سُر مارئی سے ماریہ انعم تک
شاہ عبداللطیف بھٹائی سندھی زبان کے شاعر ہیں، آپ کا کلام صوفیانہ رنگ میں رنگا ہوا ہے
شاہ عبداللطیف بھٹائی سندھی زبان کے شاعر ہیں، آپ کا کلام صوفیانہ رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میں انسان دوستی، محبت، کیف و جذب کی کیفیت بدرجہ اتم موجود ہے، ان کا زیادہ تر کلام عشق الٰہی سے عبارت ہے، شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری غنائیت سے مرصع ہے، انھوں نے اپنی مشہور داستانوں کو موسیقی کے کسی نہ کسی سُر میں بے حد نفاست اور خوبصورتی کے ساتھ ڈھالا ہے، ان کا قاری ان کے کلام کو پڑھتے ہوئے وجدانی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ تصوف و عرفان کے حوالے سے شاہ کا کلام عظیم شاہکار کا درجہ رکھتا ہے اور اس کا ترجمہ بہت سی زبانوں میں ہوچکا ہے۔
ان کی ایک نظم ''سُر مارئی'' شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے، اس نظم کا ترجمہ سندھ کے بڑے شاعر شیخ ایاز نے کیا ہے، اس نظم کا تعلق صحرائے تھر سے ہے اور اس کا شمار سندھ کی مشہور لوک داستانوں میں ہوتا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے مارئی کے اغوا ہونے کی داستان کو نہایت نفاست دردمندی اور محبت کے ساتھ شعری پیراہن میں ڈھالا ہے۔ اور اسے تیسری داستان کے درجے سے منسوب کیا ہے۔
مارئی تھر کی ایک غریب لڑکی ہے جو حسین و جمیل ہے اور جب عمر کوٹ کا حکمران عمر سومرو صحرائے تھر میں قدم رکھتا ہے تو مارئی کی خوبصورتی پر فریفتہ ہوجاتا ہے اور اسے اغوا کر کے عمرکوٹ لے جاتا ہے، اور تعیشات زندگی اس کے قدموں میں ڈال دیتا ہے، لیکن مارئی کو قیمتی لباس، سونے چاندی کے زیورات متاثر نہیں کرتے ہیں بلکہ اسے اپنے گھر کی اور اپنے منگیتر کھیت کی یاد ستاتی ہے، اسی خیال کو شاہ عبداللطیف نے دل فریب پیرائے میں پیش کیا ہے:ترجمہ
میں نہ پہنوں گی ریشمی ملبوس
چاہے جس رنگ کا بھی ہو کوئی
میرے پیارے وطن کا تحفہ ہے
صاف و شفاف اون کی لوئی
جان سے بھی عزیز ہے مجھ کو
اپنے پنہوار کی رضا جوئی
سن رہے ہوں گے کتنے طعنے آج
تھر میں رہتے ہوئے مرے سرتاج
سومرا! تیری بدنگاہی سے
ہوگئی میری زندگی تاراج
اے عمر! ان سفید کپڑوں سے
مجھ کو پیاری ہے اپنے گھر کی لاج
اس داستان کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم اپنے اطراف میں دیکھتے ہیں تو ایسے ایسے تشدد آمیز واقعات نظر آتے ہیں کہ دل دہل جائے اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ یہ کیسی محبت تھی کہ اگر حاصل ہوجائے تب تو شاید بہتر ہی ہو اور اگر حصول نہ ہو تب اپنی اس عزیز ہستی کو جس کو پانے کے لیے کل تک جان دینے کے لیے تیار تھے آج اسی کی جان لینے پر تل گئے۔
محبت کی معراج عمر مارئی کی داستان میں نمایاں ہے۔ ناکامی اور ٹھکرائے جانے کے احساس سے نہ عمر مارئی کے چہرے کو تیزاب سے بدنما کرتا ہے اور نہ ہی مارئی کا منگیتر کھیت غیرت کی آڑ لے کر کاری کرتا ہے۔ دراصل محبت نام ہے ایثار و قربانی کا۔ اپنے چاہنے والے کی عزت کو برقرار رکھنے کا۔
عمر سومرو کا ظرف کتنا اعلیٰ ہے کہ وہ خود اس کے گھر چھوڑنے جاتا ہے۔ آج کے دور میں ایسا کرنا تو دور کی بات ہے ایسا سوچنا بھی ناممکنات میں سے ہے کہ درندگی، ہوس، حیوانیت انسان کے تن من میں داخل ہوچکی ہے۔
حال ہی میں دو واقعات ایک ساتھ ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ ماریہ نامی معلمہ جس کی عمر غالباً انیس سال تھی اور اس کا تعلق مری سے تھا۔ رشتہ نہ ملنے کے غم میں قاتل پاگل ہوگئے اور انھوں نے اس معصوم لڑکی پر جس کا کوئی قصور نہ تھا پٹرول چھڑک کر جلادیا، وہ اس قدر جھلس گئی تھی کہ گردوں اور دل و دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا اور آخرکار وہ اپنا بیان دے کر موت کے منہ میں چلی گئی۔
بات اتنی سی تھی کہ متوفیہ کا رشتہ شوکت نامی شخص نے اپنے بیٹے کے لیے مانگا تھا جو پہلے ہی سے شادی شدہ تھا اور ساتھ میں ایک بچے کا باپ بھی۔ ان حالات میں کوئی بھی ماں باپ ہوتے اپنی جان سے عزیز بچی کو جہنم میں ہرگز نہ دھکیلتے اور نہ ہی لڑکی کی خواہش ہوتی کہ وہ ایسے گھر سے شادی ہوکر اس گھر جائے جہاں اس کی سوکن اس کے استقبال کے لیے موجود ہو۔
''نہ'' کرنے کی صورت میں رشتے کے طالب دہشتگردی پر اتر آئے، زیادہ تر ایسا ہی ہو رہا ہے، والدین کی مرضی ہے جہاں وہ چاہیں شادی کریں۔ وہ ذمے دار ہیں، یہ نتھو خیرے، قاتل اور تخریب کار کون ہوتے ہیں جو والدین اور اولاد کے معاملے میں اپنی مرضی مسلط کریں۔
دوسرا واقعہ اداکارہ انعم خان کا ہے، جن پر موٹر سائیکل سواروں نے تیزاب پھینک دیا، اس سانحہ کا پس منظر بھی وہی ہے جو ماریہ کا تھا۔ فہد نامی شخص انعم خان سے شادی کرنے کے لیے بضد تھا۔ انعم کے انکار پر فہد نے دوستوں کے ساتھ مل کر تیزاب سے ماریہ کو جلادیا، انعم کے جسم کا نچلا حصہ 50 فیصد جھلس گیا۔ بھلا کسی سے زبردستی بھی شادی کی جاسکتی ہے، شادی تو دو دلوں کا سنجوگ ہے۔
مرضی کا سودا ہے، یہ اشیا کی خریداری نہیں ہے، اور دلوں کا مول بھاؤ نہیں ہوتا، یہ تو بڑی آسانی سے مستقل ہوجاتا ہے۔ ہماری دھرتی پر بے شمار محبت کی داستانوں نے جنم لیا ہے اور ناکامی کی صورت میں اپنی جان سے زیادہ ہستی کو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا، اپنی ہی آگ میں جل کر فنا ہوگئے، بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ کسی ویرانے میں جوگیوں اور قلندروں کی طرح مست ہوکر زندگی گزار دی۔
محبت کے دعویدار قدم قدم پر ملتے ہیں لیکن سچی محبت کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں، اس کے برعکس یکطرفہ محبت کا گیت الاپنے والوں کی بھی کمی نہیں، دوسری طرف سے محبت کا جواب محبت سے ملے یا نہ ملے اس بات کی پرواہ ہرگز نہیں، بس اپنے ہی داؤ پیچ آزماتے ہیں، ساتھ میں اس بات کا بھی یقین کامل ہوتا ہے کہ جس کسی بھی گھرانے میں رشتہ دیں گے، کامیابی سو فیصد حاصل ہوگی۔
انکار کی صورت میں بربریت کی فضا پروان چڑھتی ہے اور شرفا کی عزت کو تار تار اور عزت کے ساتھ ساتھ جان سے مار دینے کا گھناؤنا اور مکروہ کھیل بھی کھیلا جاتا ہے۔
اگر قانون سخت ہو اور سخت سزائیں دی جائیں تب اتنی آسانی سے کسی کی بیٹی، بہو اور بہن کی عزت اور جان خطرے میں نہیں پڑ سکتی ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں ہر چیز بکتی ہے، قانون بھی بک چکا ہے، جو چاہے دولت کے عوض خرید لے۔ قاتل کا کوئی بال بیکا کرنے والا نہیں، بس روپے پیسوں کی گڈیاں اعلیٰ افسران کی خدمت میں پیش کیں اور بدلے میں رہائی کا پروانہ آسانی سے مل گیا۔
اس بات کی کسی کو پرواہ نہیں کہ مقتول کا گھرانہ برباد ہوگیا اور گھروں میں قیامت اتر آئی، یہ ظالم و سفاک وہ لوگ ہیں جو انسانوں کا سودا کرتے ہیں، لاشوں کی تجارت کرتے ہیں پاکستان میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں گردوں کی خرید و فروخت جاری ہے بے چارے افلاس زدہ لوگ خود چل کر آتے ہیں کہ ہمارا گردہ لے کر ہمیں رقم دے دو، تاکہ قرض دار کو رقم ادا کی جائے اس لیے کہ وہ سود کا بیوپار کرنے والا ہزاروں سے لاکھوں بنا لیتا ہے اس کی وجہ غریب و بے سہارا شخص کے پاس قرض اتارنے کے لیے رقم نہیں ہوتی اور پھر 10 ہزار کی رقم سود کی شکل میں لاکھوں روپوں میں بدل جاتی ہے۔ انصاف کی ترازو کو سیدھا رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ قاتل و سفاک تیزاب یا چھری کا وار کرتے ہوئے بار بار سوچیں۔