بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی

بابے،درویش،ولی،قطب اور صوفیاء بہت مشکل لوگ ہوتے ہیں


راؤ منظر حیات June 04, 2016
[email protected]

بابے،درویش،ولی،قطب اور صوفیاء بہت مشکل لوگ ہوتے ہیں۔نہ ان کے بہت قریب جاناچاہیے اورنہ ہی بہت دور۔معلوم نہیں،کس موج میں کیاکہہ دیں۔مگران سے نقصان کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔مجھے تویہ سارے بحری قزاق معلوم ہوتے ہیں۔دل پرنقب لگاتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں۔کبھی کم غائب اورکبھی مکمل غائب۔ پر دراصل غافل نہیں ہوتے۔ہو بھی نہیں سکتے۔چوری کیا ہوا سامان ہمیشہ واپس کردیتے ہیں۔کئی باردگنااوردل چاہے تو ہزارگنازیادہ۔پھربھی ان لوگوں سے حدِادب میں رہ کرمحتاط رہناچاہیے۔مگرشائد،محتاط رہناممکن ہی نہیں۔ اصل میں عشق،سلوک اورقرب کی پگڈنڈیاں انتہائی کٹھن ہیں۔ مگر بہت آسان بھی۔سیدھی سادی سی ٹیڑھی لکیریں۔

سائنس کے طالب علم کی حیثیت سے میرے ذہن پر ہمیشہ کوڑے برستے ہیں۔عمل اورردِعمل کی دنیاکاباسی، کس طرف چل پڑاہے۔کئی بارمذاق اُڑایاجاتاہے۔کبھی کبھی تضحیک آمیز میلز بھی موصول ہوتی ہیں۔ہرایک کاشکریہ ادا کرکے عشق کی پگڈنڈیوں پردوبارہ آہستہ آہستہ چلناشروع کردیتاہوں۔میری دلیل ہے کہ اگرعقل اورشعور،ایک چیز یا اَمرکووضاحت سے دیکھ نہیں سکتا،یااسے محسوس نہیں کر پاتا، تو کیااسکاوجودہی نہیں ہے۔کیاوہ موجودہی نہیں ہے۔دل میںہرطرح کے خیالات سرکش گھوڑے کی طرح بھاگنا شروع کردیتے ہیں۔کبھی ایک طرف اورکبھی دوسری طرف۔ قرارکہاں اورسکون کہاں۔

لارنس روڈکادرویش شام کوبڑے اہتمام سے اپنے گھرکے باہرلگے ہوئے خیموں میں بیٹھ جاتاتھا۔ہرطرح کے لوگ،بلکہ ہرمذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود۔ ہربندہ اپنی بساط اوراستطاعت کے حساب سے سوال پوچھتا تھا۔کسی کوجواب مل جاتاتھااورکئی افرادکوسوال کے جواب میں ایک اورسوال ملتاتھا۔تیس برس پہلے، شام کوحسب معمول محفل جاری تھی۔ہرمحفل کااختتام،پر تکلف کھانے پر ہوتاتھا۔درویش کاحکم تھاکہ جوبھی ان کے پاس آئے، کھانا کھائے بغیراجازت نہیں لے سکتا۔شائددن میں سیکڑوں لوگ پیٹ کی آگ بجھاکرجاتے تھے۔

بغیرہاتھ پھیلائے اوربغیرتقاضہ کیے،سب کوکھانااہتمام سے کھلایا جاتا تھا۔ کہتے تھے کہ یہ حکم ہے اورآخری وقت تک جاری رہیگا۔سچ بھی یہی ہے کہ ان کے وصال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔اتنے زیادہ وسائل کہاں سے آتے تھے،کسی کے علم میں نہیں تھا۔ پوچھنے کی جرات بھی کسی کونہیں تھی۔بہرحال یہ ایک نظام ہے،ایک دلفریب نظام جس کوسمجھنے کے باوجودسمجھنا نہیں چاہیے اورجاننے کے باوجودانجان رہناچاہیے۔خیرمحفل جاری تھی۔بیس پچیس لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ان میں میراایک قریبی دوست بھی تھا۔ نیانیامیڈیکل کالج سے ڈاکٹربن کریقین اوربے یقینی کے درمیان کی کیفیت میں غوطے کھارہاتھا۔ایسے غوطے،جن میں بدن خشک رہتا ہے، مگرروح مکمل بھیگ جاتی ہے۔

کھانے لگنے سے بیس منٹ پہلے،دونوجوان خیمے میں آگئے۔تمام لوگ تھوڑے سے مزید سمٹ کربیٹھ گئے۔درویش نے نوجوان کوغورسے دیکھ کر پوچھاکہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں۔ درویش، ہر ایک کو ''آپ'' کہہ کرمخاطب کرتے تھے۔نوجوان نے جواب دیا کہ جرمنی سے انجینئرنگ میں پی۔ایچ۔ڈی کرکے آیا ہے۔ خیربات ختم ہوگئی۔نوجوان سمجھاکہ درویش کواسکی اعلیٰ ترین تعلیم کامعلوم نہیں ہوا۔شائدانھیں پی۔ایچ۔ڈی کامعلوم ہی نہیں ہے۔دوتین مرتبہ،قدرے بلندآوازسے بتایاکہ دنیاکی بہترین یونیورسٹی سے تعلیم لے کرآیاہے اورپورے ملک میں اس کے پایہ کاکوئی عالم نہیں ہے۔

درویش مکمل خاموش ہوگئے۔ایسالگاکہ انھوں نے نوجوان کی بات سنی ہی نہیں۔ تھوڑی دیرمیں کھانالگ گیا۔درویش نے نوجوان کونزدیک بلایااوراپنے ہاتھ سے پلیٹ اس کے حوالے کردی۔ کھانا شروع ہوگیا۔پانچ دس منٹ بعد،درویش نے انجینئرسے سوال کیا کہ آپ کتناپڑھے ہوئے ہیں۔نوجوان نے دوبارہ اپنی ڈگریاں گنوانی شروع کردیں۔درویش نے عجیب ساسوال کردیا۔پوچھنے لگے کہ"لوح محفوظ"پرکیادرج ہے۔پڑھ کر بتاسکتے ہو۔نوجوان کاجواب نفی میں تھا۔ فرمانے لگے کہ اگر لوح محفوظ نہیں پڑھ سکتے،توپھرپڑھے ہوئے کیسے ہو۔محفل میں سناٹاچھاگیا۔درویش نے دوبارہ نرمی سے دریافت کیا۔

آپ ''لوح محفوظ''پرخداکی اجازت سے کچھ لکھ بھی سکتے ہو یا نہیں۔نوجوان کاجواب دوبارہ نفی میں تھا۔کہنے لگے کہ پھر لکھنے والے کیسے کہلانے لگے۔پڑھے لکھے ہونے کادعویٰ کرناتوبہت مشکل ہے بلکہ شائدناممکن۔محفل کے اختتام پر درویش نے نوجوان سے کہاکہ پڑھالکھاکون ہے اورکون نہیں ہے،اس کا دعویٰ اور فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ جائیے،خداآپ کی حفاظت کرے۔

خسرو دریا پریم کا الٹی واکی دھار

جو اترا سو ڈوب گیا جو ڈوبا سو پار

(امیرخسرو)

نام نہیں لکھناچاہتا۔اس لیے کہ اجازت نہیں لی اورمقام ادب بھی یہی ہے۔ایک قریبی دوست، جو میڈیکل کالج میں میرے ساتھ تھا،پندرہ سال پہلے ایک دم غائب ہوگیا۔ دوچارمہینے کے بعد،ملاقات ہوئی تو اپنے مرشدکے ہمراہ، آنکھوں کی سرجری کی مشین لینے آیا ہواتھا۔اسے دیکھ کر ذہن بھک سے اُڑگیا۔لگاکہ فضامیں معلق ہوگیا ہوں۔میں تو اس شخص کوجانتاتک نہیں ہوں۔یہ توکوئی اورانسان ہے۔ بالکل بدلا ہوا آدمی۔ بیس سال کی رفاقت ایک طرف اوراس اجنبی آدمی سے ملاقات ایک جانب۔ میرادوست اوران کے مرشد، دونوں کے۔ ای میڈیکل کالج سے پڑھے ہوئے تھے۔

دونوں آنکھوں کی مفت سرجری کرتے رہے۔کسی معاوضہ کے بغیر،کسی فیس کے بغیر اورکسی شہرت کے حصول کے بغیر۔ ان کے مرشدسے توسرسری سی ملاقات رہی مگراپنے دیرینہ دوست نے مجھے ششدر کردیا۔ میرا، آج بھی اپنے دوست سے انتہائی ذہنی قربت کاتعلق ہے۔میں،دوست لکھتے ہوئے گھبرا سا رہا ہوں۔ اب میں اس سے مکمل طور پر مرعوب ہوں۔لیکن اسے بتاتا نہیں۔دس سال پہلے میرے گھرآیا۔پوچھنے لگاکہ موتی محل مسجدکانقشہ چاہیے۔

شاہجہان بادشاہ کی تعمیرشدہ مسجدکاپوچھ رہا تھا۔ میرا جواب نفی میں تھا۔پتہ نہیں کیسے، اس نے آگرہ میں موجود، مسجدکامکمل نقشہ حاصل کیا اور منڈی بہاؤالدین کے نزدیک بالکل اسی طرز کی مسجدکی تعمیر شروع ہوگئی۔ مسجد سات آٹھ برس سے زیر تعمیر ہے۔ ڈاکٹردوبارہ میرے پاس آیا۔پوچھاکہ لاہور کا سب سے بہترین آرکیٹکٹ کون ہے۔میں نے دوتین نام بتائے۔ ڈاکٹر کا سوال بہت عجیب تھا۔پوچھنے لگاکہ مسجدکوہم لوگ، سیمنٹ اورلوہے کے بغیرتعمیرکرناچاہتے ہیں،کیونکہ سیمنٹ اور لوہے ،دونوں کی طبعی عمرہوتی ہے۔یہ مسجد سیکڑوں برس قائم رہیگی۔ لہٰذا تعمیرمیں لوہے اورسیمنٹ کو استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر نے پوری تحقیق کرکے،قدیم زمانے میں فن تعمیرکے تجربہ سے فائدہ اٹھایا۔اب مسجد تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔اس میں کسی قسم کاجدیدمیٹریل استعمال نہیں کیاگیا۔لیکن حیرت کادروازہ ابھی کھلا نہیں ہے۔

ہر جمعے کوڈاکٹراوران کے مرشدسمیت،سیکڑوں لوگ، پتھرکاٹتے تھے۔ان پرقرآنی آیات لکھتے اورلکھواتے تھے اورمزدروں کی طرح کام کرتے تھے۔ماضی کاصیغہ اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ مرشدکاانتقال،چندماہ پہلے ہوگیا۔ اُس وقت محفل میں"قصیدہ بردہ شریف "پڑھا جا رہا تھا۔ خیرحیرت کا دروازہ یہ تھاکہ ایک دن ڈاکٹرسے پوچھاکہ آپ لوگ کروڑوں روپے مسجدکی تعمیرپرخرچ کررہے ہیں۔یہ تمام وسائل کہاں سے آتے ہیں۔کیونکہ آنکھوں کے آپریشن کی کوئی فیس نہیں لیتے اورآپ کے بقول، چندہ اورخیرات بھی وصول نہیں کرتے۔ ڈاکٹرخاموش ہوگیا۔لگاکہ میں نے غلط سوال پوچھ لیا ہے۔ایک عجیب سی کیفیت بھی طاری ہوگئی۔ایسے لگتاتھاکہ ڈاکٹرمجھ سے عمرمیں دوڈھائی سو سال بڑاہے اور ایک سنجیدہ سابزرگ ہے۔چارپانچ منٹ کی خاموشی کے بعد،خودبخودبولنے لگا۔یہ خداکے فیصلے ہوتے ہیں کہ اس نے کس کووسائل کب،کہاں اورکیسے مہیاکرنے ہیں۔اس میں انسان کی لگن اورمحنت تو شامل ہے مگرنتائج اورنتائج کی مقدار پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں۔پوچھاکہ جناب ڈاکٹر صاحب، میرا سوال توسادہ ساہے،مسجدکی تعمیر کے تمام پیسے کہاں سے آرہے ہیں۔

جواب میرے لیے حیران کن تھا۔ کہنے لگا کہ ہم نے تمام لوگوں کوجمعے والے دن پیسے دینے ہوتے ہیں۔عصرکے بعد، مگر مغرب سے پہلے۔ہرمحنت کش کواسکامعاوضہ ادا کرنا ہوتا ہے۔سات آٹھ سال سے آج تک ایک باربھی ایسا نہیں ہواکہ کوئی شخص اپنی محنت کا معاوضہ لیے بغیر گیا ہو۔ مگر میراسوال اپنی جگہ موجود تھا۔

مگر کیسے،ڈاکٹربڑے حیاسے کہنے لگاکہ ہم لوگ جمعے کی صبح کو پورے ہفتے کے اخراجات کوترتیب دے لیتے ہیں۔جیسے آٹھ یادس لاکھ روپے یابارہ لاکھ۔برسوں سے یہ ہورہاہے کہ عصرسے تھوڑی دیرپہلے کوئی نہ کوئی آدمی آتاہے اورہماری ضرورت کے عین مطابق رقم،ہمارے مرشدکے حوالے کرکے چلا جاتا تھا۔وہ آدمی پھرکبھی دوبارہ نہیں آتا۔ ہرجمعے کو،کوئی نیاشخص،آتاہے۔یہ سب کچھ تواتر سے جاری ہے۔ میں،سمجھاکہ ڈاکٹرمجھ سے مذاق کررہا ہے۔ یا شائد میرا امتحان لے رہاہے۔مگراس نے دوبارہ سنجیدگی سے بتایاکہ یہ خداکے فیصلے ہیں، انسانوں کے شعور اور وجدان سے مکمل باہر۔جواب سن کریقین اور بے یقینی کے درمیان،تپتے ہوئے صحرامیں چلنے لگ گیا۔ کیسے، کیایہ ممکن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں