ایک ستارہ اور ٹوٹا
اردو فکشن کے حوالے سے ایک بڑا نام جوگندر پال کا ہے، جو اب ہم میں نہیں ہیں۔
اردو فکشن کے حوالے سے ایک بڑا نام جوگندر پال کا ہے، جو اب ہم میں نہیں ہیں۔ وہ جس وقت اور جس دن دنیا ادب کے کوچوں کو ویران و اداس کر کے رخصت ہوئے وہ دن بروز جمعہ اور ہندوستان کے وقت کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے تھے اور تاریخ 22 اپریل 2016 تھی جب اردو ادب کا چمکتا سورج غروب ہو گیا۔
جوگندر پال کا سن پیدائش 5 ستمبر 1925 ہے۔ وہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام شری لعل چند سیٹھی تھا۔
ان کی مادری زبان پنجابی تھی جب کہ انھوں نے پرائمری اور مڈل اسکول کی تعلیم اردو میں پڑھی، گویا ذریعہ تعلیم اردو تھا انھوں نے مرے کالج، سیالکوٹ سے 1945ء میں گریجویشن کی تعلیم مکمل کی اور 1955ء میں جب کہ وہ استاد کی حیثیت سے کینیا میں ملازمت کر رہے تھے، انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ تقسیم ہند کے خونی واقعہ نے انھیں ہجرت کرنے پر مجبور کیا اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ سیالکوٹ سے دہلی چلے گئے 1948ء میں مشرقی افریقہ ہندوستانی نژاد لڑکی کرشنا سے ان کی شادی ہو گئی اور پھر کینیا چلے گئے۔
کینیا میں تقریباً 8 سال بحیثیت معلمی کے فرائض انجام دے کر سرکاری ملازمت سے سبکدوشی اختیار کر لی اور ہندوستان لوٹ آئے کہ اپنا ملک، اپنا ہی ہوتا ہے ہر لحاظ سے، وطن کی محبت بے کل کرتی ہے تب واپسی کی راہوں کو ہموار کرنا ضروری ہو جاتا ہے، جوگندر پال کی 1945ء میں اورنگ آباد میں انگریزی کے استاد کی حیثیت سے تقرری ہوئی، ان کو نیکی و خلوص، علمیت و قابلیت کے باعث بہت جلد 1964ء میں پرنسپل کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ چودہ سال تک اسی کالج میں رہے اور پھر بے قرار طبیعت نے کچھ اور تقاضا کر دیا ، لہٰذا ملازمت کو خیرباد کہا اور دہلی کو اپنا مسکن بنا لیا اور تحریر و تصنیف میں مشغول ہو گئے۔
پال صاحب نے جو پہلی کہانی لکھی اس کا نام ''تیاگ سے پہلے'' تھا جو غالباً 1945ء میں ماہنامہ ''ساقی'' دہلی میں شایع ہوئی اور ناقدین کی توجہ کا باعث بن گئی۔ اس طرح ان کے پہلے افسانوں کے مجموعے کا نام ''دھرتی کا کال'' تھا۔ جس کا سن اشاعت 1961ء تھا۔ اس کے بعد ان کے کئی افسانوں کے مجموعے شایع ہوئے جن میں '' پرندے''، ''جوگندر پال کی کہانیاں'' اور چار ناولٹ بھی اشاعت کے مرحلے سے گزر کر تنقید نگاروں سے داد و تحسین وصول کر چکے ہیں۔ ''نادید''، ''خواب رُو'' اور ''بارپرے''۔
ان کے تنقیدی مضامین کے دو مجموعے رابط1997ء اور اصلاح 1998ء شایع ہوئے جوگندر پال کی تحریریں بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پوری دنیا میں وہ افسانہ و ناول نویسی کے حوالے سے اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ پال جی کے افسانے معاشرتی حقیقت اور سماجی مسائل کے گرد گھومتے ہیں۔ وہ بہترین افسانہ نگار ہیں، انھوں نے لوگوں کا اور لوگوں کی نفسیات کا جائزہ اپنی ناقدرانہ نگاہ سے لیا ہے۔ وہ کردار کے باطن میں جا کر اس کی زندگی کے بارے میں کھوج لگا لیتے ہیں۔ انسانی رویے، اسلوب بیان اور کردار نگاری فنی محاسن اور باریک بینی اور مشاہدات کی آنچ سے حرارت پہنچاتے ہیں۔ اور اپنے افسانوں کو تجربے کی دھیمی آگ پر پکنے کے لیے رکھ دیتے ہیں۔ پھر دلوں کو گرمانے والے افسانے وجود میں آ جاتے ہیں۔ زندگی کی روشنی اور توانائی سے بھرپور افسانے ان کی تخلیق ہیں۔ ایسے ہی افسانوں میں کیرتن، ایسے ہوے لوگ، خود وہانئر، ''انیس رحمٰن بابو''، ''گھات'' وغیرہ شامل ہیں۔
جوگندر پال کا انداز تحریر دلنشیں ہے اور تجسس کی فضا کو پروان چڑھاتا ہے۔ جوگندر پال بڑے ادیب ہی نہیں بلکہ بڑے انسان بھی تھے۔ اس کا ثبوت ان کی پاکستان میں ان کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد تھا۔ ترقی پسند شاعر و نقاد صبا اکرام کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ دیار غیر سے آنے والے قلمکاروں کے لیے اپنی رہائش گاہ پر یادگار اور شاندار محافل کا انعقاد کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تقریب میں فکشن کی ایک اہم شخصیت جوگندر پال اور ان کی مسز کرشنا پال سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا۔
جب ان معزز مہمانوں کی یادوں کے دیے روشن کرتی ہوں تو گزرے ماہ و سال یاد آ جاتے ہیں شام کی رخصتی کا منظر کچھ اس طرح نمایاں تھا کہ ملگجا اندھیرا آگے بڑھ رہا تھا اور سروج اپنے آشیانے کی سمت سرخ و نارنجی رنگ کے گولے کی شکل میں دوڑتا جا رہا تھا۔
یہ میری جوگندر پال صاحب سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ پھر جب وہ ہندوستان لوٹے، انھوں نے افسانوں کا مجموعہ ''جوگندر پال کی کہانیاں'' اور ناول ''نادید'' بذریعہ ڈاک ارسال کیا۔ جس کی مجھے بے حد خوشی تھی اور جس کا اظہار میں نے اپنے خط میں کیا تھا۔ میری اپنی مصروفیات کی وجہ سے زیادہ دن رابطہ نہ رہ سکا۔ میں نے اپنا ناول ''نرک'' بھیجا۔ اس کی بھی رسید نہیں ملی۔ شاید ملا ہی نہ ہو۔
کراچی کے اہم نقاد، ادیب و شاعر ایک جگہ جمع تھے اور وہ سوالات کے ذریعے پال صاحب کی زندگی اور ادب کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔
سب نے سوالات کیے، انھوں نے دھیمے لہجے میں ان کے جوابات دیے۔ میرا سوال ان کے ناول ''نادید'' کے حوالے سے تھا، ان دنوں ''نادید'' کا بہت چرچا تھا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا۔ اس سے قبل جناب علی حیدر ملک یہ فریضہ انجام دے چکے تھے۔ ان کے اچھے اخلاق اور انکساری کے باعث مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں انھیں برسوں سے جانتی ہوں اور وہ بھی عرصہ دراز سے واقف ہیں۔ انھوں نے کھڑے ہوکر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی۔ میرا سوال تھا۔
''سر! آپ کا ناول ''نادید'' نابینا حضرات کے حوالے سے ہے، اور جسے آپ نے ہر لحاظ سے بے حد اچھا لکھا ہے، آپ کا یہ ناول کامیاب ناولوں کی صف میں شامل ہے اور آپ ماشا اللہ بینا ہیں، آپ نے نابینا لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں کس طرح لکھا، کردار نگاری، ماحول سازی الفاظ کا انتخاب اور ان کا آپس میں گفتگو کا طریقہ، چیزوں کو چھو کر محسوس کرنے کا انداز ایک ضخیم ناول ہے۔ اتنا مشکل کام کس طرح انجام دیا؟ وہ میرے سوال کے جواب میں مسکرائے، بتایا کہ ناول لکھنے سے پہلے انھوں نے بہت سارا وقت ان لوگوں کے ساتھ گزارا۔ ان کے بولنے، چلنے، رہنے، بسنے کے انداز کو سمجھا۔ تب یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔
تقریب کے اختتام کے بعد وہ بہت دیر تک باتیں کرتے رہے۔ میری افسانہ نگاری اور مصروفیات کے بارے میں پوچھتے رہے، اس دوران کرشنا بھابی نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔ بہت کم بولیں، لیکن ضروری سوالوں کے جوابات بے حد خلوص و محبت کے ساتھ دیے۔