درخت ہماری زندگی ہیں

اس کمپنی کا نام ہے "Save a Tree" (ایک درخت بچاؤ) بظاہر نام سے یہ درخت بچاؤ مہم کے سلسلے کی کوئی کمپنی لگتی ہے


Shehla Aijaz June 17, 2016
[email protected]

PESHAWAR: اس کمپنی کا نام ہے "Save a Tree" (ایک درخت بچاؤ) بظاہر نام سے یہ درخت بچاؤ مہم کے سلسلے کی کوئی کمپنی لگتی ہے، لیکن درحقیقت اس کمپنی کا تعلق دوسری عام کمپنیوں کی طرح خدمات فراہم کرنے سے ہے، جس کی شاخیں شمالی جرمنی اور مڈ اٹلانٹا تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ درختوں اور جڑی بوٹیوں کو محفوظ کرنے کے سلسلے میں لوگوں کے گھروں کے لانز اور دوسرے مقامات پر کام کرتے ہیں، اس کے لیے ماہرانہ رائے دیتے ہیں، اور اپنے کام کا معاوضہ بھی لیتے ہیں۔ لوگ ان کی خدمات سے مستفید ہوتے ہیں، فائدہ اٹھاتے ہیں۔ درخت ہماری زندگیوں کے لیے کس قدر اہم ہیں اس کا اندازہ ہمیں ہے، لیکن ہم اپنے مقاصد کے لیے اس کی اہمیت کو نظرانداز کر رہے ہیں، جب کہ دوسرے ممالک میں اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے باقاعدہ کاروبار میں شامل کرلیا گیا ہے۔

چند دن قبل کہیں جانا ہوا، اس جگہ اچھے بھلے ہرے بھرے لہلہاتے درخت تھے، جس سے ماحول میں خوبصورتی اور درختوں سے جھومتی کھلکھلاتی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے خرمستی کرتے تھے لیکن اب یہ جگہ اجنبی ویران سی محسوس ہوئی، ایسے جیسے آسیب زدہ ہو، خشک و بنجر ہو، چاروں جانب چمکتی دھوپ پھیلی تھی، اوپر نیلا آسمان، گرمی کا احساس شدت سے ابھرا۔ کیا کم ہوا، کچھ کھو گیا، تو پتا چلا کہ کارنر کے اس بڑے سے گھر میں چند برس قبل ایک اسکول قائم ہوا تھا۔ اسکول کے تعمیراتی مراحل میں سب سے بڑا رخنہ غالباً وہ خوبصورت ہرے بھرے درخت ہی تھے، لہٰذا ان پر چھری چلادی گئی۔ ایسے جیسے وہ جگہ یتیم ہوگئی ہو، اس احساس محرومی کو لفظوں کے قید و بند میں سمانا مشکل ہے، لیکن جس خوبصورت نعمت کو اتنی بے قدری سے کاٹ کر زمین کے وجود سے الگ کردیا گیا اسے سوچ کر بھی عجیب سا لگتا ہے۔

ہم مغرب کی تقلید کرنا تو چاہتے ہیں لیکن ان کی اچھی باتوں پر توجہ نہیں دیتے کہ وہاں صرف انگریزی بولنے کے علاوہ بھی اچھا کام ہو رہا ہے، اسکولوں اور کالجز میں صرف انگریزی زبان سکھانے پر ہی توجہ دینی ضروری نہیں، تحفہ خداوندی کی حفاظت اور اس کے پھلنے پھولنے کے لیے بھی محنت و توجہ کی ضرورت ہے۔کچھ عرصہ قبل کی ہی بات ہے کہ آسٹریلیا کے ایک شیف پر خاصا مہنگا چالان کردیا گیا، وجہ یہ تھی کہ موصوف نے اپنے گھر کے اردگرد درختوں کی کٹائی کروالی تھی اور یہ بات حکومت کو ہضم نہ ہوئی، حالانکہ شیف خاصے مشہور و مقبول تھے۔

جب کہ ہمارے ملک میں حال یہ ہے کہ کسی بھی تعمیراتی کام میں سب سے پہلے درختوں کی کٹائی مقصود ہوتی ہے۔ ایک درخت کے بڑھنے میں اندازاً دس سے بارہ سال لگتے ہیں۔ یہ وہ عام معصوم سے درخت ہوتے ہیں جو آپ کو سڑک کے کنارے، گلی کے چوراہے، نائی کی دکان کے اطراف، ادھر ادھر نظر آجاتے ہیں، جو ہمارے ماحول میں آکسیجن فراہم کرنے کے کارخانے ہیں، جو آلودگی کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں ورنہ ہمارے ماحول کی آلودگی ہمارے نظام تنفس میں اس طرح بگاڑ پیدا کردے کہ ہر دوسرا شخص ہاتھ میں رومال لیے ناک پر رکھے گھومتا نظر آئے، لیکن ہم ان قدرتی طور پر آکسیجن فراہم کرنے والے کارخانوں کے خود ہی دشمن بنتے جا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ڈینگی بخار کے سلسلے میں ان خوبصورت درختوں کو دشمن جان سمجھنا شروع کردیا تھا۔ یہ درست ہے کہ اپنی جان کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے لیکن اس کے لیے درختوں کی کٹائی محض بہانہ ہی ہے۔

ان دنوں حکومت کے ترقی کے پروگراموں کے تحت سڑکوں کی کھدائی کا کام جاری ہے، جس کی وجہ سے بہت سے درختوں کی جان پر ہی بن آئی ہے۔ گو ترقی کے سفر میں ایسا ضروری ہے لیکن اس کے لیے متبادل طریقہ کار اختیار کرنا بھی اشد ضروری ہے، اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے، تاکہ سڑک کی اطراف درختوں کے قیام کو ممکن بنایا جاسکے۔ کیونکہ یہ درخت ہم سب کے لیے نہایت اہم ہیں ۔ اس امر میں یہ بھی ضروری ہے کہ اسکول اور کالجز میں بچوں میں اس شعور کو اجاگر کیا جائے کہ درخت ہماری زندگی میں کیا اہمیت رکھتے ہیں۔

صرف یہی نہیں درخت لگانے کی ضرورت پر بھی زور دیا جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں خاص کر سندھ میں پانی کی کمیابی کے باعث بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں، ایسے حالات میں ان پودوں اور درختوں کی بوائی کروائی جائے جو کم سے کم پانی لیتے ہیں۔پچھلے برس گرمی کی جس شدت سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا تھا اور انسانی جانیں اس لہر کی لپیٹ میں آئی تھیں، شاید یہ قدرت کی طرف سے ہمارے لیے ایک اشارہ ہی تھا کہ جس لالچ، حرص و طمع میں آکر ہم اپنے تجارتی منصوبوں کی خاطر بجری و سیمنٹ سے بلڈنگوں کی قطار لگا رہے ہیں کیا اس کے لیے ہم ان درختوں کو بے دردی سے قتل نہیں کر رہے جو ان مقامات پر پہلے سے آباد تھے، کیا ان کے لیے ہمارے اپارٹمنٹس کے پروجیکٹ میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔

کیا انسانی ترقی میں ان قدرتی تحائف کی کوئی اہمیت نہیں، خوش قسمتی سے ہمارے ملک کی زمین اس مقصد کے لیے خاصی زرخیز ہے۔ یہاں ایسے درخت اور پودوں کی تعداد زیادہ ہے جو خودبخود بیجوں کے گرنے کے باعث نمو پاتے ہیں جب کہ اب دبئی جیسے اور گرم ممالک بھی اپنے ماحول کی گرمی کی شدت کو کم کرنے کی غرض سے سبز انقلاب پر عمل کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے لیے اور اپنے آنے والے مستقبل کے لیے ان قدرتی آکسیجن فراہم کرنے والے کارخانوں کی پروڈکشن کو وسیع کرنے پر ضرور توجہ دینی چاہیے کہ ایک صاف ماحول، تازہ آب و ہوا انسانی ذہن میں اچھے اور نیک خیالات کو جنم دیتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں