اب بھی وقت ہے

ہزاروں طرح کے مسائل دن بہ دن سانپ بچھوؤں کی طرح نکلتے ہی چلے آرہے ہیں


فرح ناز June 10, 2016
[email protected]

ہزاروں طرح کے مسائل دن بہ دن سانپ بچھوؤں کی طرح نکلتے ہی چلے آرہے ہیں اور ہمارے اردگرد وحشتیں بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے باوجود کہ کئی طرح کے آپریشن بھی ہورہے ہیں، مگر درحقیقت ظلم وجبر کبھی بھی پنپتے نہیں، عدل وانصاف ہر چھوٹے بڑے کے لیے یکساں نہیں ہوگا، تب تک ہم اسی طرح ذلیل وخوار ہوتے رہیں گے اور دشمن توانا۔

ہر دور حکومت میں کرپشن رہی اور لوگ کماتے رہے مگر جس طرح ڈھٹائی کے ساتھ موجودہ دور حکومت چل رہا ہے، وہ قابل دید ہے۔ اب تو زبردست بات یہ بھی ہے کہ موجودہ پارلیمنٹیرین خواتین پر بھی کیچڑ اچھالا جارہا ہے۔ شیریں مزاری کو جس القاب سے نوازا گیا ہے کچھ سوچنے پر مجبورکرتا ہے ۔

رمضان کریم شروع ہوچکا ہے اور اس مہینے کی برکتیں اور فضیلتیں ڈھکی چھپی نہیں، رمضان کے شروع ہوتے ہی مہنگائی زبردست شروع ہوچکی ہے، ٹھیلے سے لے کر مارٹ تک کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جس کا جتنا دل کررہا ہے وہ اتنا منافع کمارہا ہے۔ عوام بے یارومددگار، کہاں جائیں اور کس سے فریاد کریں، کوئی پتہ نہیں۔

اس طرح کے لوٹ مار اور ناانصافی کے ماحول میں ہم کیسے توقع کریں کہ ہم اور ہمارے لوگ جنت کے راستے پر چلیں، صبر کے گھونٹ پیئیں اور چوروں اور ڈاکوؤں کو راج کرنے دیں۔ اسی طرح کے حالات رہے تو کیسے توقع کریں کہ ہماری نوجوان نسل صحیح راستے پر نکلے گی۔ اس کے مقاصد اچھے ہوں گے، منفی خیالات اور منفی رویے زہر سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے اور ہو رہے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو ان کے حقوق نہیں ملیں گے، ان کو روزگار نہیں ملے گا، ان کی فیملیز کو سیکیورٹی نہیں ہوگی، توکیسے ہم یہ سوچ رکھیں کہ امن و سلامتی ہوگی۔ شیریں مزاری کے لیے تازہ القابات یہ بات واضح کرتے ہیں کہ حکومتی ارکان کی سوچ کیا ہے اور یہ کس طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔ کراچی میں تعلیم یافتہ لوگ زیادہ ہیں، بے حساب خیر اور بھلائی ہوسکتی ہے۔ بہتر ذہن موجود ہے، مگر حالات کسی اور رخ کے ہیں۔

بنیادی ضروریات کو مہنگا ترین اور لگژریز کو پروموٹ کیا جارہا ہے۔ کیا حاصل ہوگا اور کس طرح کے ماحول کو ہم برداشت کریں گے، اسپتال ہو یا تعلیمی ادارے، غیر محفوظ سے ہوکر رہ گئے ہیں۔

اسپتالوں سے نومولود غائب ہوجاتے ہیں، مریض کسمپرسی کی حالت میں ہیں کہ وہ بے چارے نہ سمجھتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں۔ ڈاکٹر جیسا بے لوث شعبہ بزنس انڈسٹری بن گیا ہے۔ رحم، ایمانداری ختم ہوکر رہ گئی ہے، بس صرف فتنہ و فساد ہی نظر آرہا ہے۔ بے حسی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ نہ صرف غیروں کے لیے بلکہ اپنوں کے لیے بھی مخلص اور حقوق و فرائض ختم ہونے جیسے ہی ہیں۔

ہر آدمی اپنی جھوٹی انا میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے، پہلے جوائنٹ فیملی سسٹم ختم ہوا اب تو حال یہ ہے کہ فیملی سسٹم ہی ختم ہوتا جارہا ہے اور یورپ اور امریکا کے رسیا اس ملک کو بھی یورپ اور امریکا بنانے پر تلے ہوئے ہیں جو صرف اور صرف تباہی و بربادی ہی ہوگا۔ وزرا کا کام صرف ایوانوں میں براجمان ہونا ہی نہیں بلکہ درحقیقت وہ عوام کے نمایندے ہیں اور عوام کے ساتھ کھڑے ہونا ان کی کامیابی ہے۔

ایم کیو ایم کراچی میں مضبوطی سے قدم اس لیے جمائے ہوئے تھی کہ ان کے نمایندے عوام کے ساتھ ساتھ کھڑے تھے، ان کے مرکز میں شکایتوں کا دفتر تھا، لوگ آتے تھے اپنی شکایتوں کے ساتھ اور ان کا ازالہ بھی ہوتا تھا، یہ الگ موضوع ہے کہ ان کا استعمال انھوں نے کتنا غلط اورکتنا صحیح کیا۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں تھا، عوام کی جڑوں میں یہ جماعت اپنی جگہ مضبوطی سے بنا بیٹھی تھی۔ چھوٹے مسائل سے لے کر بڑے مسائل تک ایک لائحہ عمل مانگتے ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں ہی اگر غنڈہ گردی باقاعدہ سربراہی کے ساتھ ہوگی تو کب تک چلے گی۔

ایم کیو ایم کے زوال کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ الطاف حسین پارٹی کے ہیڈ بنے ہوئے ہیں اور سالہاسال سے پاکستان سے باہر ہیں۔ رابطوں میں جن لوگوں کے جو مفادات ہوں گے وہ انھوں نے حاصل کیے، اگر یہی لوگ صحیح طریقے سے اپنی پہچان کو ایک پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے کراچی کے لیے کام کرتے تو آج کراچی کہاں سے کہاں ہوتا۔ 30-25 سال میں کراچی نے بہت زیادہ تکالیف برداشت کیں اور ایک انٹرنیشنل شہر ہوتے ہوئے بجلی، پانی، کچرے کے ڈھیر جیسے غلاظتوں میں مبتلا ہے۔

رمضان کریم کے ساتھ ساتھ گداگروں کی پوری فوج کراچی پر حملہ آور ہوتی ہے کہ یہ بھی مافیا ہے۔ نہ کوئی روکنے والا نہ کوئی پوچھنے والا۔ ڈیفنس سے لے کرکوئی بھی جگہ ایسی نہیں جہاں غلاظت کے ڈھیر نہ ہوں،کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں گٹر نہ ابل رہے ہوں، اتنے بڑے شہر میں KMC موجود ضرور ہے، مگر رزلٹ زیرو۔ کھانے پینے کے، سبزیوں کے، پھلوں کے ٹھیلے ایسے جیسے کہ برسات، کوئی ربط نہیں، کوئی نظام نہیں۔

ٹریفک کا نظام اپنی من مانی پر چل رہا ہے کہ جیسے دوسرے تیسرے ادارے چل رہے ہیں، ویسے یہاں پر بھی من مانی ہے۔ جزاوسزا کا عمل جب تک درست نہیں ہوگا تو کیسے کاروبار زندگی چلے گا۔ تمام دنیا کے قوانین بدلے جاسکتے ہیں مگر اللہ کا قانون بدلا نہیں جاسکتا۔ رسول پاکؐ نے تمام قوانین تمام دنیا کے سامنے بیان کردیے، جزا وسزا کا عمل بھی کرکے دکھا دیا، بتادیا، خلافت راشدہ بھی پوری طرح عیاں ہے، پھر بھی ہم زوال پذیر ہیں۔ چند ہزار لوگ کیا کروڑوں لوگوں کوکھا جائیں گے۔ کیا کروڑوں لوگ کتے بلیاں بن کر رہ جائیں گے؟ دولت کے انبار کیا انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال نہیں ہوسکتے ہیں، بل گیٹس جیسا بندہ بہت ساری دولت دنیا کے لوگوں کی بھلائی کے لیے خرچ کررہا ہے تو پھر ہم امیر المومنین بن کر بھی فرعون کیوں؟

عمران خان کا شکریہ کہ اس نے تمام سیاستدانوں کے اصلی چہرے اورکردار عام آدمی کے سامنے کھول کھول کر رکھ دیے ہیں۔ اب ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ہمارے حکمران ہم سے کتنا مخلص ہیں۔ عام آدمی بھی جانتا ہے راحیل شریف کیا کام کر رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی سمتوں کو صحیح راستے پرکریں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ان چہروں کو پہچانیں۔ یہ وقت بھی ہاتھ سے نکل گیا تو پھر اللہ نگہبان۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں