جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی 1

لوگ جمہوریت کو ناکام نہیں کہتے بلکہ سیاست دانوں کو بددیانت اور نااہل گردانتے ہیں


Orya Maqbool Jan June 04, 2016
[email protected]

تاریخ، انسانوں کا صدیوں تک زندہ و جاوید رہنے یا صدیوں تک دوسروں کو ذلیل و رسوا کرنے کی خواہشوں سے جنم لینے والے ایک ایسے عظیم مجموعے کا نام ہے جس میں سچ کو تلاش کرنا ایسا ہے جیسے کالی رات میں سیاہ پتھر پر رینگتی ہوئی کالی چیونٹی کو تلاش کیا جائے۔ دنیا میں آج تک کسی نے تعصب سے بالاتر ہو کر تاریخ مرتب نہیں کی۔ ہر کسی کا اپنا سچ اور اپنا جھوٹ تھا جو اس نے تاریخ کے ذخیرے میں شامل کر دیا۔ ان تاریخ کے ذخیروں میں اگر سچ تلاش کرنے والے بھی آئے تو انھوں نے بھی اپنی مرضی کا سچ ڈھونڈا اور وہ بھی اپنے تعصب کو نہ نکال سکے۔

لوگوں نے اصل ماخذوں سے اپنی مرضی کے واقعات نکالے اور پھر ان کو اپنے نظریات و خیالات کے جواز کے طور پر استعمال کیا، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے یہ کام سنجیدہ مورخین اور ادیب کرتے تھے اب یہ کام میرے جیسے کالم نگاروں نے سنبھال لیا ہے۔ چونکہ تاریخ بذات خود تعصبات کا مجموعہ ہے۔ سچ اور جھوٹ کا ایسا ملغوبہ ہے کہ اس میں سچ تلاش کرنا نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے، اس لیے ہمیں اپنی بات، نظریے اور خیال کو سچ ثابت کرنے کے لیے ہر جانب بے شمار واقعات مل جاتے ہیں۔ اسی لیے ہم کسی کے عقیدے، مذہب، دین یا نظریہ کو جھٹلانا چاہیں تو ہم تاریخ سے ڈھونڈ کر ایسے واقعات لے آئیں گے اور اپنا مقدمہ سچ ثابت کر دیں گے۔

اس معاملے میں انسانی تاریخ کا سب سے مظلوم نظریہ دین اسلام کا ہے۔ کوئی اس نظریے کو باطل ثابت کرنے کی جرات اس لیے نہیں کرتا کہ یہ نا ممکن سا کام ہے۔ لیکن اس عقیدے کو تاریخ کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ ہم میڈیسن کے علم کو ناکام ثابت کرنا چاہیں تو دس ہزار نااہل اور ناکارہ ڈاکٹروں کی مثالیں دے کر ثابت کرتے پھریں کہ یہ علم تو دریا برد ہو جانا چاہیے۔

لیکن کوئی ایسا نہیں کرتا۔ لوگ جمہوریت کو ناکام نہیں کہتے بلکہ سیاست دانوں کو بددیانت اور نااہل گردانتے ہیں۔ لیکن اگر معاملہ دین اسلام کا آ جائے تو دنیا کے ہر خطے میں تعصب نکھر کر سامنے آتا ہے۔ تاریخ سے ڈھونڈ کر مثالیں لائی جاتی ہیں کہ فلاں مسلمان حکمران یا فرد نے ایسا کیا۔ اسے مغل، عباسی، اموی، عثمانی وغیرہ نہیں کہا جاتا۔ جب کہ ظلم اور بربریت کا بازار ہٹلر گرم کرے، کروڑوں لوگ قتل کر دے لیکن وہ جرمن حکمران رہتا ہے ایک عیسائی نہیں کہلا پاتا کہ تاریخ صرف لکھنے والوں کا تعصب نہیں بلکہ اس پر مبنی تبصرہ کرنے والوں، تجزیہ نکالنے والوں اور بڑے بڑے عظیم دانشوروں کے بدترین تعصب کا بھی شاہکار ہے۔

تاریخ کے کوڑے دان سے ہر کسی نے اپنی مرضی کا ورق نکالا۔ جھاڑا پونچھا، نوک پلک سنواری اور کسی کو ظالم، ناکام، بے رحم اور جاہل ثابت کر دیا اور کسی کو عظیم، رحم دل، منصف مزاج اور قابل بنا دیا۔ تاریخ کے تعصب اور جھوٹ کا عالم یہ ہے کہ ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو ہمارے دور کی شخصیات ہیں۔ آپ اول تو ان دونوں کے بارے میں مکمل سچ نہ لکھ پاتے ہیں اور میڈیا کی آزادی کے اس دور میں بھی بول نہیں پاتے۔ آپ کو ان دونوں پر کوئی ایک کتاب بھی تعصب اور جھوٹ سے پاک نظر نہیں آئے گی۔ حالانکہ ان دونوں کے ساتھ زندگی گزارنے اور ان کے عہد میں زندہ رہنے والے کروڑوں لوگ اس دھرتی پر موجود ہیں۔ آپ کو اپنے سامنے ہونے والے واقعے بنگلہ دیش کے قیام پر کوئی ایک آزاد، غیر متعصب اور شک و شبہ سے بالاتر کتاب نہیں ملے گی۔ یہ تو وہ دور ہے جسے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

آج سے ایک ہزار سال بعد اگر کوئی مورخ، تجزیہ نگار یا پھر اس دور کا کالم نگار ضیاء الحق کو ولی بھی ثابت کر سکتا ہے اور منافق بھی، بھٹو کو عظیم سیاسی رہنما بھی بنا سکتا ہے اور غدار وطن بھی۔ اس کے لیے آج ہم جو تاریخ لکھ رہے ہیں اس میں دونوں جانب اتنا مواد موجود ہے کہ کل کئی مورخ بڑی بڑی تجزیاتی کتابیں لکھ سکتے ہیں۔ دو کالم نگار آپس میں ایک طویل بحث چھیڑ سکتے ہیں۔ بے شمار اینکرپرسن دونوں جانب حمایت یا مخالفت میں کئی شو کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہم اسی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس تعصب، جھوٹ، خوشامد، نفرت اور بادشاہوں بلکہ بعض اوقات عوام کے خوف میں لکھی ہوئی تحریر کو اپنا رہنما اور اگلے دور کے لیے کسوٹی بنانا چاہتے ہیں۔

جدید سیکولر علوم کا ایک المیہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دو تین اصولوں کو سچ ثابت کرنے کے لیے تاریخ کے اس کوڑے دان سے اپنی مرضی کا سچ نکالا، مرضی کے ہیرو تراشے اور مرضی کے واقعات کی اپنے تعصب کی بنیاد پر تشریح کی اور پھر اسے ایک عالمی تاریخی سچائی بنا کر دنیا میں پھیلا دیا۔ آج دنیا کے ہر نصاب، ہر تاریخی ریفرنس، ہر تجزیاتی رپورٹ اور ہر دانشورانہ تحریر میں بغیر کسی تحقیق کے ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ مثلاً دنیا بھر میں سکندر اعظم ایک عظیم بادشاہ ہے، چونکہ اس کا تعلق یورپ سے ہے۔ اس کے بارے میں آپ کو جدید نصابوں اور حوالہ جات میں کوئی منفی بات نظر نہیں آئے گی۔ ایک فاتح، ارسطو کا شاگرد، دیو جانس کلبی کا مداح، عظمت و بڑائی کی داستانیں اس سے وابستہ ہیں یہاں تک آپ کو ایران، افغانستان اور پاکستان جن کو اس نے تاراج کیا، یہاں ظلم و تشدد کا بازار گرم کیا، وہاں بھی ڈھائی ہزار سال گزرنے کے باوجود بے تحاشہ بچوں کے نام سکندر ملیں گے۔

حالانکہ سکندر نہ مسلمان تھا اور نہ ہی یہاں کا کوئی مقامی حکمران یا رہنما۔ کوئی نہیں بتاتا کہ وہ دنیا کا انتہائی ظالم حکمران تھا، ایسا ظالم کہ اس نے تھیبس شہر کے تمام شہریوں جن میں ایک دن کے بچے سے لے کر نوے سال کے بوڑھے تک سب شامل تھے، اس لیے قتل کر دیا تھا کہ انھوں نے سکندر کے بیمار پڑنے پر یہ خبر اڑا دی تھی کہ سکندر مر گیا ہے۔ جس نے تاریخ میں پہلی دفعہ سفارت کاروں کو قتل کرنے کا آغاز کیا۔

جس نے ایران میں پارسیوں کی مذہبی عبادت گاہ اس لیے مسمار کی کہ اس کو پتہ چلا تھا کہ اس میں سونا اور جواہرات ہیں۔ اس مشہور یونانی علم دوست نے ایران کے کتب خانے کو آگ لگائی۔ یہ سب کچھ اسی تاریخ کے کوڑے دان میں موجود ہے۔ لیکن کسقدر صفائی سے جھاڑ پونچھ کر اس کی شخصیت کو امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک ہر نصاب میں پڑھایا جاتا ہے۔

دوسری جانب تاریخ کے اسی کوڑے دان سے ایک جھوٹ نکالا جاتا ہے جس سے ایک مسلمان کو بدنام کرنا مقصود ہوتا ہے اور اسے آندھی اور طوفان کی طرح پھیلا دیا جاتا ہے۔ مثلاً محمود غزنوی نے سومنات کے مندر کو تباہ کیا اور دولت لوٹ کر لے گیا حالانکہ تاریخ کے اسی کوڑے دان میں ایک گواہی موجود تھی کہ سومنات کا مندر محمود غزنوی سے بہت پہلے جین مت کے حکمرانوں نے تباہ کر دیا تھا اور اس پر مہاویر کا جھنڈا لہرا کر اعلان کیا تھا کہ ہم نے شیو پر فتح حاصل کر لی ہے۔ محمود غزنوی کے نام اس جرم کو تھونپنے والے دو مورخین تھے جنہوں نے انگریز حکمرانوں کی سرپرستی میں کتاب لکھی جس کا نام تھا

(History of India as it is told by its own historian ان مورخین کا نام تھا ایچ ایم ایلیٹ (HM Elliot) اور ایڈجان ڈاؤسن (Ed.John Dowson) انھوں نے محمود غزنوی مذہبی شدت پسند بنا کر پیش کیا اور آج بھی ہم اس کو بت شکن کے متعصب لقب سے جدا نہیں کر سکے۔ اسی طرح بہت سے واقعات کو بھی تعصب اور جھوٹ کی ملمع کاری سے آلودہ کیا گیا۔

تاریخ میں سب سے بڑی لائبریری سکندریہ کی تھی جسے جولیس سیزر کی افواج نے 48 قبل مسیح میں آگ لگا دی تھی اور لاکھوں نسخے جو پیپرس کے درخت کی چھال پر لکھے گئے تھے جل کر خاک ہو گئے تھے۔ انھوں نے پھر کتابیں لکھیں جنھیں پھر ایک رومن بادشاہ اورلیان (Aurelion) نے 270 عیسوی میں آگ لگا دی لیکن یورپ جب تاریخ مرتب کرنے پر آیا تو اس نے ایک جھوٹی روایت بنا ڈالی کہ اس لائبریری کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں مسلمان افواج نے آگ لگائی حالانکہ اس وقت تو اس لائبریری کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا تھا۔ لیکن تاریخ کا جھوٹ تمام دنیا میں مقبول کیا گیا اور حضرت عمرؓ کے دشمن مسلمانوں نے بھی اس جھوٹ کو فروغ دیا۔ میں تاریخ کے اس کوڑے دان سے ایسی ہزاروں تحریریں نکال کر دکھا سکتا ہوں جو موجودہ تین یا چار صدیوں میں صرف اور صرف مسلمان اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹ کی بنیاد پر تخلیق کی گئیں۔

ان تحریروں کو لکھنے والے مغرب کے عظیم مفکر بھی شامل تھے اور وہ مسلمان بھی جنھیں اپنے وجود سے اس بنیاد پر نفرت ہے کہ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہو کر مسلمان کیوں کہلائے، انھیں تو کسی لا مذہب، سیکولر باپ کے گھر پیدا ہونا چاہیے تھا تاکہ اپنی شناخت بہتر بناتے، یا پھر وہ مسلمان جن کو اسلام کی عظیم تاریخی شخصیات سے مسلکی نفرت اور تعصب ہے اور ان کی بدنامی میں وہ اپنا مفاد دیکھتے ہیں، انھوں نے مغرب سے ایسی تمام روایات اٹھائیں اور جھاڑ پونچھ کر انھیں مستند اسلامی تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ کچھ مواد ان کو مسلمان مورخین سے بھی ملا جنہوں نے اپنی ذاتی نفرت کی بنیاد پر یا عقیدے کے تعصب میں تاریخی جھوٹ تحریر کیے تھے۔

اس سب کے باوجود موجودہ دور کے مغربی، جمہوری سیکولر طرز زندگی نے اپنے دو مخصوص تصورات کو عام کرنے اور انھیں تاریخی حقیقت کا جواز دینے کے لیے اسی تاریخ کے کوڑے دان کا سہارا لیا اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنایا۔ یہ دو نظریات یہ ہیں -1ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور -2 جمہوریت میں ریاست کی بقا ہے۔ ان دونوں نظریات کی ترویج، ترقی اور اشاعت انقلاب فرانس کے آس پاس کے فلسفیوں، مورخوں اور دانشوروں نے زور شور سے کی۔ والٹیئر اور روسو جیسے لوگ اس کے سرخیل تھے۔

دلیل یہ دی گئی کہ اگر کاروبار ریاست میں مذہب شامل کر دیا جائے تو یہ خونریزی اور قتل و غارت کا سبب بنتا ہے۔ دو تین صدیاں مذہب کو ریاست سے الگ کرنے میں لگ گئیں اور جمہوریت بھی آہستہ آہستہ پروان چڑھتی گئی۔ 1900 تک یہ سب کام مکمل ہو گیا، مذہب کو دھکے مار کر ریاست سے نکال دیا گیا اور جمہوری حکمران یورپ پر راج کرنے لگے۔ لیکن پھر یہ کیا ہوا۔ اس کے بعد دو عظیم جنگیں ہوئیں، دس کروڑ سے زیادہ لوگ مار دیے گئے۔ اب تو مذہب کی ریاست سے چھٹی ہو چکی تھی۔ چرچل بھی جمہوری حکمران تھا اور ہٹلر بھی ووٹ لے کر حکمران بنا تھا۔ شاید پوری انسانی تاریخ میں اتنا قتل و غارت نہیں ہوا جس قدر ان دو جنگوں میں ہوا۔ مذہب تو کاروبار ریاست سے بہت دور تھا اور آمریت بھی دم توڑ چکی تھی۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں