باکسر محمد علی میرے ایک حج کا ساتھی

میں نے اسے ایک حاجی سے ملا دیا جس نے محمد علی کی دینی رہنمائی کا فرض سنبھال لیا


Abdul Qadir Hassan June 06, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: میرا ایک رفیق حج جس نے حج کے دوران مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ حالات جیسے بھی ہوں میں اس سے ملتا رہوں گا۔ وہ اس دنیا کی محبتوں اور عزتوں کے ہجوم میں رخصت ہو گیا۔ یہ تھا محمد علی باکسر جس سے میری پہلی ملاقات سعودی عرب میں ہوئی جہاں وہ حج کے لیے مقیم تھا اور اس کا کمرہ میرے کمرے سے متصل تھا۔

ہم دونوں حکومت سعودی عرب کے شاہی مہمان تھے لیکن کہاں محمد علی اور کہاں میں مگر محمد علی نے مجھ سے کہا کہ ہمارا یہ پڑوس عارضی ہے کیونکہ میں امریکا میں اور تم مجھ سے بہت دور پاکستان میں لیکن اس زمینی دوری کے باوجود اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ ہم ملنے کی کوئی نہ کوئی سبیل نکال لیا کریں گے اگرچہ اس نے بڑے پیار سے مجھے امریکا آنے کی دعوت دی اور کہا کہ اسے میری مہمانی سے روحانی خوشی ہو گی اور ہم اپنی زندگی کے اس مشترکہ عمل کی یادیں تازہ کریں گے جسے حج کہا جاتا ہے لیکن ہم دونوں کو پتہ تھا کہ یہ سب ہماری خواہشیں ہیں، بڑی ہی نیک خواہشیں اور بس خواہشیں۔ حج کے مناسک کے دوران ہماری ملاقات ہوتی رہی اور وہ مجھ سے پوچھتا رہا کہ میں اب کیا کروں کہ میری عبادت قبول ہو۔

میں نے اسے ایک حاجی سے ملا دیا جس نے محمد علی کی دینی رہنمائی کا فرض سنبھال لیا لیکن جب شیطانوں کو کنکریاں مارنے کا وقت آیا تو اس ہجوم میں محمد علی نے مجھے ڈھونڈ لیا اور اصرار کیا کہ میں اس سے کنکریاں پھینکنے کے عمل میں شرکت کروں۔ وہ ایک ایسی بیماری کا شکار ہو چکا تھا جس میں وہ اپنے جسم کے بعض حصوں کو حرکت نہیں دے سکتا تھا خصوصاً بازوؤں کو جن کا نام محمد علی تھا اور جن کا مکہ دنیا میں اپنی مثال آپ تھا۔ اب میں یوں کرتا کہ نیچے سے کنکریاں اٹھا کر کچھ اپنے لیے اور کچھ محمد علی کے لیے رکھ لیتا۔ میں محمد علی کا بازو اٹھاتا اور اسے بلند کر کے کنکریاں اس کو تھما دیتا اور وہ پھر اس بلند ہاتھ سے یہ کنکریاں اس زور سے شیطانوں کو مارتا کہ اگر وہ کوئی زندہ چیز ہوتے تو ان کنکریوں کی چوٹ سے یقینا مر جاتے۔

اس طرح کنکریاں مارنے کا عمل ہم نے کسی حد تک مشترکہ سرانجام دیا۔ محمد علی کے ساتھ ان کے ایک معاون بھی آئے تھے لیکن اس عظیم مسلمان نے یہ کام میرے سپرد کردیا۔ وہ بازو بلند کرنے سے معذور تھا لیکن جب کوئی اس کا بازو بلند کر دیتا تو پھر وہ بازو اس مکے کا مالک بن جاتا جس نے دنیا بھر کو مفتوح اور معذور کر دیا تھا۔ وہ رعشہ کے مرض میں مبتلا ہو گیا تھا۔ محمد علی کوئی پیدائشی مسلمان نہیں تھا لیکن قدرت نے اس کے اندر اسلام کی روحانیت ودیعت کر دی تھی۔ وہ ایک بار جیل چلا گیا مگر اس نے امریکا کی زیادتیوں کو قبول نہیں کیا تھا۔

وہ ایک آزاد اور باعزت مسلمان تھا اور مسلمانوں پر ماضی میں جو زیادتیاں ہوتی رہیں وہ ان کا ایک زندہ انتقام تھا۔ وہ سچا اور صاف ستھرا مسلمان تھا جو کسی مصلحت پر آمادہ نہیں تھا اور اسلام کے دینی اور سیاسی تقاضوں کے لیے قربانی پر عملاً تیار رہتا تھا۔ حج کے اس موقع پر ایک حاجی اس سے کہنے لگا کہ تم اعتدال سے کام لیا کرو اور امریکیوں میں رہتے ہو تو گزر بسر کرنے کی کوشش کرو تاکہ تمہیں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ جواب میں وہ مسکرایا اور کہا کہ اسی اعتدال نے تو ہمارے دشمنوں کو شیر کر دیا ہے ورنہ کسی مسلمان کے سامنے کسی غیرمسلم کی کیا حیثیت ہے۔ مجھے محمد علی کی باتیں کسی مجاہد کی باتیں لگیں اور محسوس ہوا کہ رنگ میں جا کر یہ نوجوان کچھ اور ہو جاتا ہے۔

وہ ایک مجسم انتقام بن جاتا ہے اور اس کے سامنے جو بھی ہوتا ہے وہ اسے اپنے مکوں سے زیر کر دیتا ہے لیکن جب میں نے دیکھا کہ وہ جھک کر کنکریاں نہیں اٹھا سکتا اور اس کے ہاتھ اس کا ساتھ نہیں دیتے تو مجھے سخت تعجب اور دکھ ہوا۔ اس نے اپنے بازوؤں کو اس قدر زیادہ استعمال کیا ہے کہ وہ اب اس کی ہمتوں اور خواہشوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ وہ ایک معاون ساتھ رکھتا ہے جو اس کے بازوؤں کو اس کی خواہش کے مطابق اونچا کر دیتا ہے پھر اس کا مکہ زندہ ہو کر مخالف کو کچل دیتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا ہے وہ رعشے کا مریض بن چکا ہے۔

حج کے ان دنوں میں محمد علی اس قدر نرم گفتار اور نرم رو تھا کہ کسی کو یقین نہیں آتا کہ مکہ بازی کے مقابلے میں اس کے مقابلے میں کوئی کیوں ٹھہر نہیں سکتا کیونکہ وہ ایک نرم رو نوجوان تھا جو حج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو لوٹ لینا چاہتا تھا۔ وہ دن رات کسی عجیب سی کیفیت سے گزرتا اور جو کوئی اسے دیکھتا وہ یقین نہیں کر سکتا کہ کیا یہی دنیا کا سب سے طاقت ور اور ہنرمند مکہ باز ہے۔

وہ ایام حج میں کوئی نیا محمد علی تھا۔ اس نے ایک دن مجھے اپنے کمرے کے سامنے روک لیا اور معذرت کرنے لگا کہ میں نے آپ کے پڑوس کا فائدہ اٹھایا ہے مجھے آپ یہ بتائیں کہ کیا حج میں معافی کے گناہ دھل جاتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کون سا گناہ ہے جو میں نے نہیں کیا۔ میں نے کہا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ آپ کی تسلی کر سکوں لیکن ایک بات میں نے سنی اور پڑھی ہے کہ ہر گناہ کی معافی موجود ہے صرف اس کی نہیں جو کسی کے حق کھانے کے گناہ سے ہوتی ہے۔ یہ حق ادا کر دیں اور فریق متعلقہ کو راضی کر دیں تو پھر یہ بھی معاف ہے۔

اسلام کے بعض پہلوؤں کے بارے میں وہ زیادہ جاننا چاہتا تھا لیکن حج کی مصروفیات نے اس کا موقع نہ دیا مگر اسلام کے بارے میں اس کے اندر جو خلوص موجزن تھا یہی اس کی مغفرت کے لیے بہت تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کوئی ایسی ترکیب ہو کہ میں اپنے ماضی کے گناہوں سے نجات پا سکوں چنانچہ وہ جس کسی کو اسلام کے قریب سمجھتا تھا اس کے ساتھ نتھی ہو جاتا تھا۔ وہ بہت جلدی میں تھا اور امید کریں کہ قدرت اس کی خواہشوں اور تمناؤں کے مطابق اس کی مغفرت کر دے گی۔ وہ ایک نیک بلکہ پارسا مسلمان تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں