کب تک بہے گی الٹی گنگا

ہر اٹھتا جنازہ لحد تک بس ایک ہی سوال پوچھتا ہے کہ انسانیت کہاں ہے؟ عقل کہاں ہے؟ دلیل کہاں ہے؟


سالار سلیمان June 17, 2016
ذرا سوچیے تو سہی کہ اب ہم میں اور عرب کے جہلاء میں کیا فرق باقی رہ گیا ہے؟ وہ زندہ درگور کرتے تھے اور ہم نے معصوم کلیوں کو معمولی جرائم میں زندہ جلانا شروع کردیا ہے۔

ایبٹ آباد:

رات کے کسی پہر دروازہ زور سے بجایا گیا، گھر میں موجود افراد ڈر کر اُٹھ گئے، انہوں نے خوفزدہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا، اتنے میں دروازہ دوسری مرتبہ پھر اس قدر زور سے بجایا گیا کہ اندیشہ ہوا کہ اب یہ ٹوٹ ہی جائے گا۔ لڑکی نے ڈر کر منہ پر ہاتھ رکھ لیا، اس کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اٹھ کر دروازے تک جا سکتی۔

باہر گلی میں آوازوں سے لگتا تھا کہ کافی مرد گھر کے باہر اکٹھے ہیں۔ اس سے پہلے کہ دروازے کو تیسری مرتبہ کھٹکھٹایا جاتا ایک بوڑھی عورت نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ مرد اندر داخل ہوئے تو عورت نے گھگھیاتے ہوئے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ اُن میں سے ایک مرد نے آگے بڑھ کر اپنے کندھے پر موجود کپڑے کو درست کرتے ہوئے سخت لہجے میں کہا کہ جرگے نے تمہاری بیٹی کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ خاموشی سے بیٹی کو ہمارے حوالے کر دو، ہم اس کو جرگے میں لے جائیں گے۔ اگر کسی نے ہمارے کسی بھی حکم کے خلاف چلنے کی کوشش کی تو اپنی جان، مال، عزت و آبرو کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔ بوڑھی عورت معاشی اور معاشرتی لحاظ سے کمزور تھی۔ وہ خاموش ہوگئی، ایک طرف اس کی ایک بیٹی تھی اور دوسری طرف پورے کنبہ کی ذمہ داری ۔۔۔۔۔ اس کو ایک کوئی فیصلہ لینا ہی تھا۔

اس کی بیٹی کمرے سے باہر لائی گئی تو ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر نفرت بھرا طمانچہ اس کے منہ پر رسید کیا، بوڑھی ماں نے آگے بڑھ کر روکنا چاہا تو ایک مرد نے اس کو منع کیا کہ اگر ہمیں ابھی روکا تو پھر بعد میں کوئی کسی کو بھی نہیں روک سکے گا۔ غریب ماں خاموش ہوگئی، بوڑھا وجود کر بھی کیا سکتا تھا؟ ناجانے اس بوڑھے وجود نے کیسے اپنے دل پر پتھر رکھ لیا تھا۔ اس کے سامنے اس کی بیٹی کو غیر مرد گھسیٹتے ہوئے گلی میں لے گئے اور جرگے کے سامنے پیش کیا۔ اس کے سر سے دوپٹہ اترچکا تھا اور چہرہ تھپڑ مارے جانے کی وجہ سے سوجا ہوا تھا، اس کی آنکھیں آنسوؤں کی وجہ سے بھیگی ہوئی تھی، گلا رندھا ہوا تھا اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کسی معصوم سی ہرنی کو بھوکے بھیڑیوں کے درمیان میں چھوڑ دیا ہو۔

قبائلی روایات کے مطابق ریاست کے اندر ریاست سجائی گئی، لڑکی کا کوئی عذر قبول نہیں کیا گیا اور فیصلہ ہوا کہ اس لڑکی کوقتل کیا جائیگا۔ کیونکہ اس نے اپنی دوست کو گھر سے بھاگ کر شادی کرنے میں مدد دی ہے۔ لڑکی نے یہ سن کر اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے واسطے دیے لیکن ان ظالموں کے دل نہ پگھلے۔ جب اس نے مزاحمت کی کوشش کی تو پہلے ایک درندے نے اس کو انجکشن لگا کر بے ہوش کیا اور باقیوں نے اس معصوم کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کا وجود پھڑپھڑایا اور اسی دوران اُس کی جان نکل گئی۔ ایک ناکردہ جرم کی سزا کے عوض غریب اور مفلس لڑکی جان کی بازی ہار گئی۔ اس کے بعد جرگے کے بہادر اور غیرت مند مردوں نے مقامی قانون کے خوف سے اس کو ایک گاڑی کے سیلنڈر سے باندھا اور گاڑی کو لڑکی سمیت آگ لگا دی۔ کیسا عجیب، گھٹیا اور مردہ معاشرہ ہے کہ ایک لڑکی کو اٹھایا جاتا ہے، اس کو قتل کیا جاتا ہے، اس کی نعش تک کو جلایا جاتا ہے لیکن کوئی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع نہیں دیتا ہے۔

کئی گھنٹے اس مردہ وجود کو گاڑی میں رکھ کر جلایا جاتا ہے، انسانی گوشت کے جلنے کی بو علاقے میں پھیل جاتی ہے لیکن پولیس تک وہاں نہیں جاتی۔ اگلے دن پولیس کو کوئی اطلاع دیتا ہے تو پولیس آتی ہے، تفتیش شروع ہوتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ گاڑی میں آگ لگنے سے مرگئی، کوئی کہتا ہے کہ خود کشی کی ہے۔ پولیس کی نگاہ ایک اور نکتے کی جانب جاتی ہے کہ لڑکی کو گاڑی کے سیلنڈر پر بٹھایا گیا تھا، اس کے ہاتھوں کو گاڑی کی سائیڈ سے باندھا گیا تھا اور جلنے کے بعد بھی لاش بندھی ہوئی تھی، قتل کا مقدمہ درج ہوا اور تفتیش اس مقامی جرگے تک پہنچ گئی۔

عدالتی حکم پر گرفتاریاں شروع ہوئیں اور کیس اب عدالت میں ہے۔ عنبرین کو تو دفن کردیا گیا ہے، تاہم اس لڑکی کی روح یہ ضرور سوچتی ہوگی کہ میرا جرم کیا اتنا ہی بڑا تھا کہ پل بھر میں میری صرف موت کا فیصلہ نہیں ہوا بلکہ اُس پر عمل درآمد بھی کرلیا گیا۔
مری:

ایک نوجوان لڑکی سڑک کے کنارے چلتی ہوئی گھر جا رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا کہ وہ اڑ کر اپنے گھر پہنچ جائے۔ اپنے بہن بھائیوں کا چہرہ دیکھے، اپنی بوڑھی اور ناتواں ماں کو دیکھ کر سکون حاصل کرے۔ اسکول کی پریشانیاں اسکول میں ہی بھول کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی گھر کی جانب جا رہی تھی۔ چڑھائی پر رفتار میں کمی ایک فطری سی بات ہے لیکن وہ اپنی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح سے اپنے گھر پہنچ جائے۔

اس کی چلنے کی رفتار میں تھوڑی سی اور تیزی آگئی۔ اس کا سانس پھولنا شروع ہوگیا لیکن وہ مسلسل چل رہی تھی، رُکی نہیں۔ اسے یاد آرہا تھا کہ اسکول پرنسپل کے شادی شدہ کریہہ صورت بیٹے نے شادی کی پیشکش سختی سے رد کردینے کے باوجود کریہہ صورت لڑکے نے عبرت ناک انجام کی دھمکی دی ہوئی تھی۔

جبکہ اسکول پرنسپل نے اس کی شکایت سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلد ہی اس کیس کو دیکھیں گے۔ یہ اسکول اس کریہہ صورت کے بیٹے کے ہی نام تھا، یعنی وہ اس اسکول کا مالک تھا۔ ان سب خیالات نے اس کی رفتار کو مزید تیز کردیا لیکن جیسے ہی لڑکی نے موڑ مڑا 'وہ دہک سے رہ گئی'۔ ایک خوف کی لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں اٹھی۔ سامنے وہی لڑکا کھڑا مسکر ارہا تھا، اب اس لڑکی کے سامنے ایک ہی راستہ تھا کہ وہ سڑک سے پگڈنڈی کی جانب ہوجاتی اور وہاں سے دشوار گزار راستے سے ہوتی ہوئی گھر تک پہنچتی۔ لیکن لڑکے نے اس کی نیت کو بھانپ لیا تھا اور سڑک پر آمد و رفت بالکل نہ ہونے کے باعث اس نے ایک ہی لمحے میں لڑکی کو دبوچ لیا۔ شدید مزاحمت پر اس لڑکے نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کو کسی کے قابل بھی نہیں چھوڑے گا' وہ اس کو نشان عبرت بنائے گا۔

اس نے لڑکی کو آگ لگا دی اور جھاڑیوں کی جانب دھکا دے دیا۔ لڑکی نیچے کھائی میں جاگری، اس کا جسم بُری طرح سے جل رہا تھا لیکن اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ خود پر لگی ہوئی آگ بجھا سکتی۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کا 85 فیصد بدن جھلس چکا تھا۔ کچھ دیر بعد راہ گیروں کی نظر اس پر پڑی اور انہوں نے کھائی میں اتر کر آگ بجھائی۔ اس کو اسپتال لے جایا گیا، جہاں اس نے انتہائی نگہداشت میں دو دن گزارے اور پھر اپنی جان دے دی۔ اس کیس کی بھی تفتیش شروع ہوچکی ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ قاتل کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا، لیکن افسوس کہ ماریہ کا جسم بھی لحد میں اتر چکا ہے۔
لاہور:

وہ جانتی تھی کہ اس کے گھر کا ماحول خاصا سخت ہے لیکن وہ بے اختیار تھی اپنے جذبوں کے آگے کہ محبت کے آگے کوئی دلیل بھی کام نہیں کرتی ہے۔ وہ یہ بھی جان چکی تھی کہ اگر اس کی شادی اپنے محبوب سے نہ ہوئی تو وہ ایک زندہ لاش بن کر جئے گی۔ اسی کشمکش میں اس نے وہ فیصلہ کیا جو کہ وہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کورٹ میں شادی کرلی۔

جیسے ہی اس نے گھر چھوڑا، گھر والوں کو علم ہوگیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس کو روکتے ان کو خبر ملی کہ ایک ہی محلے میں رہنے والے دونوں پریمیوں نے شادی کرلی ہے۔ اسکول کے زمانے سے پنپتی ہوئی محبت بالاخر امر ہوگئی۔ حالانکہ اس سے پہلے تین مرتبہ اس کے محبوب کی جانب سے لڑکی کے گھر میں باقاعدہ رشتہ بھیجا گیا تھا جس کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر لڑکی کے گھر والوں نے رد کردیا تھا۔ لڑکی کی ماں اپنے دیور کے ہمراہ لڑکے کے گھر گئی اور لڑکی سے کہا کہ اب جو ہونا تھا، وہ ہوچکا ہے۔ تم ہمارے ساتھ چلو، ہم تمہاری باقاعدہ رخصتی کریں گے تاکہ کوئی بھی تمہیں گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کا طعنہ نہ دے۔ لڑکی نے خوفزدہ نظروں سے اپنی ہی ماں کو دیکھا، اور خدشوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے کہ وہ مار دی جائیگی، اپنی ماں کے ساتھ چل دی۔

گھر میں داخل ہوتے ہی اس پر تشدد کا پہاڑ توڑ دیا گیا۔ گھر میں جس نے کبھی مکھی یا مچھر تک نہیں مارا ہوگا اس نے بھی اس لڑکی کو بُری طرح سے مارا۔ لڑکی نے بار بار اپنی ماں کے پاؤں پکڑے لیکن اس سگندل، سفاک، مغرور، انا پسند عورت کے دل میں ذرا بھر بھی بیٹی کیلئے محبت نہ جاگی۔ اس نے اس لڑکی کو نشان عبرت بنانا تھا، لہذا اس نے لڑکی کو پہلے پھندا ڈال کر مارنے کی کوشش کی، اور اس کے بعد اس کو چارپائی سے باندھا، تیل چھڑکا اور آگ لگا دی۔ اس لڑکی کی ماں نے پولیس کی تحویل میں بیان دیا ہے کہ اس کو اپنے کئے پر کوئی ندامت نہیں ہے۔ یوں اب زینت بھی منوں مٹی میں دفن ہو چکی ہے۔

ایسے کئی کیس ہمارے معاشرے میں آج بھی موجود ہیں کہ جب غیرت نے جوش مارا تو پھر کسی بھی تاویل کو گھڑ کر قتل کردیا گیا۔ اگر عدالتوں کا ویسے ہی چکر لگالیں تو آپ اپنے کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور اگر اللہ نے آپ کو فہم کی قوت دی ہے تو سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے کہ یہ معاشرہ کہاں جارہا ہے؟ اس ملک میں کبھی اسلام کے نام پر، کبھی غیرت کے نام پر اور کبھی عزت کے نام پر قتل ہونا معمولی بات ہوچکی ہے۔ جبکہ حقیقت میں اسلام، غیرت اور عزت کے نام پر قتل کے بالکل خلاف ہے۔ گزشتہ چند روز سے تو ملک بھر میں غیرت کے نام پر قتل کرنیکی ایک عجیب سی لہر اٹھی ہے ۔

کبھی مذہب کی آڑ میں، کبھی قبائلی روایت کی آڑ میں، کبھی معاشرے کی آڑ میں، کبھی جرگے کے نظام کی آڑ میں، کبھی دشمنی کی آڑ میں، کبھی عداوت میں نشانہ صنف نازک ہوتی ہے، چولہا پھٹے گا تو بہو جلے گی، پنکھے سے لٹک کر خود کشی کسی ظالم کی بہن کرے گی، پستول سے خود کو گولی کوئی ماں مارے گی، کیوں؟ کیوںکہ ہمارا نظام بگڑ چکا ہے۔ ہم جواز پیش کرنے میں ماہر ہیں۔

پاکستان میں روزانہ ہی کسی نہ کسی عنبرین، ماریہ اور زینت کے جنازے اٹھتے ہیں اور ہر اٹھتا جنازہ لحد تک ایک ہی سوال پوچھتا ہے، انسانیت کہاں ہے؟ عقل کہاں ہے؟ دلیل کہاں ہے؟ کاش کے ایک مرتبہ ہم یہ سوچ لیں کہ ہم اس نبی ﷺ کی امت ہیں جنہوں نے عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کی۔ ہمیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اب ہم میں اور عرب کے جہلاء میں کیا فرق باقی رہ گیا ہے؟ وہ زندہ درگور کرتے تھے اور ہم نے معصوم کلیوں کو معمولی جرائم میں زندہ جلانا شروع کردیا ہے۔ ناجانے کیسے لوگ ہیں ہم جو الٹی گنگا بہا کر بھی سوچتے ہیں کہ معاملات ٹھیک ہوجائیں گے، معاشرے میں امن اور سکون آجائے گا، معلوم نہیں کہ ہم کیوں الٹی گنگا بہانے کے شوقین ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔