جنگ یا مذاکرات

انھوں نے مزید کہا کہ ملا منصور کو مار کر امن مذاکرات کو سبوتاژ کیا گیا


عثمان دموہی June 02, 2016
[email protected]

گزشتہ ہفتہ پاکستان کے لیے انتہائی بھونچال انگیز ثابت ہوا۔ طالبان رہنما ملا اختر منصور کا بلوچستان میں ڈرون کے ذریعے مارا جانا پاکستان کی سالمیت پر کھلا وار ہے۔ وزیر داخلہ نثار علی خان نے درست ہی کہا کہ ڈرون حملوں پر امریکی جواز ماننا جنگل کا قانون تسلیم کرنے جیسا ہو گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ملا منصور کو مار کر امن مذاکرات کو سبوتاژ کیا گیا اور اس سے پہلے یہی کام امن مذاکرات کے نتیجہ خیزی کی جانب جاتے ہوئے ملا عمر کی ہلاکت کی خبر لیک کر کے کیا گیا تھا۔ نثار علی خان کا لگی لپٹے بغیر امریکا کو آئینہ دکھانا پاکستانی قوم کے لیے نہایت اطمینان کا باعث بنا ہے۔ کاش کہ حکومت نے شروع سے ہی امریکا کے آگے جھکنے کے بجائے یہی لب و لہجہ رکھا ہوتا اور ٹھوس خارجہ پالیسی اختیارکی ہوتی تو آج امریکا پاکستان کو اتنا ہلکا نہ لیتا نہ ملا منصور کو پاکستانی حدود میں نشانہ بناتا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا یہ بیان کہ ہم نے پاکستان کو حملے کے بارے میں بتا دیا تھا انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ پاکستان کو حملے کے سات گھنٹے بعد مطلع کیا گیا۔

یہ پاکستان کی سالمیت کے ساتھ کھلا مذاق ہے مگر یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی وجہ ہماری بے سمت خارجہ پالیسی ہے۔ امریکی حکومت نے ہر معاملے میں پاکستان پر الزامات لگانا، امداد پر سخت شرائط عائد کرنا اور بھارت کی طرف داری کرنا اپنا وتیرہ بنا لیا ہے۔ گو کہ افغان مسئلے میں پاکستان نے بے شمار اور بے بہا قربانیاں دی ہیں مگر افسوس کہ کریڈٹ بھارت لے جا رہا ہے۔ بقول مشہور تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی امریکا پاکستان سے یہ چاہتا ہے کہ وہ تمام افغان طالبان رہنماؤں کو گرفتار کر کے اس کے حوالے کر دے اور پھر وہ اپنی شرائط پر ان سے مسئلہ حل کر لے۔

سوال یہ ہے کہ امریکا نے بھارت کو افغانستان میں کیوں فری ہینڈ دے رکھا ہے؟ افغان حکومت دراصل اسی کے اشارے پر چل رہی ہے مگر بھارت افغان مسئلے کے حل کے سلسلے میں امریکا کی کیا مدد کر رہا ہے؟ وہ تو الٹا افغان مسئلے کو طول دے کر امریکا کی پریشانیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ افغان حکومت افغانستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی کا الزام پاکستان پر عائد کرتی رہتی ہے۔ یہ الزامات بغیر تحقیق کے بالکل اسی طرح پاکستان پر لگائے جاتے ہیں جس طرح بھارتی حکومت بھارت میں ہونے والی ہر دہشتگردی کا الزام بلا تحقیق پاکستان پر لگاتی رہتی ہے۔ لگتا ہے بھارت پاکستان سے کشمیر کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان کو خوب خوب استعمال کر رہا ہے مگر اس میں اسے ضرور امریکی خوشنودی حاصل ہو گی۔

ملا اختر منصور کی ہلاکت سے اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ امریکا امن مذاکرات میں قطعی سنجیدہ نہیں ہے اس سے یہ بھی لگتا ہے کہ وہ ابھی افغانستان میں اپنا مزید وقت گزارنا چاہتا ہے مگر اب اس سے صدر اوباما کا وہ منصوبہ مذاق بنتا نظر آ رہا ہے جس کے تحت انھوں نے امریکیوں سے 2016ء تک افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا وعدہ کیا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے درست ہی لکھا ہے کہ افغانستان میں امریکا کے مزید پڑاؤ سے اسے سوائے نقصان اور ہزیمت کے کچھ ملنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ وہاں طالبان پر قابو پانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

طالبان اب بھی پہلے کی طرح تروتازہ ہیں وہ جم کر امریکی فوجوں کا مقابلہ کر رہے ہیں جب کہ امریکا کی تربیت یافتہ افغان فوج طالبان سے ہر محاذ پر شکست کھا رہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ افغانستان کے ہر صوبے میں طالبان کی شیڈو حکومتیں قائم ہیں اور حقیقتاً وہ ہی وہاں کا نظم و نسق چلا رہی ہیں افغان حکومت کا وجود صرف کابل میں ہے اور کابل کے باہر صرف اور صرف طالبان کا حکم چلتا ہے۔ اب ایسی صورت میں اوباما حکومت کو لازمی طور پر افغانستان میں اپنی مزید فوج بھیجنا ہو گی اس طرح اب امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا خیال و گمان بن گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ اب تک طالبان کو مذاکرات کی جانب مائل کرنے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے حالانکہ طالبان امریکا کی پشت پناہی کرنے کی وجہ سے پاکستان سے سخت ناراض ہیں مگر پاکستان کسی طرح انھیں گھیر کر مذاکرات کی میز تک لاتا رہا ہے۔

پاکستان کے اس قابل تعریف کردارکو دشمنوں نے پاکستان طالبان گٹھ جوڑ سے تعبیر کر کے شک و شبے سے دوچار کر دیا ہے اور پاکستان کو کھلم کھلا طالبان کا حمایتی اور مددگار قرار دیا جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ پاکستان طالبان کو اپنے ہاں چھپنے کے لیے پناہ گاہیں مہیا کر رہا ہے ساتھ ہی ان کی عسکری مدد بھی کر رہا ہے تاہم اس الزام میں جان نہیں ہے ۔

ایک تجزیہ کار کے مطابق افغان قیادت کی پاکستان سے دشمنی کی اصل وجہ بھارت کی اس پر نوازشوں کی برسات ہے۔ افغان حکومت اپنی خفیہ ایجنسی خاد کے دہشت گردوں کے بلوچستان میں گرفتار ہونے کے بعد افغان حکومت کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا ثبوت سامنے آ گیا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ افغان حکومت خود ہی افغانستان کے امن کو تباہ کر رہی ہے ساتھ ہی پوست کی کاشت کو اپنی سرپرستی میں بڑھاوا دے رہی ہے۔ اب اس وقت کرزئی اور اس کے ہمنوا افغانستان میں پاکستان کے خلاف بھارتی تخریبی مشن کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں بلوچستان کے حالات اسی کے زمانے میں خراب ہونا شروع ہوئے تھے اب اس میں موجودہ حکومت اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔

حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کا معاملہ امریکا اور اقوام متحدہ کے سامنے رکھے ساتھ ہی افغان مہاجرین کی جلدازجلد واپسی کے لیے اصرار کرے اور اگر اس معاملے پر ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے تو جیساکہ کئی برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے تو پھر پاکستان خود ہی ان کی واپسی کا انتظام کرے کیونکہ ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ صدر اوباما نے طالبان سے مذاکرات کو مشکل قرار دے دیا ہے ساتھ ہی طالبان سے نمٹنے کا عندیہ بھی دیا ہے ان کا یہ غیر ذمے دارانہ رویہ ان کی رخصتی کے بعد نئی امریکی حکومت کے لیے ایک چیلنج سے کم ثابت نہیں ہو گا۔

ادھر افغان حکومت نے بھی طالبان کو دھمکی دی ہے کہ وہ دہشتگردی سے باز آ جائیں ورنہ ان کا حشر ملا اختر منصور جیسا ہو گا۔ ان تمام باتوں سے اب یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ مستقبل میں پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ ادھر بھارت، ایران، افغانستان کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کے لیے نئی پریشانیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس کی پوری کوشش ہے کہ پاکستانی مغربی سرحد کو بھی غیر محفوظ بنا دیا جائے۔ چنانچہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان طالبان اور امریکا کے درمیان مصالحت کرانے کی ناکام پالیسی سے مستقل طور پر پہلو تہی اختیار کر لے امریکا کو اب یہ مسئلہ خود حل کرنے دیا جائے البتہ ہمیں افغان بارڈر پر بہرصورت باڑھ لگانا ہو گی ساتھ ہی امریکی بے رخی اور احسان فراموش کا جواب دینے کے لیے چین سے روابط مزید مضبوط کیے جائیں لیکن چین سے امریکا کی طرح آقا اور غلام جیسے تعلقات استوار کرنے کی غلطی نہ دہرائی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں