صدی کے سب سے بڑے کھلاڑی کا آخری معرکہ تمام ہوا

محبت بری چیز نہیں، مگرمحبت اور ہوس میں فرق ہوناچاہئے، محمد علی کلے


محمد علی نے اپنی پہلی بیوی سنجی رائے کو محض اس لئے طلاق دے دی کہ اس نے اسلامی طرزلباس اپنانے سے انکار کر دیا تھا فوٹو: فائل

یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جو سیاہ فام اور عظیم باکسرتھا، ایک ایسا پراسرار ہیروجس پر ماقبل تاریخ کے یونانی شہ زور ہرکولیس کا سا گمان ہوتا تھا، اسے دنیا بھر میں جو شہرت اور عزت حاصل ہوئی، وہ ایک سو سالوں کے دوران کسی کے حصے میں نہیں آئی،خوف کے ماحول میں پیداہونے والے اس شخص نے ایک روز خوف کو پناہ مانگنے پر مجبورکردیا تھا۔

محمد علی جب 17جنوری 1942ء کو امریکی ریاست کنٹاکی کے شہر لوئسویل میں پیدا ہوئے تو والدین نے نام کیسیئس مارسیلس کلے جونیئر رکھا۔ بچپن کیساتھا، خود انھیں بھی یاد نہیں، آپ بیتی میں اس کا اعتراف بھی کیا۔بس! صرف یہ لکھا ''میں ایک معمولی طالب علم تھا لیکن میں کبھی فیل نہیں ہواتھا۔''

سیاہ فام لوگوں کی سفیدفام امریکی معاشرے میں کوئی قدرومنزلت نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی سماجی اہمیت تھی۔یہ مفلوک الحال لوگ تھے جنھیں روزی کمانے کے لئے عام طورپر حقیرکام کرناپڑتاتھا۔ سختیوں نے سیاہ فاموں کو ہرچیز سے بے نیاز بنادیا، کھانے پینے سے بے نیاز، اپنوں سے بے نیاز، ہمسائیوں سے بے نیاز حتیٰ کہ اپنی ذات سے بھی بے نیاز۔کچھ ملاتو کھالیا ورنہ ننگے ہی سورہے۔ شاید یہی سختیاں تھیں جنھوں نے محمد علی کے والدکو بھی کھردراشخص بنادیا۔ جب وہ اپنے کام( سائن پینٹنگ) سے فارغ ہوتے توشراب پیتے رہتے اور ہرکسی سے لڑتے جھگڑتے رہتے۔ مختلف جرائم میں گرفتاربھی ہوتے رہے۔ بہرحال وہ ماہوار اتنے ڈالرز کمالیتے تھے کہ ان کے کنبے کو کبھی تنگ دستی کا سامنا نہیں کرناپڑاتھا۔ محمد علی بتاتے تھے: '' والد کو کبھی بے کار نہیں دیکھا، وہ ہروقت کام کرتے رہتے تھے اوران کی زندگی کام سے عبارت تھی اور وہ ہم سب کے لئے کام کرتے تھے''۔

والدہ کے بارے میں بتایا:''میری ماں باکردار خاتون، قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں، شہدکی شیریں، سارا وقت گھر میں گزارناپسندکرتیں، جب دیکھو کچھ نہ کچھ پکاتی رہتی تھیں۔ ہراتوار کو گرجاگھر ضرورجاتیں، کسی کو دکھ نہ پہنچاتیں، دل شکنی کو گناہ سمجھتیں، خاموش طبع، بھاری بھرکم عورت، رنگت گندمی۔ اپنے کپڑوں کو خود ہی رنگ کرلیتیں، شراب نہیںپیتی تھیں اور نہ ہی سگریٹ نوش تھیں۔

کلے خاندان کو شہر میں ایک معزز کنبہ کی حیثیت سے جانا جاتاتھا کیونکہ وہ لین دین میں حسن سلوک کے پابند تھے، جن دکانوں سے روزمرہ کی اشیا خریداکرتے تھے، انھوں نے وہاں سے کبھی ادھار سوداخریدناپسند نہیں کیاتھا، وہ قرض نہیں لیتے تھے، وہ ہرچیز نقدخریداکرتے تھے۔



بیسویں صدی کے عظیم ترین کھلاڑی،تین مرتبہ باکسنگ کی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز ''ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن شپ''جیتنے کا منفرد اعزازحاصل کرنے والے، اولمپک میں سونے کا تمغہ، شمالی امریکی باکسنگ فیڈریشن کی چیمپیئن شپ جیتنے والے،6 فٹ تین انچ قد کے حامل کیسیئس کلے باکسنگ کی طرف کیسے آئے، کہتے ہیں کہ معاملہ ان کی بائسیکل چوری ہونے سے شروع ہواتھا۔ تھانے رپورٹ درج کرانے گئے تو ایک پولیس اہلکار کو باکسنگ کرتے دیکھا۔ نقصان اتنا بڑا تھا کہ کیسیئس کلے نے عزم کیاکہ چورمل جائے تو اس کا منہ مکے مارکر توڑ دوں گا۔ پولیس اہلکار نے مشورہ دیا کہ باکسر بن جاؤ۔ اس وقت عمر بارہ برس تھی،ایک مقامی جمنازیم میں باکسنگ شروع کر دی۔ انسٹرکٹر کو چند دِنوں میں اندازہ ہوگیا کہ یہ نوجوان غیر معمولی صلاحیتوں والاہے۔ کیسیئس کلے نے بھی سوچا کہ زندگی میں باکسنگ ہی کھیلوں گا، اسے ہی ذریعہ معاش بناؤں گا کیونکہ ان کے بقول''باکسنگ میں آمدنی کے وسائل زیادہ ہوتے ہیں اور ایک باکسر ایک ایتھلیٹ سے زیادہ پیسے کماسکتاہے اور باکسنگ ایک ایسا مکمل کھیل ہے جو موسم کامحتاج نہیں ہے۔کیا آپ نہیں جانتے کہ کرکٹ ہاکی فٹ بال وغیرہ کے میچ اکثرخراب موسم کی وجہ سے ادھورے اور نامکمل رہ جاتے ہیں''۔

پہلا مقابلہ29 اکتوبر 1960ء کو آبائی قصبے لوئسویل میں جیتا۔ اسی سال روم میں ہونے والے اولمپکس کھیلوں میںلائٹ ہیوی ویٹ گولڈ میڈل جیتا۔ محمد علی جس اولمپک ویلیج میں مقیم تھے، وہاں ان کا چرچا اس قدر زیادہ تھا کہ ہرکوئی ان سے آگاہ تھا۔ ان کاکہناتھا کہ اگرمیں اولمپک ویلیج میں مئیرکیلئے انتخاب لڑتاتو سوفیصد ووٹ میرے بیلٹ باکس میں ہی ڈالے جاتے۔یہاں ہونے والے مقابلوں کا ذکرکرتے ہوئے انھوں نے بتایا: ''مجھے وہ تمام کھلاڑی جو روس، جرمنی، پولینڈ، آسٹریلیا، میکسیکو اور سپین سے تعلق رکھتے تھے، اچھی طرح یاد ہیں، میں انھیں بلیاں سمجھتاتھا کیونکہ مجھے ایک ایک کے ساتھ پنجہ لڑانے کا اتفاق ہواتھا۔ وہ اپنے اپنے ملک کی نمائندگی تو کرسکتے تھے لیکن میرامقابلہ نہیں۔'' ٹھیک چار سال بعد ہیوی ویٹ ٹائٹل بھی اپنے نام کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1960ء سے 1963ء تک نوجوان کیسیئس نے 19 مقابلے جیتے اور ایک میں بھی شکست نہیں کھائی۔ان میں سے 15 میں مدمقابل کو ناک آؤٹ کیا۔

جوانی میں وہ سیدھا سادھا، صاف گو، لمبا تڑنگا نوجوان تھا، شراب پیتاتھا نہ ہی سگریٹ کو ہاتھ لگاتاتھا اور نہ ہی اسے عورتوں سے رغبت تھی۔ اسے کبھی نائٹ کلب میں نہ دیکھاگیا، کبھی رقص وسرود کی محفلوں میں نہ پایاگیا۔ بس! پنسلوانیا میں قائم اپنے جمنازیم میں ہروقت مشق کرتا، بھوک لگتی تو سادہ کھانا کھاتا اور خدائے عظیم کی حمدوثنا بیان کرتارہتا جس نے اسے عظمت فن عطاکی۔ جب عظمت ملی تو اپنے فارغ اوقات میں امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں میں اخلاق عامہ اور زندگی کے ہمہ جہتی پہلوؤں پر لیکچر دیتا، اسے آکسفورڈ(لندن) نے اعزازی پروفیسربنانے کی پیشکش بھی کی۔



روم اولمپکس میں گولڈمیڈل جیتنے کے بعد جب کیسیئس کلے واپس آئے تو وہ نسلی امتیاز کا شکار ہو گئے۔ ایک ریستوران میں انہیں اس لئے نوکری نہ مل سکی کیونکہ وہ سیاہ فام تھے۔ غصے میں آکر انہوں نے اپنا سونے کا تمغہ دریائے اوہائیو میں پھینک دیا تھا۔ ان واقعات کے باوجود اکھاڑے میں ان کا کردار غیر معمولی رہا اور ساری کامیابیاں سمیٹتے رہے۔اب نسلی امتیاز اور باکسنگ میں کامیابیوں کا سلسلہ ایک ساتھ چلتارہا۔

کیسیئس مخالفین کو کھلا چیلنج دیتے اور پھر انھیں شکست سے دوچارکرتے۔ فروری 1964ء میں انھوںنے اس وقت کے عالمی چیمپیئن سونی لسٹن کو کھلا چیلنج کیا اور پھر مقابلے کے چھٹے راؤنڈ میں زیرکرلیا۔ آنے والے مہینوں میں مسلسل سات مقابلوں میں مایہ ناز باکسروںکو ہرایا۔انہی کامیابیوں کے درمیان ہی میں وہ 'نیشن آف اسلام' میں شامل ہوگئے۔ نیشن آف اسلام کے سربراہ علی جاہ محمد نے ان کانام '' محمد علی''رکھا۔ محمد علی کا کہنا تھا کہ کیسیئس کلے ایک غلامانہ نام تھا۔امریکی اخبارات نے خوب شورمچایا اور کہاکہ محمد علی امریکہ کے باغیوں سے تعاون کرکے دہشت پھیلاناچاہتاہے۔ ان اخبارات کے نزدیک اسلام قبول کرنے سے گویا ایک انسان باغی ہوجاتاہے۔

مسلمان ہونے کے فوری بعد محمد علی کا مقابلہ پھر لسٹن سے ہوا۔ انھوں نے پہلے ہی مکے میں اْسے لڑنے کے لائق نہ چھوڑا اور ناک آؤٹ کر دیا۔ اْن کی اگلی لڑائی سابق چیمئپن فلوئیڈ پیٹرسن سے طے پائی۔ پیٹرسن کو محمد علی کامسلمان ہونا پسند نہیں تھا،چنانچہ اس نے مقابلے سے پہلے بڑی حقارت سے کہا کہ'' اِس سیاہ فام مسلم نے ہیوی ویٹ چیمپئن کا اعزاز تو پالیا لیکن اپنی قوم اور کھیل کو جو ذلت دی، میں اْس کا بدلہ لوں گااور رِنگ میں مزہ ضرور چکھاؤں گا''۔ محمد علی نے جواباً کچھ نہ کہا البتہ اکھاڑے میں اس کی وہ دھنائی کی کہ 12 ویں راؤنڈ ہی میں پیٹرسن نے مزید لڑنے سے توبہ کر لی۔ اب پوری دنیا میں محمد علی کا نام گونجنے لگا کیونکہ وہ سفید فام امریکی جیک جانسن کو بھی ہرا کر خود کو ناقابل شکست ثابت کر چکے تھے۔

اسی اثنا میں امریکی فوج ویت نام جنگ میں الجھ گئی، صدر جانسن نے فوج میں نئی بھرتیوں کا حکم دیا لیکن محمد علی نے امریکی فوج میں شامل ہونے سے انکار کردیا، امریکی فوج اور میڈیا کو یہ انکار برداشت نہ ہوا۔ سٹیٹ باکسنگ کمیشن نے محمد علی پر پابندی عائد کر دی ،کینیڈا، انگلینڈ اور مغربی جرمنی میں ہونے والے مقابلوں میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ اْن کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا۔ دوسری طرف محمد علی بھی گھر نہ بیٹھ سکے، وہ جنگ مخالف اجتماعات میں شریک ہونے لگے۔ پھر انھیں پانچ سال قید اور ایک لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا ہوئی۔ حرف انکاربلندکرنے پر انھیں امریکیوں کی طرف سے خطوط بڑی تعدادمیں موصول ہوئے تھے۔ ان میں ہرتین سوخطوط میں سے ایک میں ان کے اس فیصلے کی مخالفت ہوتی تھی۔



محمد علی کاحرف انکار ایسی جنگ مخالف تحریک میں بدل گیا جس میں باب ہوپ میں شامل ہوگیا جو محاذ جنگ پر جانے والے امریکیوں کی دلجوئی کے لئے امریکہ سے سٹیج فلم اور ٹی وی اداکاروں اور رقاصاؤں کو لے جایاکرتاتھا، اس نے ویت نام میں رقصاؤں کے گروپ کی قیادت کرنے سے انکارکردیا۔ شرلے مکیلین نے بھی ایسا ہی کیا، جین فونڈا نے عجب کارنامہ کیا، وہ سائیگان پہنچ کر ویت نامی حریت پسند ویت کانگ گوریلوں کو بہ نفس نفیس حریت وآزادی کے لیکچر دینے لگی۔ یہی حال عام امریکیوں کا ہوا۔ بعض امریکیوں نے احتجاجاً(امریکی حکومت کی جنگ جاری رکھنے کی پالیسی ) کے خلاف اپنے ہاتھوں کی انگلیاں کاٹ ڈالیں، اگرکسی سے کچھ نہ بن پڑا تو وہ واشنگٹن کے میڈیسن ایونیو اور نیویارک کے ٹائم سکوائر میں بطوراحتجاج کپڑے اتارکر کھڑاہوگیا۔ سزا کے خلاف عوامی احتجاج اس قدر شدید ہوا کہ سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ واپس لیناپڑا۔

اب محمد علی میدان میں اترے تو ان کی مکے بازی میں وہ زور نہ رہا جس کے لئے وہ مشہورتھے، نتیجتاً جو فریزیئر انہیں شکست دینے میں کامیاب رہا،جو فریزیئر اور محمد علی کا یہ مقابلہ باکسنگ کی تاریخ کے عظیم ترین مقابلوں میں شمار ہوا اور'صدی کی بہترین لڑائی' قرارپایا۔ دوسال بعد محمد علی نے اکتوبر 1974ء میں، جارج فورمین کو شکست دے کر اپنا کھویا ہوا وقار اور شہرت حاصل کرلی۔اس وقت محمد علی صرف 32 سال کے تھے اور وہ یہ اعزاز جیتنے والے دوسرے شخص تھے۔

جوفریزیر سے اس مقابلہ کی تیاری کرتے ہوئے محمد علی نے کہاتھا:''میں ہار نہیں سکتا کیونکہ میں دنیابھر کیلئے لڑرہاہوں، اگرمیں جیت گیاتو دنیا کے لوگ جیت جائیں گے۔ اگرمیں ہارگیاتو تمام دنیا کے لوگ ہارجائیں گے۔'' پھر جب نیلے رنگ کی نیکر پہنے امریکی شہر ڈیٹرائٹ کے رنگ میں اترا، اس کے اردگرد سیاہ فام کھڑے تھے، ہرکوئی آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملاناچاہتاتھا، ہرچہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

''میں کیاچاہتاہوں؟'' وہ لوگوں کی طرف ہاتھ اٹھاکر پوچھتاہے، پھر کوئی جواب لئے بغیر خود ہی کہتا ہے۔ ''میں خدا کی رضا اور اس کا فضل چاہتاہوں۔''

پھر کہا: ''میں سب سے بڑا بننا چاہتا ہوں، اپنے حریفوں کے لئے بڑا بننا چاہتا ہوں۔'' محمد علی شیرکی طرح دھاڑ رہاتھا، اور جنگل میں شیر کی دھاڑ سن کر ہر درندہ اور پرندہ راہ فرار اختیارکرلیتاہے۔ مجمع میں سے کسی نے کہا: ''بھائی! وہ تو آپ پہلے ہی ہیں، آپ ہرسیاہ فام اورسفیدفام سے بڑے ہو۔''

1975ء میں محمد علی نے 'نیشن آف اسلام' چھوڑ کر باقاعدہ اسلام قبول کرلیا۔ اسی سال منیلا( فلپائن) میں پھر سے محمد علی کا مقابلہ جو فریزیئر سے ہوا، اس کا کہنا تھا کہ اسے محمد علی سے نفرت ہونے لگی ہے۔14 راؤنڈ کے بعد محمد علی نے فتح حاصل کی۔ اب وہ شہرت کی بلندیوں پر تھے۔ فروری 1978ء میں علی کو ایک زبردست دھچکا لگا جب وہ اپنے سے بارہ برس چھوٹے لیون اسپِنکس سے ہار گئے۔ 8 ماہ بعد ہی ایک مقابلے میں نیا عالمی ریکارڈ قائم ہوا ، جب محمد علی نے اسپِنکس کو شکست دیدی۔ کروڑوں لوگوں نے یہ مقابلہ دیکھا۔ تاریخ میں پہلی بار کسی کھلاڑی نے تیسری بار عالمی اعزاز جیتا۔ اس وقت ان کی عمر 36 سال تھی۔



وہ طویل عرصہ تک نسلی امتیاز کا شکار رہے۔ دنیا بھر کے ممالک محمد علی سے درخواست کرتے کہ وہ ان کے ملک کا دورہ کریں، دنیا کا عظیم ملک چین بھی دعوت دے چکاتھا، دنیا کے بادشاہوں اور مختلف ممالک کے صدور نے انھیں اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی مگر امریکا کے کسی صدر نے ایسی دعوت نہ دی ، ایک امریکی صدر نے ان کے بارے میں متعصبانہ اور توہین آمیز جملے استعمال کئے مگر پھر ایک ایسا وقت آیا جب یہ امریکی صدور ان سے ہاتھ ملاناچاہتے تھے اوران کے ہاتھ چومناچاہتے تھے۔

چالیس سال کی عمر میں محمد علی نے یہ کہتے ہوئے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا'' زندگی میں دوسروں کو شکست دینے سے بھی زیادہ خوش کن کام کرنے کو تیار ہوں۔'' 1980ء ان کی صحت کے بارے میں خدشات نے جنم لینا شروع کردیا اور ڈاکٹروں نے انہیں 'پارکنسنس سنڈروم' (رعشہ) کا شکار پایا۔ وہ اس بیماری میں مبتلا نہ ہوتے تو طویل مدت تک باکسنگ کے شہنشاہ رہتے۔ جب انہوں نے 1996ء کے اٹلانٹا اولمپکس کی مشعل اٹھائی تو دنیا بھر کی نظریں ان کی صحت پر تھیں۔ تب انہیں ایک سونے کا تمغہ بھی دیا گیا جو اس تمغے کے بدلے میں تھا جو انہوں نے دریائے اوہائیو میں پھینک دیا تھا۔ برطانویوں نے انہیں اس 'صدی کا سب سے عظیم کھلاڑی' قرار دیا، یہی اعزاز امریکی رسالے 'سپورٹس السٹریٹڈ' نے بھی دیا۔

محمد علی گزشتہ کئی برسوں سے رعشے کے مرض میں مبتلا تھے تاہم انہوں نے فلاحی سرگرمیوںکو نہ چھوڑا اور اپنے آبائی قصبے لوئسویل میں 6 منزلہ محمد علی سینٹر قائم کیا۔معذور اور ضعیف العمر افراد کے لئے قائم کردہ ایک یہودی ادارے کے ذمہ ایک لاکھ ڈالر کا قرضہ تھا، محمد علی نے وہ اپنی جیب سے اداکیا۔ ایک مشہور شخصیت، ایک باغی، ایک مسلمان، حقوق انسانی کے علمبردار اور ایک شاعر، جس نظر سے بھی دیکھا جائے محمد علی نے ہمیشہ کھیل، نسل پرستی اور قومیت کو شکست دی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب محمد علی کرہ ارض پر بلا شبہ سب سے زیادہ شہرت یافتہ شخص بن گئے۔ باکسنگ میں محمد علی کی زندگی 20 سال رہی جس کے دوران انہوں نے 56 مقابلے جیتے اور 37 ناک آؤٹ اسکور کیا۔ ان کی زندگی پر تین درجن سے زائد کتابیں لکھی گئیں، شاعروں نے انھیں اپنی شاعری کا موضوع بنایا، ان گنت مضامین لکھے گئے، گلوکاروں نے ان کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے میوزک البم تیارکئے، ان کی زندگی پر بے شمار فلمیں تیارہوئیں۔ کیریئر میں حریفوں کیلئے خوف کی علامت سمجھنے جانے والے محمد علی بالآخر 74برس کی عمر میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ سانس کی تکالیف کے باعث امریکی شہر فونیکس کے ہسپتال میں چند روز داخل رہنے کے بعد مصنوعی تنفس کا سہارا بھی ناکافی ثابت ہوا۔ دنیا بھر میں کروڑوں پرستاروں پر سوگواری کی فضا طاری رہی۔ دنیا ہمیشہ انہیں ایک عظیم شخصیت کے طور پر یاد رکھے گی۔



افکار و خیالات

٭ ''امریکی سوسائٹی میں نوعمر لڑکیوں کو دفاتر کی ملازمتوں میں نہ صرف اپنے باس کو خوش رکھناپڑتاہے بلکہ اس کی ہرخواہش کے آگے سرجھکاناپڑتاہے۔ اگریک لڑکی جوہرعصمت سے محروم کردی جائے تو ایسی ملازمت پر لعنت بھیجنی چاہئے''۔

٭ ''جب میں اپنے ہم نسل لوگوں کے محلے سے گزررہاہوتاہوں تو انھیں اپنی حالت پر شرم آتی ہے کیونکہ ان کے پاس فخر کی کوئی بات نہیں ہوتی، ان کی ہرحرکت مکروہ، ان کا ہرقدم غلط، یہی وجہ ہے کہ انھیں سردمہری کے ساتھ ہرمقام سے دھکیلا جاتا ہے۔ جب انسان کو اپنی ذات کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے تو وہ دیکھتاہے کہ دنیا کیسی احمقانہ چیزوں کے حصول میں لگی ہوئی ہے''۔

٭ ''یقینا ًمحبت بری چیز نہیں، مگرمحبت اور ہوس میں فرق ہوناچاہئے''

٭ ''جوآدمی مستحکم خیالات کے بغیر زمین پر اترا ہے، یوں سمجھو اس کے بازونہیں ہیں اور وہ زندگی کے حصول میں صرف ہاتھ پاؤں مارتاہی رہ جائے گا''۔

٭ ''ہم راستی پر ہیں اور راستی کے لئے جیتے ہیں مگر غلامی کی زندگی کے ساتھ نہیں مرناچاہتے''

٭ ''میرا دعویٰ ہے اگرتمام سیاہ فام امریکی اسلام قبول کرلیں تو ترقی کے دروازے ان پر کھل جائیں جن کا وہ اب تصور بھی نہیں کرسکتے''

٭ ''شہرت کوئی پائیدار شے نہیں جبکہ نیک نامی بڑی پائیدار شے ہوتی ہے''

٭ ''میں کبھی فارغ نہیں بیٹھ سکتا، فرصت کا میرے پاس نام ونشان نہیں ہوتا۔ میں ہروقت کچھ نہ کچھ کرنے یا کہنے پر مجبورہوتاہوں۔''

٭ ''ایک عقل مند آدمی بے وقوفی کی حرکت کرسکتاہے مگر ایک بے وقوف عقل مندوں جیسی حرکت نہیں کر سکتا۔''

٭ ''کوئی مفلوک الحال یہ کہے کہ میرے بغیر دنیا کاکون سا کام بندہوجائے گا، یقیناً اس کی سوچ صحیح نہیں ہے، دنیا کی ہرچیز مقصد رکھتی ہے، اشجار ، درخت ایک مقصد رکھتے ہیں، بارش ایک مقصد رکھتی ہے، برف باری ایک مقصد رکھتی ہے،ہرپودے کی روئیدگی کے پیچھے ہزاروں مقاصد چھپے ہیں کوئی چھوٹاہے یا بڑا، اس کا ایک مقصد ہے۔درند پرندچرند اور حشرات الارض سب کوئی نہ کوئی مقصد ضرور رکھتے ہیں، ہم انسان بھی ایک مقصد رکھتے ہیں اس کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں''۔

باکسروں کے لئے سبق

محمد علی نے ایک عظیم باکسر بننے کا خواب دیکھا اور اس کے لئے ہرسختی کو جھیل رہاتھا۔ وہ بتاتے: ''میں ٹریننگ کے ہرمنٹ سے بے زار ہوتاتھا لیکن میں اپنے آپ سے کہتا کہ مت چھوڑنا، اس تکلیف سے اپنے آپ کو گزارو پھر ساری زندگی ایک چمپئین کے طورپربسرکرنا۔''

وہ ایک گندے ہوٹل کے کمرے میں ایک ناگوار بو رکھنے والے خدمت گار کے ساتھ رہتے، اور وہ صبح جمنازیم تک پہنچنے کے لئے پانچ میل پیدل چل کر آتے تھے۔ روزانہ صبح فجر کے ساتھ اٹھتے اور دومیل تک دوڑ لگاتے تھے۔ منجمد سٹرابری کو مکھن کے ساتھ استعمال کرتے تھے اس کے ساتھ کسی بھی پھل کا جوس۔آخرمیں ایک گلاس ٹھنڈا دودھ۔ دوپہر کو پنیر سے بنی روٹی اور چاکلیٹ ملے دودھ کو استعمال کرتے تھے۔ جن دنوں میں مشق کرتے تھے، ان دنوں ابلاہواگوشت، مچھلی اور مرغ، تازہ سبزیاں اورسلاد۔

٭ ''اگرپرہیزی کھانا کھاتاہوں تو میں بہتر ضرب مارسکتاہوں۔ بہتر طورپر کھیل سکتاہوں، لوگوں کو متحیر کرسکتاہوں کیونکہ اس کا طریقہ میں جانتاہوں۔ میں حریف کی طرف بھاگ کرآگے نہیں بڑھتا۔ میں جب ایک ضرب رسیدکرتاہوں۔ تب تک دوسری نہیں کرتا جب تک میں پہلی کا ردعمل نہیں دیکھ لیتا''۔

٭ ''میں بے حد صاف دل اور پرامن شہری ہوں۔ میں نے امریکہ میں امن عامہ کے خلاف کبھی کوئی مسئلہ پیدانہیں کیا۔ میں نہ تو شراب پیتاہوں اور نہ ہی سگریٹ نوشی کرتاہوں اور نہ حرافہ عورتوں کے پیچھے پھرتاہوں۔ میں باکسنگ میں اپنے حریفوں کو منفی حربوں سے زیرنہیں کرتا۔ میں کبھی جیل نہیں گیا اور نہ ہی میں اپنے پاس پستول رکھتاہوں۔ میں دنیا بھر کے نوجوانوں کے لئے ایک مثال ہوں۔''

اگر میں اب بھی کاسیس کلے ہوتا...

قبول اسلام کے بعد ایک بار اخبارنویس نے ان سے پوچھا کہ اگرآپ اب بھی کاسیس کلے ہوتے تو؟ انھوں نے جواب دیا: ''میں اب محمد علی ہوں اس لئے جب میں کسی عورت سے ملتاہوں تو اسے نیکی کی باتیں سکھاتاہوں لیکن اگرکاسیس کلے ہوتا تو اسے لے کر کسی بڑے ہوٹل میں بیٹھ کر گپ شپ لڑارہاہوتا۔ میرا ذکربھی دیواروں کے اندرہوتا باہرکچھ نہ آتا۔میں نیویارک کے سب سے بڑے مہنگے ہوٹل میں ٹھہرتا جہاں مجھے عیش وراحت کا سامان مہیا ہوتا اور ان چہروں کی رفاقت میسرہوتی جنھیں عام لوگ خواب میں بھی نہیں دیکھ پاتے۔ چونکہ میں محمد علی ہوں اس لئے نام خدا کے سوا میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے مگر اس کے کرم سے میرے پاس سب کچھ ہے۔میں سفیدفام عورتوں کے پیچھے پھر کر ان کے سراپے ناپنے میں یقین نہیں رکھتا۔ میرے نزدیک یہ فضول چیز ہے، میں شادی شدہ مرد ہوں اور اپنی بیوی سے محبت رکھتاہوں کیونکہ اخلاق سب سے بڑی قوت ہے۔''

انھوں نے کہا: ''مسلمان ہونے سے پہلے ایک سفیدفام لڑکی سے میری دوستی رہی ، آپ حیران ہوں گے کہ یہ رفاقت صرف دو یوم رہی۔ چونکہ میں مسلمان نہیں تھااس لئے نامحرم عورت سے تعلق کو برانہیں سمجھتا تھا۔ اب میں مسلمان ہوں اور نامحرم عورتوں سے تعلق کو گناہ سمجھتاہوں۔ میرے نزدیک نامحرم عورتوں سے تعلق مصیبتوں کی جڑہے مگرایک مرد یہ بات نہیں سمجھتا۔''

بطور شوہر اور باپ

محمد علی نے زندگی میں چار مرتبہ شادی کی جس نے ان کی 7 بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ بیٹیوں میں حنا، لیلی، مریم، رشیدہ، جمیلہ، میا، خالیہ جبکہ دو صاحبزادے اسعد اور محمد جونیئر ہیں۔ محبت کرنے والے شوہرتھے اور انتہائی مشفق باپ۔ ان کی دوسری بیوی بلینڈا نے ایک بار کسی بات پر مشتعل ہوکر محمد علی کا چہرہ نوچ لیاتھا، دنیاکے بڑے بڑے لڑاکوں کے چھکے چھڑانے والا یہ فرد بیوی کے اس اشتعال انگیزعمل کے سامنے خاموش رہا۔ وہ بچوں کی درست نہج پر تعلیم وتربیت کے بارے میں غیرمعمولی طورپر حساس تھے۔ ان کا کہناتھا: ''میں اپنے بچوں کو زندگی کے بارے میں وہی کچھ سکھاناچاہتاہوں جو ایک مسلمان کے بچوں کو سیکھناچاہئے۔ ''

نسلی امتیاز کا ستایاہوا انسان

نسلی امتیاز کے ستائے ہوئے محمد علی کا کہنا تھا: ''امریکا کا مستقبل کوئی نہیں ہے، امریکہ تباہی کے کنارے پہنچنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ امریکہ کو اس کے گناہ کی سزا دینے والا ہے۔امریکہ میں روزافزوں بے گناہوں کی قتل وغارت گری، جرائم میں اضافہ اور سال میں پے درپے زلزلے، کیا یہ سب باتیں تباہی کی علامت نہیں ہیں۔امریکہ نے سیاہ فام لوگوں پر جو مظالم کئے ہیں اب وہ ان کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہو جائے۔ امریکہ نے غلامی کی جو قسم سیاہ فام لوگوں پر مسلط کررکھی ہے، وہ اس سزا سے نہیں بچ سکتا۔ اگرامریکا نے سیاہ فام لوگوں کے ساتھ انصاف اور ان کیلئے جذبہ احترام نہ روا رکھاتو اس کی تباہی کی حجت تمام ہوچکی ہے''۔

''میں کار میں بیٹھا ایک سڑک سے گزررہاتھا۔ ناگاہ میری نظر ایک سیاہ فام آدمی پر پڑی جس نے ایک بوسیدہ کوٹ پہن رکھاتھا، وہ اپنی بیوی اور چھوٹے بچے کے ساتھ بس کے انتظارمیں کھڑا تھا۔ جبکہ میں رولزرائس میں بیٹھاتھا۔ بچے نے جو بوٹ پہن رکھے تھے ، ان میں جگہ جگہ سوراخ تھے اور میں نے سوچناشروع کیا کہ اگریہ میرا بچہ ہوتاتو۔ بچے کی ناگفتہ بہ حالت پر میرے آنسو نکل پڑے ۔ میں نے اتنا ہی سوچاہی تھا کہ آنسو ٹپ ٹپ میری آنکھوں سے گرنے لگے۔ اگرسیاہ فام لوگ آزاد ہوتے تو اس حالت کا شکارنہ ہوتے''۔

''سفیدفام اخباری رپورٹرز مجھے ہمیشہ سیاہ فام مسلم لکھتے چلے آرہے تھے۔ مجھے اس ترکیب لفظی اور انداز تخاطب پر بجاطورپر اعتراض رہاہے کیونکہ اسلام رنگ ونسل کو مٹاتاہے اور اس کی تعلیم ہے کہ کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر برتری حاصل نہیں۔ اسلام صرف نیکی اور پرہیزگاری کی بناپر ترجیح قائم کرتاہے''۔

''اگرمیں کل کو امریکہ کاصدربنادیاجاؤں تو میں اپنے لوگوں کی ضرورمددکروں گا، میں ان کا کوڑاکرکٹ اٹھاکرٹرک میں خود لادنے سے گریزنہ کروں گا۔ نہ صرف میں بلکہ میرے بچے بھی اپنے لوگوں کی ایسی خدمات بجالانے میں متامل نہ ہوں گے''۔

محمد علی بحیثیت مسلمان

٭ ''میں اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر یقین رکھتا ہوں، وہ زلزلے لاتاہے اور انھیں روکتاہے۔ تباہ کن آندھیاں اس کی قدرت کا مظہرہیں۔ وہ بارش برساتا ہے۔ غضب کی برف باری کرتاہے۔ وہ ذات ہرشے کی علت وحدوث وقوع اور زوال وکمال پر قدرت رکھتی ہے۔ میں اس کا شکر اداکرتاہوں کہ اس نے مجھے اپنے اشارات وعلامات کو سمجھنے اور جانچنے کی بصیرت عطافرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہیں اور میں ان کے ساتھ ہوں''۔

٭ ''اسلام'' کے لفظ کا مطلب ہے کہ 'امن'، لفظ 'مسلمان' کا مطلب ہے کہ وہ فرد جس نے خدا کے سامنے سرتسلیم خم کیا ہے لیکن پریس ہمیں ایسے پیش کرتاہے جیسے ہم نفرت کرنے والے ہوں

٭ '' میں اپنے آپ کو ہالی ووڈ لے جاکر فروخت نہیں کروں گا مجھے اس کی ضرورت نہیں اور نہ ہی میں اس شراب کی تجارت کیلئے اشتہار میں ماڈل بننا چاہتا ہوں جس کیلئے یورپ اور امریکا کے بڑے بڑے معزز گھرانوں کی لڑکیاں اور لڑکے ماڈل بنناپسند کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی نصرت میرے ساتھ ہے۔ میں پاک صاف روزی پر یقین رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے ایسا رزق پہنچاتا ہے''۔

٭ محمد علی نے اپنی پہلی بیوی سنجی رائے کو محض اس لئے طلاق دے دی کہ اس نے اسلامی طرزلباس اپنانے سے انکار کر دیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں