چاہ بہار اور گوادر

چین مشرق وسطیٰ کے ممالک سے 6.3 ملین بیرل تیل درآمد کرتا ہے جس پر اس کے 18 ملین ڈالر روزانہ خرچ ہوتے ہیں


اکرام سہگل June 10, 2016

PESHAWAR: تاریخ کا کیسا حسن اتفاق ہے کہ سکندراعظم نے 2500 سال قبل جس راستے پر سفر کیا وہ تقریباً وہی راستہ تھا جس پر آج چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) تعمیر ہو رہی ہے۔ دریائے سندھ کے پیچھے کی طرف مغرب کی طرف بڑھنے سے پہلے ''تیز'' یا ''تیس'' کی ساحل کے ساتھ جو چاہ بہار اور گوادر کے درمیان ایک پرانی بندرگاہ تھی، حال ہی میں بھارت، ایران اور افغانستان کے مابین جو سہ فریقی ٹرانزٹ تجارت کا معاہدہ ہوا ہے تو اس میں چاہ بہار کو پاکستان کے راستے تجارت کے متبادل کے طور پر رکھا گیا ہے۔ سی پیک کو چونکہ ''گیم چینجر'' کا نام دیا جا رہا ہے جس سے بھارت بہت زیادہ حسد میں مبتلا ہو گیا ہے۔ چنانچہ بھارت اور افغانستان نے پاکستان کو الگ تھلک کرنے کی سازش کی جب کہ ایران نے اعلان کیا کہ چاہ بہار اور گوادر کی بندرگاہیں ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مدد گار ثابت ہوں گی۔

بھارت نے افغانستان کے صوبہ نیمروز سے زرنج تک جو زاہدان کے قریب ہے 220 کلو میٹر طویل سڑک کی تعمیر پر 100 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں اور اب بھارت زاہدان تک 500 کلو میٹر ریل ٹریک بھی تعمیر کرے گا تا کہ بھارتی اشیاء چاہ بہار تک پہنچائی جا سکیں۔ چاہ بہار سے میلاک (950 کلو میٹر) تک سڑک ایران افغان سرحد پر پہلے ہی موجود ہے، زاہدان (700 کلو میٹر) پاک ایران کے مشترکہ بارڈر سے جو مشہد کا 950 کلومیٹر کا فاصلہ اور سرخس کا 827 کلو میٹر کا فاصلہ ایرانی سرزمین پر طے کر کے سہ رکنی جنکشن یعنی ایران، ترکمانستان اور افغانستان تک پہنچتی ہے۔

بھارت اگر ایران کے راستے افغانستان کے ساتھ تجارت کرے تو یہ تجارت جس کا موجودہ حجم 7 سو سے 8 سو ملین ڈالر تک ہے،3 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ ایران کے ساتھ تجارت 2013-14ء میں 683 ملین ڈالر تک تھی۔ اگرچہ چمن اور طورخم کی سرحدوں سے سیکڑوں کنٹینر افغانستان میں داخل ہوتے ہیں لیکن ایران سے افغانستان داخل ہونے والے کنٹینروں کی تعداد 30 ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔

یہ اعدادو شمار 2008-09ء میں اکٹھے کیے گئے۔ تاہم 2013-14ء میں یہ تعداد تقریباً دوگنا ہو کر 80 ہزار کنٹنیروں تک پہنچ گئی جن میں کارگو کی ورائٹی بھی شامل تھی۔

1970ء میں ایران کے دبئی اور خلیج کی دوسری بندرگاہوں پر مکمل انحصار کی صورت میں چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دینے کا پروگرام بنایا گیا۔ جس کی 1980ء کی ایران عراق جنگ کی وجہ سے اہمیت میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا۔ ایران اور روس نے انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور (آئی این ایس ٹی سی) پر مئی 2002ء میں کام شروع کر دیا۔ جنگ کی وجہ سے بندر عباس کی بندرگاہ بہت بری طرح تباہ ہو گئی تھی جو زیادہ کارگو کا انتظام نہیں کر سکتی تھی جب کہ چاہ بہار کی گہرے پانی والی بندرگاہ ایک لاکھ ٹن کے بڑے جہاز بھی یہاں لنگر انداز ہو سکتے تھے۔ لہٰذا اس کو ڈویلپ کرنے کا فیصلہ فطری تھا۔

چاہ بہار کے ساتھ دو ملحقہ بندرگاہیں ''شہید کانتری'' (جس میں (45x4 میٹر کی برتھیں) اور شہید بہشتی کی بندرگاہ پر (4x150 میٹر کی برتھیں ہیں) اگر اس کے ساتھ 235 اور 265 میٹر لمبی دو اور برتھیں بنا دی جائیں تو اس کی سالانہ استعداد 8.5 ملین ٹن ہو جائے گی۔ بھارت کی بندرگاہوں کا سرکاری محکمہ ''پورٹس گلوبل'' 85 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے (1) دو مزید کنٹینر برتھیں اور تین ملٹی کارگو اور (2) ''چاہ بہار فری ٹریڈ زون'' صنعتی مقاصد کے لیے بنائی جائیں گی۔ گوادر کی گہرے سمندر کی بندرگاہ فی الوقت 10 لاکھ ٹن سامان سالانہ کی رسل و ترسیل کر رہی ہے اور چونکہ اس کی برتھوں کا مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی استعداد میں بھی کئی گناہ اضافہ ہو رہا ہے۔

چین مشرق وسطیٰ کے ممالک سے 6.3 ملین بیرل تیل درآمد کرتا ہے جس پر اس کے 18 ملین ڈالر روزانہ خرچ ہوتے ہیں۔ چین کو اپنی تیل کی ضروریات کا 80 فیصد تیل بحری جہازوں کے ذریعے منگوانا پڑتا ہے۔ کاشغر گوادر سی پیک کے چین کے لیے آبنائے ملاکا تک 10,000 کلو میٹر کا فاصلہ کم ہو جائے گا۔ جس سے اس کی لاگت بھی صرف ایک تہائی رہ جائے گی۔ چین اگر 50 فیصد تیل بھی درآمد کرے تو اس کو روزانہ 6 ملین ڈالر کی بچت ہو گی جو سال بھر میں تقریباً 2 ارب ڈالر کی رقم بن جائے گی۔

پاکستان سی پیک راہداری کے لیے اگر اپنے انفراسٹرکچر کو بہتر کرلیتا ہے تو اس کو بے پناہ ٹرانزٹ فیس حاصل ہو گی اور لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار میسر آئے گا۔ اس عظیم راہداری کا پہلا مرحلہ 2017ء تک مکمل ہو جائے گا جس کے ساتھ 3000 کلو میٹر سڑکوں اور ریلوے کا نیٹ ورک ہو گا جب کہ گوادر بندرگاہ سے گیس پائپ لائن کاشغر تک بچھائی جائے گی۔ سی پیک کا مغربی روٹ 2018ء تک مکمل ہو گا۔ اس بات کے باوجود کہ افغانستان کی تجارت پر کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی، افغانستان کو اخراجات میں اضافے اور وقت کی تاخیر کے شکوے موجود ہیں۔ چین کی طرف سے پاکستان کو جو ٹرانزٹ فیس ملے گی اس سے پاکستان کے محصولات میں گرانقدر اضافہ ہو گا۔

مزید برآں پاکستان میں برآمد اور درآمد کنندگان کے اخراجات میں 50 فیصد سے زیادہ کمی ہو گی۔ اس طرح ہماری برآمدات کم نرخوں کی وجہ سے عالمی منڈی میں بہتر طور پر مسابقت کر سکیں گی۔ افغان حکومت نے اپنے غیر دوستانہ رویے کے باوجود پاکستان سے رسمی طور پر درخواست کی ہے کہ پاکستان میں جو 15 لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین مقیم ہیں ان کے پاکستان میں قیام کو مزید 4 سال تک بڑھا دیا جائے (واضح رہے کہ 15 لاکھ مہاجرین وہ ہیں جو باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ہیں جب کہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد 16 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔) افغانستان کی درخواست کے مطابق ہمیں ان مہاجرین کو 2020 تک مزید برداشت کرنا ہو گا جوکہ پاکستان کی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔ کیا افغانستان کا نام نہاد خیرخواہ اور دوست یعنی بھارت 30 سے 60 ہزار افغان مہاجرین کا بوجھ بانٹ سکتا ہے۔ یعنی مجموعی تعداد کا صرف 1 سے 2 فیصد کا بوجھ۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد کم ہونے سے کلاشنکوف اور منشیات کے کلچر میں بھی کمی آئے گی جس کا کہ 1979ء سے قبل پاکستان میں کوئی تصور ہی نہیں تھا۔

افغانستان ہماری طرف سے بھارتی تجارت کو راہداری نہ ملنے پر تنقید کرتا ہے جب کہ افغانستان ہمیں کوئی ٹرانزٹ فیس ادا نہیں کرتا۔ افغان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگرمنٹ (اے پی ڈبل ٹی اے) کے نتیجے میں محض اسمگلنگ کو ہی فروغ حاصل ہوا ہے جب کہ پاکستان کو اس ضمن میں تقریباً 2 ارب ڈالر کا خسارہ ہوا ہے۔ پاکستان کی مصنوعات کو افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں تک جانے کی سہولت بھی بہت محدود ہے جس کے لیے پاکستان کو ٹرانزٹ فیس ایڈوانس میں دینا پڑتی ہے جس سے ان مصنوعات کی لاگت 110 فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت افغانستان ٹرانزٹ سہولتیں بلا معاوضہ حاصل کر رہا ہے۔ ان سہولتوں کے لیے چین کی طرف سے خاطر خواہ رقم ملے گی۔

خواہ اس منصوبے کے لیے ان کے نظریات مختلف ہوں اور چونکہ وہ اپنے حجم اور آبادی میں بھارت سے بھی زیادہ بڑا ہے لہٰذا چین کی تجارت کا حجم بھی کافی بڑا ہو گا اور اس کے ذیلی پہلوؤں سے پاکستان کو لامحالہ فائدہ ہو گا۔ چاہ بہار کی بندرگاہ کو دبئی، ابوظہبی وغیرہ کی خلیجی بندرگاہوں کے لیے مسابقہ درپیش ہو گا۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف دشمنی کے بیانات کا ہمیں ایک یہ فائدہ ہوا کہ ہمارے سر سے افغانستان کا بوجھ بھی ہلکا ہوگیا۔ لہٰذا یہ اہم وقت ہے کہ ساری توجہ گوادر پورٹ پر مرکوز کر دی جائے۔ چاہ بہادر اور گوادر کو 72 کلو میٹر کی سڑکوں اور ریل کے ساتھ ملا دیا گیا ہے جس کی بنیاد پر ان دونوں بندرگاہوں کو روادارانہ کہا جائے گا نہ کہ حریفانہ۔ رابرٹ ڈی کپلان کا کہنا ہے کہ اگر ہم ماضی بعید کے عظیم شہروں کا ذکر کریں تو تھیبس، ٹرائے، سمرقند ، انگ کور اور ماضی قریب کے شہروں میں دبئی، سنگاپور، تہران، بیجنگ، واشنگٹن اور گوادر کے نام ذہن میں آئیں گے۔ یہ سب مستقبل کے عظیم شہر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں