یہ میرا پاکستان ہے
ہمارے ملک میں عوام کے حقوق کا کوئی تصور ہی نہیں۔انتخابات کے دوران ہر سیاسی جماعت بلند و بانگ دعوے کرتی ہے
لاہور:
ہمارا ملک اپنی نوعیت کا واحد نہ سہی مگر منفرد ضرور ہے۔ملک چھوٹا ہو یا بڑا، پسماندہ ہو یا ترقی یافتہ حکومت اپنے عوام کے لیے اپنے وسائل کے مطابق کچھ نہ کچھ سہولیات ضرور مہیا کرتی ہے۔ اگرکسی ملک کے وسائل محدود ہوں تب بھی کم ازکم مختلف ادارے اور شعبے اپنے اپنے دائرہ کار میں عوامی خدمت کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اپنی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی تگ ودو کرتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک تو اپنے شہریوں کو زندگی کی تمام سہولیات فراہم کرتے ہی ہیں مگر غریب اور پسماندہ ممالک بھی عوامی حقوق کی پاسداری اور ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہیں۔
ہمارے ملک میں عوام کے حقوق کا کوئی تصور ہی نہیں۔انتخابات کے دوران ہر سیاسی جماعت بلند و بانگ دعوے کرتی ہے کہ ہم تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اورجانے کن کن شعبوں میں انقلاب لائیں گے۔ ہر شخص کو طبی سہولت، ہر بچے کو تعلیم اور ہر شخص کو انصاف ملے گا۔ گزشتہ انتخابات میں تھانہ اور پٹواری کلچر کے خاتمے پر بھی خاصا زور دیا گیا تھا۔ ملک کی حالت زار پسماندہ ترین ممالک سے بھی بدتر ہے جب کہ اخبارات و دیگر ذرایع ابلاغ میں آئے دن مختلف اداروں، محکموں اور شعبوں میں اربوں کی بدعنوانی کے انکشافات روزکا معمول ہیں۔
اب پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے سے اندازہ ہوا کہ ہمارا ملک تو طاقتور ممالک سے بھی زیادہ دولت مند ہے کہ جس کا کھربوں روپیہ نہیں بلکہ ڈالرز ملک سے باہر محفوظ ہے اور ساتھ ساتھ جو کچھ ملک میں ہے اس میں بھی اس قدر خورد برد ہو رہی ہے تو ان سب کو اکٹھا کیا جائے تو کتنی دولت بنے؟ مگر عوام کے خون پسینے کی کمائی چند ہاتھوں میں ہے۔ ضروریات زندگی پوری ہوں یا نہ ہوں کم از کم انسان کی عزت نفس کو تو پامال نہ کیا جائے۔
عوام کو بہتر طبی سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کچھ یوں پورا ہوا کہ کراچی جیسے بڑے شہر کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں طبی فضلہ تلف کرنے کی سہولت موجود نہیں۔ سرنجز، خون اور یورین کے بیگس، ڈرپس وغیرہ کو تلف کرنے کی بجائے ری سائیکلنگ کرنے والوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے جو انھیں دوبارہ قابل استعمال بنا کر اسپتالوں کو دیتے ہیں جس کے باعث مریض تندرست ہونے کے بجائے مزید امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اس صورتحال کے باوجود محکمہ صحت کی جانب سے اس پر کوئی باز پرس نہیں کی جا رہی۔ سول اسپتال کراچی کا وینٹی لیٹر کئی ماہ سے ناکارہ پڑا ہے، نئے وینٹی لیٹر کے لیے وزارت صحت نے فنڈز جاری کر دیے ہیں مگر ابھی تک یہ فنڈز ریلیز نہیں ہو سکے۔ سول اسپتال کے علاوہ لیاری، لیاقت آباد جنرل اسپتال کے علاوہ عباسی شہید اسپتال میں بھی یہ مشینیں موجود نہیں یا خراب ہیں۔ ان تمام اسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر طبی فضلہ تلف کرنے کے بجائے خاکروب اور عملے کے بعض افراد افسران کی ایما پر کچرا ری سائیکلنگ کرنے والوں کو فروخت کر دیتے ہیں ۔ اس طرح غیر معیاری طبی اشیا کے استعمال سے مزید خطرناک بیماریاں پھیلنے کے خدشے میں بھی روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔
یوں قوم کی صحت برقرار رکھنے کے بجائے انھیں مزید بیماریوں میں (محض چند روپے کمانے کی خاطر) مبتلا کیا جا رہا ہے۔ ایک اور خبر کے مطابق سرکاری اسپتالوں کے مختلف شعبہ جات این جی اوز کو دینے سے مریضوں کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ این جی اوز بہتر علاج کی سہولت پر دھیان دینے کے بجائے صرف ظاہری صفائی ستھرائی پر توجہ دے رہی ہیں۔
سندھ میں بچوں کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال این آئی سی ایچ کے شعبہ حادثات کو چلانے والی این جی او چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کی جانب سے یہ پالیسی اختیار کی گئی ہے کہ صرف شدید بیمار بچوں کا شعبہ حادثات میں معائنہ ہو گا جب کہ کم بیمار بچوں کو یہ کہہ کر واپس کر دیا جاتا ہے کہ ان کو صبح او پی ڈی میں دکھایا جائے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس شعبے کے پرچی کاؤنٹر پر اسٹاف نرس بچے کو معمولی معائنے کے بعد ٹھیک قرار دیتی ہے اور تفصیلی معائنے کے لیے پرچی تک نہیں بنائی جاتی۔ والدین اس صورتحال پر احتجاج کریں تو گارڈز کو بلا کر انھیں اسپتال سے باہر نکلوا دیا جاتا ہے۔
ہماری حکومت کے تمام تر انتخابی وعدوں کے باوجود کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ سرگودھا ڈویژن کے ضلع میانوالی کے مقام پر جناح بیراج پر دریائے سندھ سے تشدد زدہ اور بوریوں میں بند لاشیں ملنا کئی ماہ پہلے سامنے آیا تھا ۔
اپریل کے بعد مئی کے اولین سترہ اٹھارہ دنوں میں پھر گیارہ لاشیں جن میں ایک کمسن بچے کی لاش بھی شامل ہے ملی ہے۔ اس طرح اب تک ملنے والی لاشوں کی کل تعداد 43 ہو گئی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں دریا سے لاشوں کا ملنا کے پی کے اور حکومت پنجاب دونوں کے لیے ایک اہم اور فوری تحقیق کا باعث ہونا چاہیے تھا مگر اب تک اس سلسلے میں کوئی موثر کارروائی نہ ہونا تعجب خیز ہے۔
یہ دریا آزاد کشمیر اورکابل سے ہوتا ہوا آتا ہے کالا باغ کے قریب جناح بیراج کے گیٹوں میں اٹک کر ملنے والی لاشوں کا یہ سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے جن میں خواتین اور بچوں کی لاشیں بھی شامل ہیں۔ خیال رہے یہ تو وہ تعداد ہے جو پھاٹک میں اٹک جاتی ہیں جب کہ مزید لاشیں پانی کی نچلی تہہ سے بہہ کر سمندر تک بھی چلی جاتی ہوں گی اتنی بڑی تعداد میں لاشیں ملنے پر نہ حکومت پنجاب نے اور نہ کے پی کے کی حکومت نے اب تک کوئی تحقیق نہیں کی لگتا ہے کہ ان دونوں صوبوں کے حکمران اب تک ان لاشوں کے ملنے سے باخبر نہیں ہیں نہ ہی وفاقی حکومت نے اب تک اس میں کسی دلچسپی کا اظہار کیا۔
صرف مئی کے مہینے کے اخبارات ہی میں اتنی خبریں ہیں کہ کئی صفحات بھر جائیں بلکہ ایک کتاب مرتب ہو جائے مگر ہمیں کیونکہ صرف ایک کالم لکھنا ہے۔ اب ذرا انصاف جو ہمیں دہلیز پر ملنے والا تھا اس کی بھی ایک دو خبریں پڑھ لیجیے اور بس۔کراچی ایئرپورٹ پر کسٹم حکام نے غیر ملکی کرنسی بیرون ملک لے جانے کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے رکن صوبائی اسمبلی کے بھائی کو بلاقانونی کارروائی ذاتی مچلکوں پر ضمانت پر رہا کر دیا جن کو ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس نے حراست میں لیا تھا اور قانونی کارروائی کے لیے کسٹم حکام کے حوالے کیا تھا، کسٹم حکام نے سیاسی دباؤ پر انھیں ضمانت پر رہا کر دیا۔
رہ گیا وی آئی پی کلچر کا خاتمہ تو وہ یوں ہو چکا ہے کہ سندھ کے چیف سیکریٹری کے کچن کی مرمت اور صاف پانی کے لیے 40 لاکھ روپے منظور کیے گئے ہیں۔ اگر یہ 40 لاکھ غریبوں کو دیے جاتے تو 40 لاکھ گھرانوں کو ایک ایک لاکھ کی خطیر رقم ملتی جو انھوں نے خواب میں بھی نہ دیکھے ہوں گے۔