ محمد اور ان کے لشکر کے حصے میں آئیں۔ عام ترکوں کو یقین تھا کہ ان کا یہ خلیفہ جنتی ہے جس کے لیے حضور پاکؐ کی دعائیں تھیں۔ یورپ کے سازشی عناصر نے خلافت عثمانیہ ختم کر دی اور اس طرح مسلمانوں کا ایک مرکزی اتحاد اور طاقت ختم ہو گئی۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک ایسا جذباتی معاملہ تھا کہ ہندوستان میں بھی تحریک خلافت چلائی گئی جب کہ یہ ملک خلافت عثمانیہ میں شامل نہیں تھا۔ مسلمان خواتین نے اس تحریک میں جو زیور دیے وہ ترکوں کو بہت عزیز ہیں اور وہ آج بھی اس پر فخر کرتے ہیں۔
حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ اب خلافت عثمانیہ ایک بھولی ہوئی داستان بن چکی ہے۔ ترک جو خلافت عثمانیہ سے براہ راست متاثر تھے اب اس کی یاد مناتے رہتے ہیں اور اپنی یادوں میں ماضی کو زندہ رکھتے ہیں لیکن ہم پاکستانی جو براہ راست متاثر نہیں ہیں جذبات میں ترکوں کے برابر کے شریک ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ پرانے مسلمان اپنا ماضی اور ماضی کے رشتے فراموش نہیں کر سکتے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم لوگ ان رشتوں کی ڈور سے بندھے ہوئے ہیں اور یہی ہماری زندگی ہے۔
میں جب کبھی ان شہروں اور آبادیوں میں جاتا ہوں جن کے ساتھ ہمارے بڑوں کے کارنامے وابستہ ہیں تو مجھے ایک نئی زندگی ملتی ہے آپ بھی جب موقع ملے تو ان مقامات پر جائیں ہمارا مستقبل ماضی کی ان یاد گاروں سے وجود میں آتا ہے اور ہم ایک ایسی خوش نصیب قوم ہیں جو ایک شاندار ماضی رکھتی ہے۔ ایسا ماضی جو اسے آج بھی زندہ رکھتا ہے۔
ہمارے لیے ایک بات بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو بتائیں کہ ہم کون ہیں اور ہمارا ماضی کتنا شاندار ہے۔ ہمارے بزرگوں نے ہمارے اس ماضی کو تعمیر کیا ہے اور تحریروں اور مقامات میں ہمیں یہ ماضی صاف صاف دکھائی دیتا ہے۔ آج جو قومیں بہت اونچی چلی گئی ہیں اور سپر پاور کہلاتی ہیں ان کی زندگی مجھے بڑی محدود دکھائی دیتی ہے۔ سوویت یونین ہمارے سامنے بنی اور اڑ گئی آج اس کا نام بھی نہیں ہے حالانکہ یہ ایک سپر پاور تھی اور ہماری پڑوسی ہونے کی وجہ سے ہم پر برتری بھی جتاتی تھی۔ آج امریکا نے اس کی جگہ لے لی ہے دیکھیے اس کا کیا ہوتا ہے عالمی دانشور اس سے زیادہ پُرامید نہیں ہیں۔