تہوار… ہمارے اور ان کے

جب سے ٹی وی آیا ہے اور کیمروں کا استعمال شروع ہوا ہے چاند ایک عوامی میراث اور تماشا بن گیا ہے


Abdul Qadir Hassan June 10, 2016
[email protected]

جب ہماری دنیا زیادہ ترقی نہیں کر سکی تھی تب ہمیں رمضان المبارک کی آمد کی خبر آسمانوں سے ملتی تھی یوں ہوتا کہ علمائے کرام کا ایک مجمع کسی مقام پر جمع ہو جاتا جہاں سے وہ چاند کو قابو کر لیتا اور آسمان میں جہاں بھی وہ چھپنے کی کوشش کرتا علماء اسے نکال کر سامنے لے آتے اور ان کا چاند دیکھ لینا ہی کسی نئے مہینے کا آغاز سمجھا جاتا تھا۔

رمضان کا چاند چند علماء ہی نہیں پورا ملک ہی زمین سے آسمان پر چلا جاتا تھا اور جسے بھی نومولود چاند دکھائی دیتا وہ شور مچا دیتا اور چند دوسروں کو ساتھ ملا کر علماء کے لیے ایک مستند گواہی بن جاتا ایسی گواہی جسے تسلیم کرنا پڑ جاتا تھا۔ یہ عوامی گواہی علمائے کرام کے لیے پسندیدہ نہیں ہوا کرتی کیونکہ اس میں ان کا یہ سالانہ اقتدار کمزور پڑ جاتا تھا اور انھیں عوام کی بات ماننی پڑتی تھی۔

جب سے ٹی وی آیا ہے اور کیمروں کا استعمال شروع ہوا ہے چاند ایک عوامی میراث اور تماشا بن گیا ہے اور پوری قوم بیک وقت اس مبارک چاند کا نظارہ کرتی ہے اور اپنا رشتہ اللہ تبارک تعالیٰ سے جوڑ لیتی ہے جو روزہ داروں کے اجر کی حفاظت کرتا ہے یعنی ان کی امانت کو اپنے پاس رکھ لیتا ہے بس چند منٹ بعد ہر طرف ایک شور برپا ہو جاتا ہے کہ چاند ہو گیا۔ روزہ دار ایک نئی آزمائش سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ یہ مہینہ اس کا ہر دن اور ہر ساعت ایک متبرک لمحہ بن جاتی ہے اور ایک بات پر روزہ دار کے ذہن میں ہوتی ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ کا فرمان ہے کہ روزہ میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ روزہ ایک غیر معمولی اور منفرد عبادت ہے اور ہر روزہ دار کو اس عبادت کی انفرادیت کا احساس رہتا ہے روزے کی ہر افطاری ایک خوشی کا منظر ہوتی ہے روزہ کی تکمیل پر ہر روزہ دار خوش ہوتا ہے اور اپنی کامیابی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔

روزے کی برکات اور اس کے آداب کا یوں تو ہر مسلمان کو بخوبی علم ہے لیکن ہم پاکستانی شاید دوسرے مسلمانوں سے زیادہ صاحب علم ہیں اور رمضان کا استقبال خوب دھوم دھام کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس کا اعلان سب سے پہلے ہمارے تاجر کرتے ہیں جو روزہ داروں کی ضروریات کی ہر چیز مہنگی کر دیتے ہیں اور انھیں روزے کے تقدس کا ہر گز خیال نہیں ہوتا۔ ان کے لیے یعنی ہمارے تاجروں اور دکانداروں کے لیے روزہ کا مہینہ روحانی برکات کا نہیں مالی برکات کا مہینہ ہوتا ہے اور وہ جی بھر کر مال بناتے ہیں روزہ داروں کو ہر چیز دگنی تگنی قیمت پر ملتی ہے لیکن وہ روزہ کو بہلانے کے لیے یہ سب خرید لیتے ہیں۔

یہ ان کی ایک مجبوری بھی ہوتی ہے۔ جن لوگوں کو بیرونی دنیا میں وہاں کے تہواروں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ کرسمس کا تہوار ہو یا کوئی اور چھوٹا موٹا تہوار ہر چیز سستی کر دی جاتی ہے۔ لوگ عموماً کسی ایسے تہوار کا انتظار کرتے ہیں جس پر وہ اپنی ضرورت کی کئی چیزیں بہت کم قیمت پر خرید لیتے ہیں۔ میں خود کئی بار اس تجربے سے گزرا ہوں کہ اپنے اور گھر والوں کے لیے سویٹر کوٹ اور دوسرا سامان تقریباً نصف قیمت پر خریدا اور اس کا معیار وہی تھا جو عام طور پر ہوا کرتا ہے اگر پاکستان ہوتا تو یہ تمام اشیاء کم از کم دگنی قیمت پر ملتیں اور ہمارے جیسے نادار مسافر بہت کم خریداری کر سکتے لیکن مغرب کے کفار اپنے تہواروں کو عوام کے لیے خوشی اور سہولت کا ایک موقع بنا دیتے ہیں۔ خود ہمارے پاکستانی اپنے دوستوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ پاکستانی عزیزوں کے لیے سامان خریدنے کا موقع کس تہوار تک ملتوی کر دیں سال میں تین بار یہ تہوار آ جاتے ہیں جب آپ کم نرخوں پر سامان خرید سکتے ہیں۔ وہاں کے پاکستانی آپ کی رہنمائی کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔

ہم جو مسلمان کہلاتے ہیں بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے کسی تہوار کا احترام نہیں کرتے بلکہ اس تہوار کو لوٹ مار کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ عید بقر عید ہو یا کوئی اور تہوار ہمارے لیے یہ تہوار سامان کی قیمت میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے جب کہ مغربی کفار کے لیے یہ موقع خریداروں کو سستی اشیاء دینے کا ہوتا ہے ایک بات میں کبھی نہ بھولوں گا۔ میں لندن میں گرم کپڑا خریدنے گیا تو دکاندار نے مجھ سے کہا کہ آپ کے پاکستان میں فلاں کار خانے کا کپڑا اس کپڑے سے بہتر ہوتا ہے اس لیے آپ یہ نہ خریدیں اور واپس پاکستان جا کر اپنے ہاں کا کپڑا خرید لیں۔ میں نے پھر بھی اس دکاندار سے کہا کہ ٹھیک ہے آپ مجھے یہی کپڑا دے دیں کہ مجھے اس کا ڈیزائن وغیرہ پسند آ گیا ہے اس انگریز دکاندار نے میری طرف غور سے دیکھا اور کہا کہ آپ کو کیا اپنے ملک کی اشیاء کی کوئی قدر نہیں ہے چند دن ہوئے کہ آپ کے فلاں صاحب اپنے خاندان کے ہمراہ شاپنگ کے لیے آئے تھے اور میری دکان سے انھوں نے کئی کپڑے خرید کیے لیکن وہ دولت مند لوگ تھے۔

ان کی اور بات تھی مگر میں آپ کو کپڑے نہیں بیچوں گا۔ یہ آپ سے ہمدردی نہیں ہو گی جس کی ہمیں نصیحت کی گئی ہے کہ گاہک سے ہمدردی کیا کرو آپ گھر جا کر فلاں مل کے اس سے بہتر کپڑے خرید کر لیں اور اس سے بہت سستے داموں سے۔ اپنے اوپر ڈیڑھ سو برس حکومت کرنے والے انگریز سے نفرت آپ بے شک کریں لیکن اس کی دیانت اور کاروباری اخلاق کی قدر بھی کریں۔ اس دکاندار نے میرے پوچھنے پر مذکورہ پاکستانیوں کا نام بھی بتایا مگر حقارت کے ساتھ۔ وہ یہ بھی کہنے لگا کہ ہم کاروبار کرتے ہیں لوٹتے نہیں ہیں اور اپنا سکون ضایع نہیں کرتے اور یہ کپڑے بھی یہاں کے بنے ہوئے نہیں ہیں باہر کے ہیں ایک دوسرے عام سے ملک کے آپ ان پر پیسے ضایع نہ کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں