ہماری سیاست کی ایک جھلک
موضوعات بڑھتے اور پھیلتے جا رہے ہیں۔ عام انسانوں اور حکمرانوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں
موضوعات بڑھتے اور پھیلتے جا رہے ہیں۔ عام انسانوں اور حکمرانوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور ان کے مسائل بالعموم لاینحل ہوتے ہیں کیونکہ انھوں نے عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہوتا ہے اور عوام ضروری نہیں کہ ان کے قابو میں رہیں وہ کبھی آزاد بھی ہو جاتے ہیں۔
جیسے کسی الیکشن کے موقع پر جب وہ کسی الگ جگہ پر سب کی نظروں سے دور کسی پرچی پر مہر لگاتے ہیں اس وقت یہ عوام مکمل آزاد ہوتے ہیں اور اپنی آزادی کا اظہار ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں جسے چاہیں ووٹ دیں اور جسے چاہیں مسترد کر دیں۔ الیکشن میں ہار جیت عوام کی اسی پسند و نا پسند کا نتیجہ ہوتی ہے اور بڑے بڑے لیڈر عوام کی اس پسند و نا پسند سے ڈرتے ہیں اور صحیح ڈرتے ہیں کہ ان کا اقتدار عوام کی اسی پسند و نا پسند پر ہوتا ہے۔ عقلمند لیڈر عوام کو کبھی اس قدر ناراض نہیں کرتے کہ وہ پرچی پر مہر لگاتے ہوئے ان کی کسی زیادتی کو یاد رکھیں بلکہ عوام کو خوش کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں اور اپنے حق میں ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
یہ الیکشن جتنی مدت کے لیے بھی ہوتا ہے عوام کے ذریعہ کسی لیڈر کو اتنے عرصہ کی بادشاہت مل جاتی ہے اور وہ اگر چاہے تو اس عرصے میں بادشاہ بن جائے یا کوئی منتخب لیڈر جو عوام کی مرضی اور پسند و نا پسند کو ہر وقت سامنے رکھے اور اطمینان کے ساتھ حکمرانی کا وقت گزار لے۔ عزت کے ساتھ آئے اور عزت کے ساتھ جائے لیکن ایسا ذرا کم ہی ہوتا ہے اگر حکمران دھاندلی سے آتے ہیں اور دھاندلی سے جاتے ہیں۔ اپنے پیچھے اچھا نام چھوڑ کر نہیں جاتے۔
اپنے وطن عزیز پاکستان کو دیکھ لیجیے۔ اس کے حکمرانوں کی فہرست پر ایک نظر ڈالیے آپ پریشان ہو جائیں گے۔ پہلے تو چار عدد تباہ کن فوجی آمروں کو یاد کیجیے جو بزور بندوق آپ پر مسلط ہو گئے اور جب تک یہ بندوق چلنے کے قابل رہی وہ اسے ہر روز تیل لگا کر چمکاتے رہے اور کسی نہ کسی بہانے اس کی چمک دمک سے عوام کی آنکھوں کو حیرت زدہ کرتے رہتے ہیں۔
میں نے ایک فوجی آمر کو اچھے موڈ میں دیکھ کر پوچھا کہ آپ اس طرح کی یک طرفہ اور اکیلی حکمرانی سے گھبرا نہیں جاتے، انھوں نے مسکرا کر یاد دلایا کہ وہ اکیلے کہاں ہیں ملک کے کئی اہم سیاستدان ان کے گردوپیش میں جمع رہتے ہیں وہ کسی کو کچھ دے دیتے ہیں اور کسی کو انتظار میں رکھتے ہیں اور یہ انتظار طویل نہیں ہوتا کوئی اکتاتا نہیں ہے۔ اقتدار کے مے خانوں میں کس کو ہوش رہتا ہے کہ دوسرا جام کب آئے گا۔ ایک بار ایک جنرل صاحب سے یہی عرض کیا تو انھوں نے کہا کہ کسی لیڈر کے پاس اتنے سیاسی حمایتی نہیں ملیں گے جتنے میرے پاس ہیں اور قریباً سب کے سب مفت میں میرا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ بہت جلد ان پر کوئی دروازہ کھل جائے گا۔
سیاستدانوں کو اصل مشکل اب ہے جب ملک میں جمہوری راج ہے اور حکمران جمہوری انداز میں آتے جاتے ہیں، دھاندلی کم اور میرٹ زیادہ ہے مگر پھر بھی اس میرٹ کے چور دروازے بھی ہیں جو کھلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں' ان دنوں ہمارے حکمران ہمارے پرانے حکمرانوں کے دیس میں آرام کر رہے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ سیاسی رزق تلاش کر رہے ہیں۔ لندن ہماری اس غلام سیاست کا مرکز ہے جو برطانوی دور کی ڈیڑھ سو سالہ غلام سیاست کی جانشین ہے۔
ہمارے سیاستدان پونڈوں سے جیبیں بھر کر لندن میں گھوم پھر رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے وزیراعظم اپنی بیگم صاحبہ کے ہمراہ لندن کے مشہور ہائیڈ پارک میں سیر کر رہے ہیں اور اس پارک میں ان پر نہ جانے کتنے سیاسی مضامین اتر رہے ہوں گے۔ وہ تازہ دم ہو رہے ہیں خدا نے صحت دی ہے تو ان کے لیے حالات بھی صحت مند ہیں اور وہ ملک لوٹتے ہی قوم کی خدمت میں مصروف ہو جائیں گے۔
ہماری قومی اور پارلیمانی سیاست میں ان دنوں ایک غیرمعمولی تبدیلی باقی ہے اور وہ ہے بدتمیزی۔ اسمبلی میں معزز اراکین خواتین ساتھیوں پر فقرہ بازی کرتے ہیں اور ان کو ناپسندیدہ نام دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ بیٹھے بٹھائے ہمارے پارلیمنٹیرین کو کیا ہو گیا ہے۔ ویسے میں نے ان دنوں دیکھا ہے کہ بدتمیزی پھیل رہی ہے اور اسے بھی کسی ترقی کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔
شیریں مزاری کا مسئلہ ابھی باقی ہے کہ ایک اور خاتون ماروی سرمد کی بے عزتی کا واقعہ بھی سامنے آ گیا ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوتا تھا۔ شیریں مزاری کو تو میں زیادہ نہیں جانتا لیکن ان کے والد ماجد مرحوم عاشق مزاری سے میرا بہت ہی گہرا تعلق رہا ہے، میں نے ان کے تعاون سے ایک ہفت روزہ بھی جاری کیا تھا لیکن اب ان کی صاحبزادی کے بارے میں ایک نازیبا بات کہی گئی ہے تو مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے۔ شیریں خود اپنا دفاع کر رہی ہیں اور ان کے خلاف بات کرنے والے کا کوئی بھی حامی نہیں ہے۔ تاہم میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب معاملہ اب ختم ہونے کو ہے تو اس کو پھر زندہ کیوں کروں۔ اگر میری کوئی مانے تو شریف خواتین کو ان حالات سے دور ہی رہنا چاہیے۔