ہماری خارجہ پالیسی اور ہمسایہ ممالک

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ایران کی بندر گاہ چاہ بہار سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں


Zamrad Naqvi June 06, 2016
www.facebook.com/shah Naqvi

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ایران کی بندر گاہ چاہ بہار سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس علاقے میں جتنی اہمیت گوادر کی بندر گاہ کی ہے اتنی کسی اور بندر گاہ کی نہیں۔ گوادر میں انفراسٹرکچر کی ترقی چاہ بہار سے 5سال آگے ہے۔ ہم کسی سے مقابلہ کر رہے ہیں نہ خوفزدہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ خطے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو۔

دوسری طرف کابل میں اپنی رہائش گاہ پر سابق افغان صدر حامد کرزئی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ہمارے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہیں اسی طرح بھارت کے ساتھ بھی ہیں۔ اس پر کسی کو اعتراض یا ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ تخریب کاری اور وحشت قوموں اور ملکوں کی تباہی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں یہ وحشت اور تخریب کاری ختم ہو۔

اب دیکھتے ہیں کہ ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست گوادر اور چاہ بہار بندر گاہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گوادر اور چاہ بہار ایک دوسرے کی حریف پورٹس ہرگز نہیں بلکہ دوست بندر گاہیں ہیں۔

ایران پاکستان کے ساتھ گیس لائن منصوبے پر قائم ہے۔ ایرانی گیس پاکستان کے لیے ارزاں ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان میں متعین ایرانی سفیر نے انسٹیٹوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد میں پاک ایران تعلقات کے موضوع پر ہونے والے ایک سیمینار میں شرکا کے سوالوں کے جواب میں کیا۔

انھوں نے کہا کہ چاہ بہار اور گوادر حریف نہیں بلکہ دوست بندر گاہیں ثابت ہوں گی۔ ایرانی سفیر کا کہنا تھا کہ پاک ایران گیس منصوبے پر ایران دو ارب ڈالر خرچ کر کے اپنے حصے کا کام مکمل کر چکا ہے اور اسے پاک ایران سرحد تک لے آیا ہے۔ ہمیں اب پاکستان کی طرف سے منصوبے کی تکمیل کا انتظار ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران پاکستان کو ایک ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرے گا اور پاکستان پر کبھی کسی دوسرے ملک پر ترجیح نہیں دیتا تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت نے پابندی کے دنوں میں بھی ایران سے تیل خریدا تھا۔ مہدی ہنر دوست نے آخر میں یہ بھی کہا کہ ان کا ملک ایران اور سعودی عرب کے درمیان تناؤ کے خاتمے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کا خیرمقدم کرتا ہے۔

بھارت افغانستان اور ایران تینوں ہمارے ہمسایے ممالک ہیں۔ اس میں سے اگر بھارت کو نکال بھی دیا جائے تو ایران اور افغانستان ہمارے برادر مسلم ممالک ہیں۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ان دو مسلم ممالک سے بھی تعلقات صحیح نہیں ہیں۔

ہماری خارجہ پالیسی ناکامیوں کی داستان بن کر پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہے۔ جس کا ثبوت ملا اختر منصور کی ہلاکت پر ہمارے وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس ہے

ہماری ذہنی اور نفسیاتی حالت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ بھارت ہمارا دشمن ملک ہے اور ہم سعودی عرب اور ایران سے بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ بھی بھارت کو ہماری طرح دشمن ملک سمجھے 70 سال ہونے والے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ابھی تک کشمیر کا مسئلہ حل ہونا تو درکنار اس کے ساتھ ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ آرزو ہماری یہ ہے کہ برادر مسلم ممالک ہونے کے ناطے سعودی عرب اور ایران بھارت کا حصہ پانی بند کر کے کچھ ایسا کریں کے بھارت کشمیر کو طشتری پر رکھ کر ہمیں پیش کر دے۔

جب سعودی عرب کے شاہ سلمان چند ماہ پیشتر مودی کے دورہ سعودی عرب پر انھیں اعلیٰ ترین سول اعزاز دیتے ہیں تو اس پر بھی ہماری ذہنی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے کہ کشمیر اور گجرات کے مسلمانوں کو کیوں فراموش کر دیا گیا۔ آخر کس بات پر یہ اعلیٰ ترین سول اعزاز دیا گیا۔ باوجود اس کے بھارت اور سعودی عرب کی تجارت 39 بلین ڈالر اور 28 لاکھ بھارتی سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں۔ مودی کے حالیہ دورہ ایران میں بھی چاہ بہار بندر گاہ کے حوالے سے یہی پروپیگنڈا کیا گیا کہ ایران بھارت کے ساتھ مل کر سازش کر رہا ہے۔

جب کہ چاہ بہار منصوبے کا احیا چودہ سال بعد اس لیے ہوا کہ افغانیوں اور بھارت کے درمیان تجارت میں رکاوٹیں حائل تھیں۔ ہماری کئی دہائیوں سے جاری پالیسی ہی متبادل راستے کا باعث بنی۔ آخر بھارت اور افغانستان نے اس مسئلے کا کوئی حل تو نکالنا تھا۔ کسی کو کیا الزام دینا۔ قانون قدرت یہ ہے کہ صورت حال ہمیشہ جوں کی توں نہیں رہ سکتی بھارت خطے کی بہت بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے مفادات کے پیش نظر اس سے دور نہیں رہ سکتا۔ متحدہ عرب امارات نے بھی پچھلے سال بھارت میں ایک بہت بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔

خطے کے تمام ممالک چین سمیت بھارت سے تعلقات بنانے میں پیش پیش ہیں اور ہم اکیلے رہ گئے ہیں کوئی ہماری سننے کو تیار نہیں۔ اپنے مسائل حل کرنے کی اہلیت ہم میں نہیں تو کوئی دوسرا کیا کر سکتا ہے۔ سگا بھائی بھی ایک حد تک ہی مدد کر سکتا ہے۔ اس سے آگے نہیں جہاں اس کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں۔ سعودی عرب ہو یا ایران ہمارے لیے اپنے ملک اور عوام کے مفادات کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے... یہ بات ہمیں اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینی چاہیے۔

پیش گوئی۔:وزیراعظم نواز شریف اپنی صحت کے حوالے سے احتیاط طلب دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ واپس کب آئیں گے اس کا پتہ11 سے چودہ جون کے درمیان چلے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں