گفتگو ایک فن ہے

معیار زندگی ان لفظوں کے ارد گرد گھومتا ہے، جنھیں ہم اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔


Shabnam Gul June 15, 2016
[email protected]

معیار زندگی ان لفظوں کے ارد گرد گھومتا ہے، جنھیں ہم اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ گفتگو ایک فن ہے، جو کبھی زندگی کو بلند مقام پر لے جاتا ہے اور بعض اوقات انسان کے اپنے الفاظ اسے پستیوں کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔

گفتگو معلومات فراہم کرنے کا وسیلہ ہے۔ خیالات کا اظہار، باہم دلچسپیوں کا تبادلہ اور احساس باندھنے کا سلیقہ زندگی کو مثبت رخ عطا کرتا ہے جب کہ غیر معیاری گفتگو انسان کو پریشان کن صورتحال سے دوچار کر دیتی ہے۔ اس وقت ہمارا معاشرہ جس انتشار سے گزر رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ منفی سوچ کا اثر ہے جو لفظوں کے روپ میں کئی تنازعات کی وجہ بن جاتا ہے۔ ارسطو نے معیاری گفتگو کو تین مختلف زاویوں میں تقسیم کیا ہے۔ Ethos اس یقین اور سچائی کا نام ہے، جو کہنے اور سننے والے کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کر دیتا ہے۔ کہیں بھی بے یقینی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لہٰذا گفتگو بامعنی، پراثر اور واضح ہوتی ہے۔ ایسی گفتگو موضوع پر دسترس رکھتی ہے۔ بولنے والے کو مدمقابل کی ذہنی حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

ارسطو کے مطابق گفتگو کا دوسرا موثر پہلو Pathos ہے۔ یہ سننے اور کہنے والے کے درمیان جذباتی معاہدہ کہلاتا ہے۔ تیسرا رخ Logos ہے جس کے مطابق گفتگو حقیقت پسندانہ اور منطقی ہونی چاہیے۔ یہ گفتگو تجزیاتی سوچ، حکمت عملی اور مشاہدے پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دور اندیش لوگ سوچ سمجھ کر بولتے ہیں ۔ لفظوں کا غلط چناؤ غیر یقینی صورتحال پیدا کرسکتا ہے۔

ترقی یافتہ ملک ہوں یا ترقی پذیر معاشرے، جہاں بھی خوشحالی اور ترتیب نظرآتی ہے اس کی وجہ گفتگو کا بہتر معیار ہے، کیونکہ اخلاقی اقدار کی برتری اس وقت ممکن ہوسکتی ہے، جب ادا کیے گئے الفاظ کسی کی دل آزاری نہ کریں۔ کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ کریں۔ خود ستائش (ذات کی تعریف) پر مبنی نہ ہوں۔

لفظوں کی تاثیر اور حرمت کا احساس جن معاشروں میں نہیں پایا جاتا وہاں اخلاقی و معاشی بدحالی بسیرا کر لیتی ہے۔ معاشی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک افراد سچائی، یقین اور معیار سے متنفر دکھائی دیں۔ جاپان، کوریا یا یورپی ممالک کی صنعتی ترقی کی وجہ لفظوں کی ساکھ اور کام کا بہتر معیار ہے۔ یہ ساکھ اور بہتر معیار ہم کھو چکے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جو امپورٹڈ چیزیں نہیں خریدتے۔ ان کا خیال ہے کہ ہم غاصبوں کو معاشی طور پر مستحکم کر رہے ہیں۔

یا وہ یہ سوچتے ہیں کہ انھیں ملکی صنعت کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے ملک میں بنی ہوئی اشیا کو ترجیح دینی ہے، لیکن گزشتہ کئی برسوں سے ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، ملاوٹ، غیر معیاری اور غیر صحت مند اشیاء کے فروغ نے شہریوں کے حب الوطنی کے جذبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لہٰذا وہ غیر ملکی اشیا پر زیادہ بھروسا کرتے ہیں۔ قول وعمل کا یہ تضاد بھی منافقانہ سوچ اور گفتگو کا ردعمل ہے۔ ہم اگر سچائی کو اپنا شعار بنا لیں، ذاتی تجزیے اور خود احتسابی کی عادت اپنا لیں، اخلاقی قدروں کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں تو معاشرتی صفوں میں برپا یہ انتشار تھم سکتا ہے۔

نادیہ مرزا شو میں ماروی سرمد اور حافظ حمد اللہ کے درمیان ہونے والے تنازعے میں بھی غیر معیاری گفتگو کا عمل دخل تھا۔ کمپیئر میں پروگرام سنبھالنے کا سلیقہ نہ تھا۔ بات سے بات بڑھتی چلی گئی۔ آپ سی این این یا بی بی سی کے ٹاک شوز دیکھ لیجیے۔ کہیں آپ کو ذاتیات یا نظریے کی پرچار دکھائی نہیں دے گی۔ ٹی وی کے ٹاک شوز نے ہمارے ہاں غیر معیاری گفتگو کو فروغ دیا ہے۔ مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کو ایک جگہ بٹھا کر کوئی ایسا جملہ پھینک دیا جاتا ہے جو جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے۔ جب آگ بھڑکتی ہے تو اخلاقی قدریں بھسم ہو جاتی ہیں۔

ایک کمپیئر کو کس طرح گفتگو کرنی چاہیے یہ بہت ضروری ہے کہ اسے گفتگو کا فن آتا ہو۔ اس کی گفتگو میں دلچسپی کا عنصر شامل ہو۔ دوستانہ ماحول کی فضا کو قائم رکھنا چاہیے۔ اس کی گفتگو خوشگوار اور معلوماتی ہو۔

میزبان کو ذاتی محرومیاں یا جانبدار سوچ نمایاں کرنے سے گریزکرنا چاہیے۔ گفتگو میں لچک کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اسے بولنے سے پہلے اپنی سوچ اورذہن پر مکمل عبور حاصل ہو اور صورتحال کو ضابطے میں رکھنے کا سلیقہ بھی آتا ہو، لیکن دلچسپ بات یہ ہے جب مختلف نظریوں کے حامل لوگ ایک ساتھ بیٹھتے ہیں، وہاں تحکمانہ انداز نہیں ہونا چاہیے۔ جو بھی بات کی جاتی ہے وہ تحکمانہ لہجے کے ساتھ کی جاتی ہے۔ چاہے میزبان ہو یا شرکا گفتگو ہوں۔ احساس برتری زیادہ پائی جاتی ہے۔ الزام تراشیاں، جارحانہ رویے، بے جا تنقید، غیر منطقی جملے، ذاتیات پر حملے اور ذاتی تجزیے کی صلاحیت کا فقدان اس بحث ومباحثے کو بے اثر کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم حل کی طرف نہیں جا سکے ہیں۔ ہر بحث و مباحثہ ایک نیا منفی رخ سامنے لے کر آتا ہے۔

کوئی بھی شعبہ ہو معیاری تنقید کا ہر جگہ فقدان پایا جاتا ہے۔ چاہے ادب ہو، صحافت ہو یا ابلاغ عامہ۔ ہمارے جو بحث و مباحثے کے پروگرام ہیں یہ حل کی طرف جانے کے بجائے کدورتوں کو مزید ہوا دیتے ہیں۔

ہمارے ملک میں کہیں بھی کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے، جوگفتگو کا سلیقہ سکھا سکے۔ ایسے ادارے تشکیل دیے جانے چاہئیں جہاں نفسیات اور معیاری گفتگو کے بارے میں باہم معلومات فراہم کرنی چاہئیں۔ چاہے ابلاغ عامہ ہو، تعلیمی ادارے ہوں یا کسی بھی شعبے کے ماہرین ہوں۔

ہمارے ملک میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم علم کو ڈگری کے حصول اور بہتر مستقبل کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ علم آگہی اور مثبت رویوں کا سرچشمہ نہیں ہے۔ ماہرین کو نہ صرف اپنے شعبے پر عبور حاصل ہونا چاہیے بلکہ انھیں نظریاتی جنگ عقلی، منطقی اور حقیقت پسندانہ انداز سے لڑنی چاہیے۔ کیونکہ مختلف شعبوں کے یہ ماہرین رول ماڈل ہیں۔ نئی نسل نے ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے۔ ان کے لہجے، گفتگو کا طریقہ اور انداز فکر اپنائیں گے۔ اچھی بری جو مثال قائم کریں گے اسے اپنالیا جائے گا۔ کیونکہ ہمارے ہاں شخصیت پرستی کا رجحان زیادہ ہے۔

گفتگو کا اصول یہ بھی ہے کہ آپ کو مدمقابل کے رتبے، عہدے، سماجی حیثیت کو بھی ذہن میں رکھنا پڑتا ہے۔ مثال اگر کوئی خاتون مدمقابل ہے، تو اس کے لیے غیر مہذب الفاظ کا استعمال کسی طور نہیں ہونا چاہیے۔ لڑکیوں کو آگ میں جلائے جانے کے واقعات بھی ایسے مزید واقعات کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کو دکھانے سے گریزکرنا چاہیے۔ ہر برا رویہ دوسرے برے رویے کا محرک بنتا ہے۔ کیونکہ اچھائی کی نسبت برائی تیزی سے جڑ پکڑتی ہے، اگر ایک ماں اپنی بیٹی کو جلاتی ہے تو اس رویے کے پیچھے معاشرے کا دہرا معیار چھپا ہوا ہے۔ اس ماں کی ذاتی محرومیاں اور عدم تحفظ کا احساس بھی ہے جو بظاہر دکھائی نہیں دیتے، مگر یہ شخصی محرومیاں حادثات کا روپ دھار لیتی ہیں۔

میں اکثر ایک بات سوچتی ہوں جب بھی ایسے منفی رویے اور نازیبا واقعات سامنے آتے ہیں کہ پرکھ کے پیمانے میں ظرف کھوٹہ سکہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں