بہلاوا
دھوکے اور بہلاوے میں تھوڑا سا فرق ہے اور یہ فرق نیت کا ہے۔ بہلاوا نیت کے فرق سے دھوکا بن جاتا ہے
دھوکے اور بہلاوے میں تھوڑا سا فرق ہے اور یہ فرق نیت کا ہے۔ بہلاوا نیت کے فرق سے دھوکا بن جاتا ہے، اگر آپ کسی کو کسی کام کے سلسلے میں تسلی دے رہے ہیں اور آپ کی نیت یہ ہے کہ وقت کے گزرنے سے زیادہ بہتر کام ہوجائے گا یا اس شخص کو فائدہ ہوگا تو یہ آپ کا ''بہلاوا'' ہے اور اس کا مقصد نیک اور اچھا ہے اور کیونکہ ہم عذاب ثواب کو خدائی اختیار جانتے ہیں لہٰذا یہ نہیں کہتے کہ آپ کو ثواب ہوگا۔اب بہلاوا دھوکا بن جاتا ہے جب آپ جانتے بوجھتے اپنے آپ کو بہلاوا دیں کہ نہیں ایسا ہوگا، جیسا میں سوچ رہا ہوں۔
جہاز ضرور لیٹ ہوجائے گا کیونکہ میں لیٹ ہوگیا ہوں، میں پاس ہوجاؤں گا حالانکہ میں نے کاپی میں کچھ لکھا نہیں ہے، مگر کچھ ایسا ہوگا کہ وہ مجھے پاس کردے گا۔ کوئی پالیسی آجائے گی کہ سب کو پاس کردو، یہ اور اس قسم کے سارے بہلاوے دراصل دھوکا ہیں جو ہم اپنے آپ کو دیتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی، قیمتیں کم ہوجائیں گی، نوکریوں کی لائن لگی ہوگی، کرائے کم ہوجائیں گے، یہ سارے بہلاوے دراصل دھوکا ہیں۔اس سے قطع نظر کہ کون سی پارٹی حکومت کر رہی ہے۔ عوام کو تو ہمیشہ بہلاوے نما دھوکے ہی ملتے ہیں۔ اس میں بہت سے ایسے لیڈران بھی شامل ہیں جو وفات کا وقت گزرتے گزرتے پرتقدس ہوئے جاتے ہیں اور پارٹیاں اپنی ہر مہم ان کی قبر سے شروع کرتی ہیں۔
اس پر کسی کو برا نہیں ماننا چاہیے، کیونکہ پانامہ اور سوئٹزرلینڈ کے معاملات نے ان لوگوں کو خاصا نمایاں کردیا ہے۔انسان کی زندگی میں ایسے بہت سے مواقع آتے ہیں جہاں وہ اپنے آپ کو ایک سچا پیش گو سمجھنے لگتا ہے اور یہیں سے اس کے ذہن میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ ضیا الحق بھی اپنے آپ کو بہلاوے دیا کرتے تھے اور امیرالمومنین بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ حالانکہ عربوں کے ہوتے وہ ایشیائی امیر المومنین تو شاید بن جاتے، کل کا امیرالمومنین ہونا مشکل تھا۔ عرب تو آج بھی We Arabs پر قائم ہیں۔ اسلام نے ان کو مسلمان تو بنادیا، رہے وہ عرب کے عرب ہی۔ مڈل ایسٹ میں کیا ہو رہا ہے؟ ترکی، شام، عراق سب آپ کے سامنے ہیں۔اب یوں لگتا ہے کہ سعودیہ نے اس کا بیڑا اٹھایا ہے کہ امیرالمومنین کی سند ان کے پاس رہے مگر اس میں کچھ دشواریاں ہیں، کیا ہوگا یہ تو قدرت کو علم ہے، مگر شاید مسلمانوں کے ایک مرکز پہ جمع ہونے کا آغاز ہوگیا ہے، چاہے وہ سیاسی ہی ہوا۔
مسلمانوں کی تاریخ دنیا کی ہر قوم سے ایک جداگانہ تاریخ ہے۔ ہم صرف تاریخ کا ذکر کر رہے ہیں۔ مذہب یا دین مقصود نہیں ہے، نہ کسی فرقے کا ذکر مقصود ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ یوں عجیب ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ محب وطن لوگ بھی مسلمانوں میں پیدا ہوئے اور غداروں کی بھی ایک لائن لگی ہے۔ نہ محب وطن لوگوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کی، نہ غداروں نے مادر وطن اور قوم کی پروا کی۔ غیور محب وطنوں نے جان دے دی۔ غداروں نے وطن دے دیا، قوم بیچ دی، یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ یہ تو شاید قدرت کا ایک راز ہے، کوئی اس کا درست تجزیہ آج تک نہ کرسکا۔ سب نے بس حالات لکھے، وجہ نہیں لکھ سکے۔ حالانکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے جغرافیائی حالات الگ الگ ہیں، مگر یہ کام سب جگہ ایک جیسا ہے، غذا الگ، جگہ الگ، عمل ایک۔ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنی اس خامی کا ذکر کرتے ہوئے ریت میں سر نہیں چھپانا چاہیے، یہ ایک حقیقت ہے اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔
ہر مسلم مملکت میں اس کے تباہ کار اس وقت کے سیاسی دہشت گرد موجود تھے۔ غرناطہ، قسطنطنیہ، برصغیر ہند و پاک جو کبھی ہندوستان تھا۔آج بھی جہاں مسلمان ہیں وہاں عدم استحکام ہے، پریشانی ہے اور مسلسل یہ فکر ہر ایک کے لیے لاحق رہی ہے کہ کل کیا ہوگا۔ اور دشمن مملکتیں جو اسلامی مملکتوں پر قبضہ چاہتی ہیں ظاہراً یا درپردہ وہ دن بہ دن طاقت حاصل کرتی جا رہی ہیں اور آپس میں ہم نوا بھی۔ کسی مسلمان مملکت کا کوئی غیر مسلم ملک حامی نہیں ہے، صرف سیاسی ضرورتیں اور مجبوریاں ہیں ورنہ وہ ان پر قبضہ کرنے میں منٹ نہ لگائیں۔مسلمانوں کو یہ لوگ عجیب عجیب کاموں پر لگا دیتے ہیں، اس کے علاوہ کہ بعض حکمرانوں نے ایک سو سے زیادہ شہزادے اور شہزادیاں پیدا کر رکھی ہیں۔ وہ کام یہ کہ جدید ایجادات کے ذریعے دنیا پرستی، عمارتیں بن رہی ہیں، اﷲ کی دی ہوئی دولت کا زیاں ہو رہا ہے۔ سہولیات دنیا بھر کی حاصل کرکے وہ عالم ہوگیا ہے کہ بقول شاعر:
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
امریکی کمپنی نے اب ایک ایسی گھڑی تیار کی ہے جو آپ کو زندگی کی اہمیت کا احساس دلا سکے۔ ایک ایسا کلاک جو فرضی طور پر یہ اندازہ لگاتا ہے کہ آپ کی کتنی زندگی باقی ہوسکتی ہے۔ یہ ایک باقاعدہ گھڑی ہے جو الٹی چلتی ہے، یعنی اس میں وقت کم ہوتا جاتا ہے، وہ تمام چیزیں ہیں جو اس گھڑی کو چلاتی رہیں۔ اب آپ اس میں جتنی عمر اپنی چاہتے ہیں سیٹ کردیں، یہ آپ کی عمر گھٹانا شروع کردے گا اور ہر لمحہ آپ کو احساس ہوگا کہ آپ کے پاس کتنا وقت باقی ہے۔ ایک سائنسی تحقیق کے مطابق ایک انسان اوسطاً 28 ہزار دن زندہ رہتا ہے تو آپ جتنے دن گزار چکے ان کو کم کرکے کلاک سیٹ کردیں اور پھر روز یہ معلوم کرتے رہیں کہ آپ کے پاس کتنا وقت باقی ہے اور کون کون سے کام باقی ہیں اور آپ ان کو موجود وقت کے اندر مکمل کرلیں۔
یہ ہر چند کہ ایک مذاق ہی ہے، کیوں؟ وہ ہم ابھی عرض کرتے ہیں، مگر اس سے ایک اندازہ ہوتا ہے کہ غیر مسلم قوموں کو وقت کا کس قدر ادراک ہے اور وہ اسے کس قدر قیمتی سمجھتے ہیں۔مذاق یوں کہ قدرت نے تو خود ہر طرف گھڑیاں سیٹ کر رکھی ہیں۔ آپ کی سانس سیکنڈ کے حساب سے ہے، جو ایک گھڑی ہے۔ آپ کی نبض کی رفتار ایک گھڑی کی طرح ہے۔ یہ دونوں آپ کے جسم کے پورے نظام کی خبر دیتے ہیں۔
آپ کا دل تیسرا عنصر ہے جو سب سے بڑا کلاک ہے ۔ یہ کلاک بند، کاروبار زندگی بند۔قدرت نے آپ کو پابند کیا ہے کہ آپ ایک مقررہ وقت کے لیے یہاں ہیں اور یہ وقت دل کے ذریعے چل رہا ہے، بتا دیا ہے قدرت نے کہ جب یہ بند ہوجائے گا آپ کی ٹرین اسٹیشن پر کھڑی ہوگی، یا آپ کا جہاز روانگی کو تیار ہوگا، جو آپ کو اپنے Status کے مطابق اچھا لگے۔یہ ایک بہلاوا ہے۔ یہ گھڑی ان لوگوں کے لیے ہے جو قدرت کو اپنے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بنائے ہوئے قوانین میں اپنے قوانین ٹھونستے ہیں، مگر کیا حاصل ہوگا، وہی جو قدرت کا منشا ہوگا اور قدرت کا منشا صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے، انسانوں کے لیے ہے۔
مسلمانوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے ان اقوام نے۔ وہ اپنی اخلاقی اقدار، درخشاں تاریخ، علم اور ترقی سے جو اس کے باوجود کہ قوم میں غدار ہے، قوم نے حاصل کی تھی بے بہرہ ہوگئے ہیں، بھول گئے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ اختلافات سے بھری پڑی ہے۔ کیا اچھا کیا برا، یہ ایک الگ بات ہے مگر مسلمانوں نے من حیث القوم ترقی کی تھی۔ مسلمان ایک تہذیب یافتہ قوم تھے، اس کے باوجود کہ ان کے اندر بے شمار خلفشار رہے، کئی مسئلے تھے، الگ الگ زاویے تھے، تجزیے تھے۔مسلمانوں کے مخالف اس سے پریشان تھے کہ اس کے باوجود ان میں رنگ نسل، قبیلوں کی جنگ موجود ہے، یہ ترقی کر رہے ہیں اور دنیا بھر پر چھاتے جا رہے ہیں۔ تو وہ کچھ کیا چند صوبوں میں کہ آج ہم وہاں ہیں جہاں کبھی اسلام اور مسلمان مخالف قوتیں تھیں۔
ہم خود، خود کو کاٹ رہے ہیں۔ مگر مسلمان ایک بہت عجیب قوم ہے۔ خداوند کریم کی رحمت پر ختم نہیں ہوتی کہ شاید آخری نبیؐ کی خواہش اور آرزو اور ان کا یقین یہی تھا، اب ایک بار پھر مسلمان بچے اس جدید دور میں ان کے اپنے Tools کے مطابق دنیا میں نمایاں ہو رہے ہیں اور صدر امریکا اوباما جون میں ایک پاکستانی خاتون سے جو ٹیکنالوجی ماہر ہیں، وائٹ ہاؤس میں ملاقات کر رہے ہیں یا اس کالم کے چھپنے تک کرچکے ہوں گے۔