سب خوفزدہ ہیں
خوف ایک قدرتی چیز ہے اور شاید اس کائنات میں سب سے زیادہ خوفزدہ مخلوق انسان ہے۔
DHAKA:
خوف ایک قدرتی چیز ہے اور شاید اس کائنات میں سب سے زیادہ خوفزدہ مخلوق انسان ہے۔ شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ انسان تو دنیا کا حکمران ہے، بقول شخصے اور عام نظریہ ہر چیز کا مالک و مختار ہے۔ یہ بات کتنی بھی درست ہو مگر ایک چیز جو اس کو رد کرتی ہے وہ ہے چھن جانے کا خوف یعنی جو میرے پاس ہے وہ میرے پاس رہے، کوئی مجھ سے لے نہ لے اور دوسری چیز ہے جمع کرنے کا شوق۔ اب اس کی مثال میں کیا دوں، کچھ عرصہ پہلے پانامہ اور بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ اس کی بہترین مثال ہیں۔ پانامہ اور خزانہ کا تعلق بھی آپ کو مختلف چینلز کے اینکر خواتین و حضرات اچھی طرح سمجھا چکے ہوں گے۔ خزانہ اور لوٹ مار بھی آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ سارے سیاسی اسباق عوام کو بھی یاد ہوگئے ہوں گے۔
دنیا کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ کوہ نور ہیرے سے لے کر سلطنتوں تک کی چھینا جھپٹی کیا ہے، جمع کرنے کا شوق اور جمع کرکے سب کے سب راہی ملک عدم ہوئے، کسی کے کچھ نہ کام آیا۔ اہرام مصر میں آرام کرتے ہوئے شہنشاہ اور مقبروں، مزاروں میں سونے والے سب روز جزا کے منتظر ہیں۔ نہ تاج محل سے کسی کوکچھ ملنا ہے، نہ نور جہاں کا مزارکسی گنتی میں ہوگا۔
یہ ایک علیحدہ نقطہ نظر سمجھا جائے گا، لہٰذا ہم واپس مضمون کی طرف آتے ہیں، کیونکہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دنیا کی بے ثباتی پر اپنا پختہ یقین رکھتے اور خود کے ایک دن مٹ جانے کے منتظر ہیں کہ ہمارا قلم ان حقائق کی طرف مڑ جاتا ہے جو ہر چیز کا اصل ہیں بحیثیت انسان۔
تو انسان نے انسان کو خوب لوٹا اور انسانوں نے انسانوں کو خوب غلام بنایا، خریدا بیچا، جو چاہا کیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ انسان ہی دراصل دنیا کی سب سے قیمتی شے ہے جس کے لیے یہ دنیا تعمیر کی گئی ہے اور اس پر انسان کا نہیں انسانوں کا حق ہے۔ مگر انسان نے انسانوں کا یہ حق کبھی تسلیم نہیں کیا۔ مذہب کو ایک طرف رکھ کر سوچیے، دنیا کے کسی انسان کو بھی اس سے زیادہ جگہ ملی جو اس کے جسم کے سائز کے مطابق ہو، اہرام میں بھی دراصل جگہ تو اتنی ہی ہے جتنی میں مصرکی تقدیر کے سابق مالک سو رہے ہیں، ان کو اتنا تو نہیں پھیلایا جاسکتا کہ سارے مقبرے میں ہوں۔
اب آجائیں ہم حال کی طرف۔ اٹلی کے ایک ماہر اقتصادیات کو اس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب وہ ہوائی جہاز میں ریاضی کا ایک سوال حل کر رہے تھے تو ان کے ساتھ بیٹھی خاتون مسافر نے ان کی حرکات کو مشکوک سمجھتے ہوئے عملے کو ایک چٹ کے ذریعے آگاہ کردیا۔ ان صاحب کو جہاز سے اتارکر پوچھ گچھ کی گئی تو انھوں نے حکام کو دکھایا کہ وہ کیا کر رہے تھے جس پر انھیں دوبارہ جہاز میں سوار ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن اس سارے چکر میں جہاز دو گھنٹے لیٹ ہوگیا۔ ان صاحب نے فیس بک پر لکھا کہ یہ ناقابل یقین تجربہ تھا اور انھیں اس پر ہنسی آئی۔
اب ان سے کوئی یہ پوچھے کہ جناب آپ اس قوم سے ہی تو تعلق رکھتے ہیں جو ایشیا میں تجربات کر رہی ہے اور نہایت خوفزدہ ہے خود اپنے ان تجربات سے اور اکثر خوف میں ان سے گولی چل جاتی ہے جسے اتفاقیہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ مرنے والے کون، یہ ایک لاحاصل بحث ہے، بس یوں سمجھیے کہ ایک انسان۔
یہ بات دراصل ہمیں وہاں سے سمجھنی چاہیے جہاں انسانوں نے سب سے بڑی اسمبلی بنائی ہے اور جہاں چند ملکوں نے ویٹو پاور حاصل کرلیا ہے اور اس کا جا بے جا استعمال ہوتا رہا ہے، ہوتا رہے گا۔ یہ خوفزدہ قوموں کے پاس ایک حفاظتی ہتھیار ہے جس کا نام ویٹو پاور جسے یہ خود کے لیے اور دوسرے اپنے دوستوں کے لیے جو دراصل ظالم بھی ہیں استعمال کرتے ہیں، تاکہ خون ناحق کا پرچار نہ ہوسکے اور دنیا اس کی عادی ہوجائے اور کوئی آواز بلند نہ ہو۔
کچھ اور ظالموں کو بھی اس گروپ میں شامل ہونے کا شوق ہوگیا ہے اور اس کا مقصد صرف علاقے ہتھیانے اور لوگوں کو حقوق سے محروم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ انسانی حقوق کا پرچار کرنے والی یہ اسمبلی دراصل انسانی حقوق کو مل جل کر سلب کرنے کا کام کرتی ہے۔
خوف کا یہ عالم کس نے پیدا کیا ہے کہ انسان، انسان سے خوفزدہ ہے۔ یہ دراصل پروپیگنڈے کا ہتھیار ہے، جسے ہٹلر نے بہت کامیابی سے استعمال کرکے دنیا کو ایک جھوٹ کو سچ کرنے کی راہ سجھائی اور ساری دنیا اس پر کاربند ہے۔ ساری دنیا کا میڈیا اس کا Source ہے اور اس میں کچھ لوگ یقیناً ان مقاصد کے تحت کام کرتے ہوں گے جو انسانی فلاح و بہبود کے لیے ہوتا ہو مگر اس کی بہت بڑی تعداد اس پروپیگنڈے میں ہر حکومت کی معاون ہے۔
آج ہمارے معاشرے کا کیا حال ہے؟ کیا اس معاشرے میں جرم نہیں ہوتے تھے، ہمیشہ ہوتے تھے مگر ان کی نمائش نہیں ہوتی تھی اور معاشرہ پرامن تھا، لوگ راز کے افشا ہونے سے ڈرتے تھے اور جرم اگر کرتے بھی تھے تو احتیاط کرتے تھے۔
اب جرم کی تعریف بدل گئی ہے۔ میڈیا نے اسے بہادری قرار دے دیا ہے۔ ساری دنیا میں یہی ہو رہا ہے، لڑکا بہن کو قتل کرکے موبائل پر گیم کھیل رہا ہے اور بہن تڑپ رہی ہے۔ گویا میڈیا نے اسے ہیرو بنادیا ہے، یہ سب دکھانا کیا ضروری تھا؟ کیا محض خبر سے کام نہیں چلایا جاسکتا تھا۔ اس کا باقاعدہ انٹرویو نشرکر کے اسے جرائم کی دنیا میں پاپولر کردیا ہے اور اسے استعمال کرنے والے اس کی جیل آمد کے منتظر رہے ہوں گے۔ ایک قتل کرو یا سو قتل، بس ایک بار ہی کی بات ہے، اس کے بعد تو یہ معمول ہے۔
میں کسی خاص قوم یا لوگوں کی بات نہیں کر رہا۔ یہ جرائم دنیا بھر میں ہوتے ہیں، وہاں کا میڈیا مجرم کو ہیرو نہیں بناتا اور اس کے جرم کو خبر کی حد تک رکھتا اور اس کے اخلاقی پہلو سے اس کی مذمت کرتا ہے۔ وہاں جرم کو برا سمجھا جاتا ہے اور مجرم کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بھی ایک خوف ہے، مگر اس کا انداز مثبت ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ معاشرے میں مجرموں کی تعداد میں اضافہ ہو۔
یہاں خوف کا کیا عالم ہے، میرے بیٹے کو اغوا کرلیا گیا تھا اور دو روز بعد وہ ملا تھا۔ اس نے بتایا کہ نواب شاہ کے جس ریلوے اسٹیشن کے بچے نے اس کی مدد کی اس نے اس کو صبح تک پولیس سے بچنے کی ہدایت کی، صبح اس کی ڈیوٹی ختم ہوئی تو وہ میرے بیٹے کو حیدرآباد لے کر آیا۔ یہ بات کم ازکم 30 سال پہلے کی ہے، جب پولیس بھی ہتھکنڈوں میں اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی۔ کیونکہ اس بچے نے کہا تمہیں یہاں صرف پولیس والے سے خطرہ ہے کیونکہ وہ تمہیں کسی کو فروخت کردیں گے اور تم پھر کبھی گھر نہیں پہنچو گے۔
یہ سارے خوف الگ الگ نوعیت کے ہیں، مجھے بیٹے کے چھن جانے کا خوف تھا، بیٹے کو گھر چھن جانے کا خوف تھا اور مدد کرنے والے کو میرے بیٹے کے غلام بن جانے کا خوف تھا۔ ہم دراصل خوف میں ہی زندگی بسر کررہے ہیں اور اس واقعے سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اچھے لوگوں کے باوجود ہر محکمے میں برے لوگوں کی تعداد بہت ہے اور وہ اس معاشرے کو اپنے خوف کی وجہ سے تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ فٹ بال میچ کے دوران ایک متبادل کھلاڑی کو بھیجا گیا، چند سیکنڈ میں وہ زمین پر گرا دم توڑ گیا، ابھی تو اس کے پیروں نے فٹ بال کو چھوا بھی نہیں تھا۔
ایک مقرر مائیکرو فون پر بات کرتے کرتے مٹی کے ڈھیر کی طرح ڈھے گیا۔ لوگ دوڑے تو قصہ ختم ہوچکا تھا۔ 9/11 ہو، افغانستان ہو، یمن ہو، شام ہو، مقبوضہ کشمیر ہو یا فلسطین۔ یہ سب ایک فٹ بال میچ سے زیادہ نہیں ہے اور چاہے ویٹو پاور لے لو، چاہے فضائی حملے کرو، چاہے آپ کا تعلق کہیں سے ہو، کوئی تقدس، کوئی وجہ اس کا راستہ نہیں روک سکتا جس کا نام موت ہے۔ دنیا کی کوئی کتاب موت کے ذکر سے خالی نہیں اور یہ موت اقوام کی موت بھی ہوتی ہے، اس کی بہت قسمیں ہوتی ہیں یہ ایک تفصیلی موضوع ہے، مگر انسان خوب سمجھتا ہے۔ خوب جانتا ہے۔ مانتا نہیں کہ ہر شخص کو موت کا ذائقہ چکھنا پڑے گا، اگر مانتا تو اس اسباب کے پیچھے نہ دوڑتا، وہ اسباب کرتا۔