مزدوروں کے ساتھ ظلم کب تک
پورٹ ٹاؤن اسکیم میں ہر ملازم کے لیے دو سو گز پلاٹ دینے کا وعدہ بھی کیا گیا جو آج تک ایفا نہ ہوسکا
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات، یہ بات ہر کوئی جانتا ہے اور اس بات سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ مزدوروں کے ساتھ ناانصافی و ظلم ازل سے ہوتا رہا ہے اور اس بات کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ کسی ملک کی اقتصادی خوشحالی کی منزل تک پہنچنے کے لیے محنت کش مردوں اور خواتین کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مزدور اور ملازمین معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
لیڈران قوم کی باتیں بھی نرالی ہوتی ہیں، جب حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ نجکاری کے نام پر ملازمین کو بے روزگار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، جب حکومت ملتی ہے تو تب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ محنت کشوں کے حالات بہتر بنانا، انھیں طبی سہولتیں فراہم کرنا اور ان کے جائز حقوق دلوانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ درحقیقت حکمرانوں اور حکمران خاندانوں کی یہ ملی جلی باتیں صرف باتیں ہوتی ہیں، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اب تک یہی بات ثابت ہوچکی ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ جس معاشرے میں محنت کشوں کا استحصال ہو وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا، آجر اور اجیر کے تعلقات مستحکم اور متوازن رکھ کر ہی ملک میں معاشی ترقی کا حصول ممکن ہے۔
آج ہم جن ممالک کی شاندار معاشی ترقی کی باتیں کرتے ہیں، ان کی مثالیں دیتے ہیں، ذرا سوچیں! وہ کون سے عوامل ہیں جن کے بل بوتے پر آج ان کی معیشت مضبوط اور مستحکم ہے؟ سادہ سی بات یہ ہے کہ ان کے پس پردہ ان ہی محنت کشوں کی کاوشیں نظر آتی ہیں جہاں ان کا استحصال نہیں کیا جاتا، ان کے جائز حقوق کا احترام کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں مزدوروں اور ملازمین کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پھر بھی ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم ملک کو ایشین ٹائیگر بنائیں گے۔ اﷲ کرے ایسا ہی ہو، لیکن فی الوقت مندرجہ ذیل منظرنامہ ملاحظہ کیجیے۔
ایکسپریس کو دستیاب دستاویزات کے مطابق وزیراعظم ہاؤس سے 9 مارچ 2016 کو جاری کردہ حکم Ul.oNo.1302/DS(EA-II/2015) کے ذریعے وزارت جہاز رانی و بندرگاہ کو ہدایت کی گئی کہ اس عرصے میں کی جانے والی تمام خلاف ضابطہ تقرریوں کو منسوخ کیا جائے جس پر وزارت جہاز رانی و بندرگاہ نے 22 مارچ 2016 کو کراچی پورٹ ٹرسٹ کو جاری کردہ مراسلہ نمبر 1(2)2010-P&S-I کے ذریعے خلاف ضابطہ تقرریوں کی جانچ کے لیے وزیراعظم کی ہدایت اور قائم کی جانے والی کمیٹی کی سفارشات پر فی الفور عمل درآمد کے احکام جاری کردیے۔
خلاف ضابطہ تقرریوں کی تحقیقات کے لیے بورڈ آف ٹرسٹیز کے اراکین اور اعلیٰ انتظامی افسران پر مشتمل کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا کہ کراچی پورٹ میں جون 2012 سے نومبر 2013 کے دوران قواعد و ضوابط کے برخلاف سیاسی بنیادوں اور قرابت داری کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر بھرتیاں اور ریگولرائزیشن کی گئیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خلاف ضابطہ بھرتیوں کی نشاندہی کرنے والے بورڈ آف ٹرسٹیز کے اراکین اور اعلیٰ انتظامی افسران سابقہ دور میں بھی کے پی ٹی سے متعلق اہم فیصلوں اور بھرتیوں کے معاملات سے پوری طرح واقف تھے، تاہم اب 3 سے 4 سال قبل فراہم کی جانے والی ملازمتوں اور تقرریوں کو خلاف ضابطہ قرار دیا جارہا ہے۔
ادھر شوکاز وصول کرنے والے ملازمین کا کہنا ہے کہ شوکاز میں کوئی بے قاعدگی، طریقہ کار کی خلاف ورزی یا نااہلیت کی مخصوص وجہ بیان نہیں کی گئی اور تمام ملازمین کو تحقیقاتی کمیٹی کی مرتب کردہ رپورٹ میں عائد تمام الزامات کا 7 روز میں دفاع کرنے کے ہدا یت کی گئی ہے۔ یہ اقدام جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف ہے، کراچی پورٹ ٹرسٹ میں 1200 ملازمین کو نکالنے کی تیاری اور من پسند افراد کو بھرتی کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ نے ممکنہ برطرفی کے خلاف حکم امتناع میں توسیع کردی ہے۔
قبل ازیں کراچی پورٹ ٹرسٹ میں مزدوروں کے ساتھ ظلم و نا انصافی کی ایک بدترین مثال اس وقت سامنے آئی جب یکم اپریل 2004 میں بہت سے ملازمین گولڈن ہینڈ شیک کے نام پر ملازمت سے فارغ کیے گئے اور آج تک ملازمین کے واجبات ادا نہیں کیے گئے۔ ذرایع کے مطابق اس وقت کی انتظامیہ اور C.B.A نے ملازمین کو فارغ کرنے کے لیے تقریباً چار ارب روپے کا قرضہ IMF سے منظور کرایا تھا اور ورکروں کو زبانی طور پر یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ فی ورکر کو 35 تا 40 لاکھ روپے ادا کیے جائیں گے۔
علاوہ ازیں پورٹ ٹاؤن اسکیم میں ہر ملازم کے لیے دو سو گز پلاٹ دینے کا وعدہ بھی کیا گیا جو آج تک ایفا نہ ہوسکا۔ متاثرہ ملازمین کے حق میں آرگنائزیشن آف کے پی ٹی ورکرز یونین نے عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور 2009 میں سپریم کورٹ کے اعلیٰ عدالت میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت بنیادی حقوق اور مالی مراعات ادا کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ ہائی کورٹ آف سندھ میں Rev-Petion کیس نمبر 1926/10 محترم جسٹس سید سجاد علی شاہ صاحب جو موجودہ چیف جسٹس آف سندھ ہائی کورٹ کا درجہ رکھتے ہیں، نے مزدوروں کے حق میں فیصلہ صادر فرمایا۔ متاثرہ ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ گیارہ سال سے انتہائی ذہنی پریشانی میں مبتلا ہیں، بعض ملازمین ہارٹ اٹیک، شوگر اور ذہنی مریض ہوچکے ہیں، ان کا مسئلہ حل کیا جائے۔
1999 سے 2005 تک کے پی ٹی پنشن میں اضافہ نہیں دے رہی تھی، اس سلسلے میں 2007 میں کے پی ٹی ریٹائرڈ ایمپلائز ویلفیئر آرگنائزیشن نے عدالت سے رجوع کیا، جس کا کیس نمبر 2410/2007 تھا، عدالت نے مزدوروں کے حق میں فیصلہ دیا، اس طرح کے پی ٹی کے تمام ریٹائرڈ ملازمین کو دو ارب روپے کی ادائیگی ہوئی تھی۔ حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ نے کے پی ٹی میں سن کوٹے سے متعلق 273 ریٹائرڈ ملازمین کی درخواست پر متعلقہ حکام کو تین ماہ میں ملازمتیں دینے کا حکم دیدیا ہے۔
واضح رہے کہ جمعرات 26 مئی 2016 کو جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کے پی ٹی میں سن کوٹے سے متعلق عبدالحمید و دیگر کی درخواست کی سماعت کی۔ درخواست گزاروں نے اپنے وکیل کے توسط سے دائر کردہ آئینی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ کے پی ٹی میں سن کوٹے کے تحت ہر ریٹائرڈ ملازم کے ایک بچے کو گریڈ ایک یا دو میں ملازمتیں دی جانا تھیں اور 2012 میں وزیراعظم نے بھی حکم دیا جب کہ اس ضمن میں 2014 میں سمری بھی منظور ہوئی لیکن اب تک ملازمتیں نہیں دی گئی ہیں، لہٰذا استدعا ہے کہ سن کوٹے پر ملازمت دی جائے۔
اسی روز متعلقہ عدالت نے کے پی ٹی میں 1200 سے زائد غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر فاضل بینچ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جن لوگوں نے غیر قانونی بھرتیاں کیں انھیں کوئی پوچھتا نہیں غریب ملازمین دھکے کھا رہے ہیں۔ حکومت سندھ، محکمہ تعلیم، محکمہ پولیس، صحت ہو کہ کے ایم سی یا کے پی ٹی، سب کا یہی حال ہے۔ جو لوگ غیر قانونی بھرتیاں کرتے ہیں، وہ عیاشی کررہے ہیں اور ملازمین کو نکالا جارہا ہے، جن بڑے لوگوں نے بھرتیاں کی ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ کیا وہ جیل میں ہیں؟ عدالت کو بتایا جائے کہ 4 سال بعد غیر قانونی بھرتیوں کا خیال کے پی ٹی کو اب کیوں آیا؟