حسین وادیوں سرسبز کہساروں اور بہتے جھرنوں کی سرزمین

وادیٔ نیلم کی سیر کو جانے والوں کے لیے دلچسپ اور معلوماتی تحریر


وادیٔ نیلم کی سیر کو جانے والوں کے لیے دلچسپ اور معلوماتی تحریر ۔ فوٹو : فائل

موسم گرما جب اپنے جوبن پر ہوتا ہے تو گرمی سے ستائے ہوئے لوگ ٹھنڈے سیاحتی مقامات کی سیر و سیاحت کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ پاکستان کے میدانی علاقوں میں بسنے والے لوگ موسم گرما میں اکثر بالائی علاقوں ناران کاغان اور گلگت کے بعض علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور کچھ دنوں کے لیے قدرتی ماحول سے بھرپور حظ اٹھاتے ہیں ۔سیاحوں کی اچھی خاصی تعدادوادی سوات اور کالام کا رخ بھی کرتی ہے اور کچھ لوگ چترال میں وادی کالاش کی سیر کے لیے نکلتے ہیں ۔یہ مقامات تو بہت پہلے سے سیاحت کے لیے مشہور ہیں لیکن حالیہ کچھ برسوں سے دیکھا گیا ہے کہ سیاحوں کی بڑی تعداد موسم گرما میں آزادکشمیر کا رخ کر رہی ہے اور ہر سال ان سیاحوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

آزادکشمیر میں ویسے تو کئی علاقے سیاحوں کے لیے پرکشش ہیں جن میں میرپور میں منگلا جھیل ، راولاکوٹ میں تولی پیر پہاڑی اور بنجوسہ جھیل ،ضلع باغ میں گنگا چوٹی اور دھیر کوٹ ، ہٹیاں بالا میں وادی چکار شامل ہیں لیکن قدرت نے جو حسن اور دلکشی وادی نیلم کو ودیعت کی ہے وہ بس اُسی کا حصہ ہے ۔ دریائے نیلم کے کنارے پر واقع 250کلو میٹر طویل رقبے کی حامل یہ وادی آزادکشمیر میں سب سے زیادہ گھنے جنگلات کے لیے مشہور ہے ۔ یہاں بڑے بڑے قدرتی نالے اور ندیاں ہیں ۔جابجا آبشاریں اور قدرتی چشمے یہاں قدم قدم پر ملتے ہیں ۔یہ وادی معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے ۔ نیلم ، روبی، گریفائٹ جیسی کئی قیمتی دھاتیں نیلم کے پہاڑوں میں دفن ہیں ۔یہاں گھنے جنگلات کے ساتھ ساتھ وسیع وعریض سبزہ زار ہیں جو سیاحوں کی آنکھوں کو طمانیت بخشتے ہیں ۔قدرتی جڑی بوٹیوں کے لیے بھی وادی نیلم مشہور ہے۔ یہاں کی مشہور جڑی بوٹی کُٹھ اور پتریس کو کئی امراض کا علاج سمجھا جاتا ہے۔



نیلم پہلے آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کی ایک تحصیل ہوا کرتی تھی جسے 2005ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا۔ اب یہ آزادکشمیر کا سب سے بڑا ضلع ہے جس کی دو تحصیلیں اٹھمقام اور شاردہ ہیں۔ یہ خوبصورت علاقہ اپنے اطراف سے بھارتی مقبوضہ کشمیر،چلاس ، مانسہرہ اور مظفرآباد کے ساتھ لگتا ہے ۔وادی نیلم مظفرآباد سے 70 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔موسم گرما کی مناسبت سے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس حسین وادی کا تعارف کرا دیا جائے ۔

وادی نیلم کی سیر کو جانے والے اکثر سیاح راولپنڈی سے مری کے راستے مظفرآباد پہنچتے ہیں۔ اس سفر کے دوان وہ ملکہ کہسار مری کے دلکش مناظر سے لطف اٹھاتے ہوئے نیچے کی جانب اترتے چلے جاتے ہیں ۔ مری کے بعد سیاح کوہالہ پل کے ذریعے آزادکشمیر کی حدود میں داخل ہوتے ہیں ۔ کوہالہ پل عبور کرتے ہی پہلا پکنک پوائنٹ سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے ۔ پُل کے دائیں جانب ایک قدرتی ندی ہے جو دریائے جہلم میں گرتی ہے ۔ اس ندی میں مقامی لوگوں نے وقفے وقفے سے ٹینٹ والی عارضی چھتیں لگا رکھی ہیں اور ٹھنڈے شفاف پانی میں چارپائیاں اور کرسیاں بھی بچھائی ہوئی ہیں۔ کچھ خیمہ نما نشستیں دریا کے کنارے پر بھی نصب ہیں۔وہاں ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھنا اور اس پانی میں نہاناسیاح کو ایک عجیب قسم کی سر شاری سے ہمکنار کرتا ہے ۔اس پوائنٹ پر کھانے پینے کی اشیاء سہولت کے ساتھ دستیاب ہیں ۔

کوہالہ سے مظفرآباد شہر کا سفر بھی کم دلچسپ نہیں ۔ جب آپ دریا کے مخالف سمت میں کشادہ سڑک پر رواں دواں ہوتے ہیں تو دلکش مناظر آپ کو مسحور کیے رکھتے ہیں ۔ پون گھنٹے کا یہ سفر کٹنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ شہر سے قبل چھتر کلاس،کُلیاں، دولائی ، راڑہ اور امبور نامی علاقے آتے ہیں ۔ دلائی کے مقام پر جب آپ دریا کے اس پار دیکھتے ہیں تو ایک بڑی اونچی آبشار آپ کو رکنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ یہ آبشار صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع ایبٹ آباد میں واقع ہے ۔ یہاں پہنچنے کے لیے آپ کو دریا کے اوپر لگی مضبوط رسی سے بندھی چیئر لفٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ کشمیر آبشار کے شفاف پانی کے سامنے چوکور شکل کے اوپر تلے دو بڑے تالاب بنائے گئے ہیں جن میں سیاح تیراکی بھی کرتے ہیں ۔

یہاں سے شہر مظفرآباد محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ راستے میں راڑہ کے مقام پربازار سے ذرا آگے جا کر ایک چھوٹا سا قدیم ٹنل بھی آتا ہے جو ڈوگرہ حکمرانوں کے دور میں پہاڑ میں چھید کر کے بنایا گیا تھا۔ اب باہر کی جانب سے سڑک بن جانے کی وجہ سے گاڑیوں کے لیے یہ ٹنل متروک ہو چکا ہے۔ راڑہ بازار کے قریب ہی صوبہ خیبر پختون خوا سے آنے والا کنہار دریائے جہلم میں شامل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ چند ہی منٹ میں آپ شہر مظفرآباد میں پہنچ جاتے ہیں ۔ وادی نیلم کی سیر کا شوق رکھنے والوں کا یہاں پہلا پڑاؤ ہوتا ہے ۔مظفرآباد میں ہر طرح کے ہوٹل اور سہولیات دستیاب ہیں اور امن امان کے حوالے سے بھی یہ شہر مثالی ہے ۔وادی نیلم کی سیر وسیاحت کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کے لیے مظفرآباد میں محکمہ سیاحت کے دفاتر سے رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔



شہر مظفرآباد چاروں جانب سے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے اور اس میں دو دریا نیلم و جہلم گزرتے تھے۔دریائے جہلم کا قدیم تاریخی نام وتستا ہے جبکہ نیلم کو کشن گنگا کہا جاتا تھا۔ دریائے نیلم اور جہلم کے سنگم کو دومیل کہا جاتا ہے ۔ یہاں قائداعظم برج پر کھڑے ہوکر سیاح ان دو دریاؤں کو ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے ہوئے دیکھ کر لطف اٹھاتے ہیں ۔ دریائے نیلم کا نیلگوں پانی جہلم کے مٹیالے میں پانی میں ضم ہو کر ایک نیا رنگ اختیار کرلیتا ہے۔ دائیں جانب شاہراۂ سری نگر ہے جو دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ چلتی چلی جاتی ہے اور چکوٹھی کے مقام پر ختم ہوتی ہے ۔ اس شاہراہ پر قصبہ گڑھی دوپٹہ،کومی کوٹ ،سراں ہٹیاں، چناری اور چکوٹھی واقع ہیں ۔وادی چکار کا راستہ بھی اسی شاہراہ سے ہو کر گزرتا ہے۔ سفر کے دوران تھوڑے تھوڑے وقفے سے قدرتی چشمے اور آبشاریں ملتی ہیں۔ مظفرآباد میں دومیل پُل (قائداعظم برج)سے سیدھا شہر کی جانب جائیں تو آپ اس سڑک کے آخری کنارے چہلہ بانڈی پہنچ جاتے ہیں ۔ یہیں سے نیلم کے سفر کا آغاز ہوتا ہے ۔شہر کو چہلہ بانڈی سے ا یک بڑا پُل ملاتا ہے ہے جس کے پہلے کنارے پر قدیم قلعہ مظفرآباد کے آثار موجود ہیں۔ یہ قلعہ موسموں کے تھپیڑوں اور زلزلے کے جھٹکے سے کافی شکستہ ہو چکا ہے تاہم سیاح اسے دیکھنے میں کافی دلچسپی لیتے ہیں۔ 2005ء کے زلزلے کی تباہی اور محکمہ سیاحت کی غفلت کے مظاہر یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔

نیلم کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ آسانی سے مل جاتی ہے۔ جنرل بس اسٹینڈ مظفرآباد سے نیلم کے لیے ہر آدھے گھنٹے بعد ویگنیں روانہ ہوتی ہیں اور بسیں بھی با آسانی مل جاتی ہیں ۔ پرائیویٹ گاڑیوں کے لیے بھی سڑک کافی موزوں ہے ۔ راستے میں چند ایک جگہوں پر موسمی لینڈ سلائنڈنگ کا اندیشہ رہتا ہے اس لیے سفر شروع کرنے سے پہلے اس بارے میں معلومات حاصل کر کے تسلی کر لینی چاہیے۔ضلع نیلم کے ہیڈ کوارٹر اٹھمقام تک پختہ اور کشادہ سڑک ہے تاہم اس سے آگے ذرا اونچی گاڑیاں لے جانا مناسب ہوتا ہے ۔ اس سڑک پر کئی اندھے موڑ بھی آتے ہیں جہاں بہت احتیاط سے ڈرائیونگ کی ضرورت ہوتی ہے۔



مظفرآباد سے نکل کر کوئی آدھ گھنٹے بعد پٹہکہ نامی قصبہ آتا ہے ۔یہ ضلع مظفرآباد کی ایک تحصیل ہے جہاں ایک بڑا بازار اور دریا کے کنارے واقع اچھے ہوٹل ہیں۔ پٹہکہ سے آگے بڑھتے ہوئے سڑک بل کھانے لگتی ہے لیکن اس کی ہمواری میں بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کچھ آگے جا کر نوسیری کا علاقہ آتا ہے ۔ نوسیری کا پل عبور کرتے ہی اگر دائیں جانب سامنے نگاہ ڈالی جائے تو بھاری مشینری اور بڑے پیمانے پر جاری تعمیراتی کام کے مناظر دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ نیلم جہلم ہائیڈرل پاور پراجیکٹ کا ایک حصہ ہے جو چین کے تعاون سے 2018ء تک مکمل ہونا ہے ۔نوسیری سے پون گھنٹہ آگے خوبصورت مقام کنڈل شاہی آتا ہے جہاں ایک چھوٹا سا بازار ہے ۔ اسی بازار سے بائیں ہاتھ اوپر کی طرف نکلنے والی سڑک کٹن کی طرف جاتی ہے۔ یہاں سے قریب ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت اور بڑی آبشار ہے ۔یہ جاگراں پاور پراجیکٹ کے لیے بنائی گئی ہے ۔ اس نالے کا پانی انتہائی یخ بستہ ہے۔ آپ چند سیکنڈ سے زیادہ اس میں پاؤں نہیں رکھ سکتے۔یہاں ٹراؤٹ مچھلی باآسانی دستیاب ہوتی ہے۔

کنڈل شاہی بازار سے اگر سیدھا آگے کی جانب نکلیں تو چند منٹ کے فاصلے پر اٹھمقام واقع ہے ۔یہ نیلم کا ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے اور یہاں ایک بڑا بازار اور سرکاری دفاتر قائم ہیں۔ سیاح کچھ دیر یہاں سستانے کے بعد قدرتی حسن کا تجسس لیے یہاں سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔کچھ ہی دور آگے کیرن کا مشہور سیاحتی مقام آ جاتا ہے جہاں محکمہ سیاحت آزادکشمیر کے خوبصورت گیسٹ ہاوس بھی موجود ہیں۔ کیرن میں کھڑے ہو کر دریا کے اس پار دیکھیں تو ایک بھرا پُرا گاؤں نظر آتا ہے ۔ یہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کا قصبہ اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہے۔ کیرن گیسٹ ہاؤسز سے آگے نکل کر اوپر کی جانب ایک سڑک ''نیلم'' نامی گاؤں کی طرف جاتی ہے ۔تقریباً آدھ گھنٹے کی مسلسل چڑھائی کے بعد آپ ایک گاؤں میں موجود ہوتے ہیں ۔ یہ وادی نیلم کا خوبصورت ترین گاؤں ہے ۔ بڑے بڑے سبزہ زار،مناسب فاصلے پر بنے ہوئے لکڑی کے گھر اور کچھ گیسٹ ہاؤسز سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ سیاح وہاں گاڑیاں کھڑی کر کے اوپر کی جانب پیدل چڑھتے ہیں ۔اس گاؤں کے ساتھ ایک بڑا گھنا اور وسیع جنگل ہے جہاں فطرت کے مناظر سیاح کو دیر تک خود میں محو رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔اس گاؤں کے ساتھ میٹھے شفاف پانی کا ایک نالہ بہتا ہے جسے نالۂ نگدر کہتے ہیں۔

کیرن سے اگر سیدھا آگے کی جانب جائیں تو لوات کا علاقہ آتا ہے ۔ یہاں بھی ایک چھوٹا سا بازار ہے ۔ لوات نالہ عبور کرنے کے بعد سیاح کو موسم میں واضح فرق محسوس ہونے لگتا ہے۔ اب پہلے کی نسبت ماحول میں ٹھنڈک بڑھ جاتی ہے۔یہاں سے دریا کے اس پار نیچے تک پاکستان کے زیر انتظام علاقہ ہے۔ لوات کا گاؤں دو حصوں میں منقسم ہے ۔ نیلم کی مرکزی شاہراہ پر واقع اس حصے کو لوات پائیں کہتے ہیں جبکہ دوسرے حصے کو لوات بالا کہا جاتا ہے ۔ لوات بالا کی طرف جانے والی سڑک کچی ہے اور عام گاڑیوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے اس لیے سیاح اس طرف جانے کا نہیں سوچتے بلکہ سیدھی سڑک پر آگے بڑھتے رہنے ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔

لوات سے ذرا آگے ایک خوبصورت گاؤں دواریاں آتا ہے ۔ اس گاؤں میں آزادکشمیر کے معروف صوفی بزرگ میاں شفیع جھاگوی کا آستانۂ عالیہ بھی ہے جہاں عقیدت مندوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ اس مردم خیز گاؤں سے کئی اہل علم اٹھے اور نامی ہوئے۔مشہور مدرس اور محکمہ تعلیم کے سابق آفیسر سید بہاء الدین بہار بھی اسی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔ دواریاں سے ذرا اوپر جائیں تو رتی گلی کا علاقہ آتا ہے جہاں کی ایک جھیل اپنی دلکشی کی وجہ سے بہت شہرت رکھتی ہے۔ دواریاں سے آگے چانگن نامی گاؤں ہے ۔ یہاں پہنچ کر ڈرائیور کو ذرا زیادہ محتاط ہو جا نا ہو تا ہے ۔ یہ سڑک سنگلاخ چٹانوں کو کاٹ کر بنائی ہے ۔یہاں ڈرائیور کی ایک ذرا سی غفلت یا بے احتیاطی بڑے حادثے کا باعث بھی بن سکتی ہے ۔یہاں ماضی میں کئی ایسے حادثات پیش آ چکے ہیں جن کے نتیجے میں کئی گاڑیاں دریا کی نذر ہوئیں اور جان سے جانے والوں کی نعشیں بھی نہ مل سکیں۔ تازہ ترین اطلاعات ہیں کہ اب وہ سڑک پہلے کی نسبت کشادہ ہے لیکن احتیاط بہرحال ضروری ہے۔



نیلم کی خاص بات یہ ہے کہ اگر سیاح صرف مرکزی سڑک پر ہی چلتے چلے جائیں تو بھی قدرتی مناظر سے بھرپور حظ اٹھا سکتے ہیں ۔چانگن نامی گاؤں کے بعد دُدھنیال کا علاقہ آتا ہے۔ یہ یونین کونسل ہے اور یہاں بھی ایک چھوٹا سا بازار ہے جہاں ضرورت کی چیزیں اور کچھ مقامی کھانے دستیاب ہوتے ہیں۔ نیلم کے آخری کنارے کو چھونے کا شوق رکھنے والے سیاح عموماً یہاں نہیں رُکتے۔ وہ نئی دنیا کو دریافت کرنے کے جنون میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ راستے میں سڑک کنارے جا بجا شفاف پانی کے چشمے بھی گزرتے رہتے ہیں۔ لوگ ان چشموں سے سیراب ہوتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ آزادکشمیر کے باسی پانی کی دو قسموں میٹھا اور کھارا سے واقف نہیں ہیں۔ وہ پانی کو پانی سمجھتے ہیں کیونکہ پورے کشمیر میں کہیں بھی کھارا پانی نہیں ہے۔

چانگن سے ذرا آگے جا کر شاردہ نامی قصبہ آتا ہے ۔ یہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہے اور نیلم کے تاریخی و خوبصورت مقامات میں شمار ہوتا ہے ۔یہاں دریا کے دونوں طرف کافی آبادی ہے ۔دریا کے دوسری طرف جانے کے لیے لوہے کا پل ہے جس پر لکڑی کے تختے نصب ہیں۔ سیاح یہ پل عبور کرکے سامنے کئی سو سالہ قدیم بدھ یونیورسٹی کے آثار دیکھنے جاتے ہیں۔ وہاں ایک قدیم قلعے کے آثار بھی موجود ہیں جس پر لگی تختی سیاحوں کو اس کے تاریخی پس منظر سے آگاہ کرتی ہے۔ یہاں پہنچ کر دریائے نیلم کی وسعت میں کافی اضافہ ہو جاتا ہے اور ٹھاٹھیں مارتی لہریں بھی نسبتاً ہموار ہو جاتی ہیں۔ دریا کے دوسرے کنارے کھلا میدان ہے جہاں سیاح چہل قدمی کرتے ہیں اور بہت سے لوگ خیمے بھی لگا لیتے ہیں۔

شاردہ سے مزید آگے کی جانب بڑھیں تو نیلم کا مشہور سیاحتی مقام کیل آتا ہے ۔ کیل بازار سے گزر کر سیاحوں کا واسطہ ایک دو راہے سے پڑتا ہے۔ اوپر بائیں طرف جانے والی سڑک سیدھا اڑنگ کیل نامی خوبصورت گاؤں تک لے جاتی ہے جبکہ نیچے کی جانب جانے والی سڑک مچّھل سے ہوتی ہوئی تاؤبٹ تک جاتی ہے۔ اڑنگ کیل نامی گاؤں میں پہنچتے ہی سیاح خود کو ایک اور ہی دنیا میں محسوس کرتا ہے ۔ وسیع و عریض سبزہ زار ، ان میں تھوڑے تھوڑے وقفوں سے کھڑے طویل درخت، لکڑی سے بنے کئی کئی منزلہ خوبصورت گھر ، بڑے بڑے میدانوں میں چرتے مویشی، گھریلو جانوروں کے ساتھ یاک (Yalk) بھی ان سبزہ زاروں میں نظر آتے ہیں۔میٹھے ٹھنڈے چشموں کا پانی طبیعت میں ایک عجیب قسم کی فرحت کا احساس پیدا کرتا ہے۔

کیل بازار سے نیچے کی طرف جانے والے سڑک بھی کچھ آگے جا کر دو راستوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔ ایک راستہ شونتھڑ کی طرف جاتا ہے جہاں موجود خوبصورت جھیل سیاحوں کے لیے بہت کشش رکھتی ہے۔ شونتھڑ کا سفر قدرے دشوار ہے اس لیے اکثر نوجوان ہی اس ایڈوینچر کے لیے تیار ہو تے ہیں۔ دوسرا راستہ مچھل نامی علاقے سے ہوتا ہوا تاؤ بٹ تک جاتا ہے۔ مچھل کے مقام پر دریائے نیلم ایک بڑی جھیل کا سا لگتا ہے۔ اس کا پانی وہاں گہرا نیلا اور پرسکون دکھائی دیتا ہے اور سیاح اس حسین منظر کو اپنے کیمروں کی آنکھ میں قید کرنے کے لیے یہاں رکتے ہیں۔ یہاں مقامی خواتین ایندھن کے لیے دریا میں تیرتی خشک لکڑیاں جمع کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ آزادکشمیر کے محکمہ جنگلات کا بہت بڑا اسٹاک بھی یہاں موجود ہے جہاں لکڑی کے بڑے بڑے شہتیر ڈھیروں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد تاؤ بٹ کا علاقہ آتا ہے ۔ یہ سیاحت کے لیے نیلم کا آخری علاقہ ہے ۔ یہ بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔

آزاد کشمیر کی وادی نیلم کا شمار ان علاقوں میں ہوتا جہاں ابھی بہت کچھ انسانی آنکھ سے پوشیدہ ہے۔ اکثر سیاح صرف سڑک کے آس پاس رہنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔ بہت کم لوگ اوپر پہاڑوں اور جنگلوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان پہاڑی پگڈنڈیوں پر چلنے کے لیے خاص قسم کی مہارت کے ساتھ ساتھ مقامی باشندوں کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ابھی یہ علاقہ کمرشلزم کی آلودگی سے محفوظ ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے باشندوں میں اجنبی مسافروں کی مدد اور ان کے ساتھ تعاون کی روایت برقرار ہے۔ یہاں کے لوگ بہت سادہ زندگی بسر کرتے ہیں ۔یہاں موجود ہوٹلوں پر مقامی کھانے دیگر سیاحتی مقامات کی نسبت کافی کم نرخوں پر ملتے ہیں۔ وادی نیلم میں سیاحوں کے لیے یہ سہولت ہے کہ وہ کسی بھی کھلے میدان میں یا پھر دریا کنارے اپنا خیمہ لگا کر رات بسر کر سکتے ہیں۔ جو لوگ گیسٹ ہاؤسز میں رہنا چاہتے ہیں وہ مظفرآباد ہی سے بکنک کرا سکتے ہیں۔زیادہ آگے تک جانے والے سیاح مظفرآباد سے جیپیں بک کرا کر اس علاقے کے سفر پر نکلتے ہیں۔ یہ نسبتاً محفوظ طریقہ ہے کیونکہ مقامی ڈرائیور راستوں کے اُتار چڑھاؤ سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔

وادی نیلم کی حدود میں داخل ہونے کے بعد کچھ ہی آگے جا کر موبائل فون کے سگنل بند ہوجاتے ہیں۔ اب آپ کے پاس سوائے لینڈ لائن پی سی او کے استعمال کے علاوہ کوئی اور ذریعہ ٔ مواصلات نہیں ہوتا ۔یہ پی سی او نیلم کی مرکزی شاہراہ پر قائم ہر چھوٹے بڑے بازار میں باآسانی مل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر مظفرآباد یا اٹھمقام سے پاک آرمی کے تحت چلنے والی SCOM نامی کمپنی کی موبائل سِم خرید لی جائے تو وہ اٹھمقام سے ذرا آگے تک رابطے کا کام کر سکتی ہے۔پہاڑوں پر ہائیکنگ کے شوقین نوجوانوں کو اپنے بیگ میں ضروری ادویات،گرم لباس اور شٹل والے خیمے ضرور رکھنے چاہیں تاکہ موسم کے اندر اچانک آنے والی کسی بھی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچا جا سکے۔ وادی نیلم کے دلکش نظاروں سے بھرپور لطف لینے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس کم از کم تین دن کا وقت ہو۔ آج کل اسکولوں میں چھٹیاں ہیں اس لیے سیرو تفریح کے لیے وقت نکالنا آسان ہے۔ اگر آپ نے موسم گرما میں وادی نیلم نہیں دیکھا تو گویا ابھی بہت کچھ نہیں دیکھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں