آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبیؐ سے
میں نے بچپن میں اپنے گھر میں ایک پرانا ریڈیو ہی دیکھا تھا اور وہ بھی صرف میرے والد صاحب کی مرضی کے تابع رہتا تھا
میں نے بچپن میں اپنے گھر میں ایک پرانا ریڈیو ہی دیکھا تھا اور وہ بھی صرف میرے والد صاحب کی مرضی کے تابع رہتا تھا وہ صرف ریڈیوکو خبروں کا ذریعہ سمجھتے تھے اور ریڈیو سے صرف خبریں ہی سنا کرتے تھے۔گھر کے دیگر لوگوں کو ریڈیو سے کسی بھی قسم کے موسیقی کے پروگرام سننے کی بالکل اجازت نہیں تھی ، ہاں البتہ جب رمضان کا مہینہ آتا تھا تواس پرانے ریڈیو کی قسمت چمک جاتی تھی اور دن میں، دوپہر اور رات کو نعتوں اور قوالیوں کے پروگرام بھی ریڈیو سے سننے کو مل جاتے تھے۔ میرا گھرانہ ایک کٹر مذہبی گھرانہ تھا اورگھر کے سب لوگ اس ماحول کے عادی تھے۔
ہماری والدہ کو نعتیں بہت اچھی لگتی تھیں، ان دنوں ریڈیو پاکستان اورآل انڈیا ریڈیو سے رمضان کے مہینے میں خاص طور پر نعتیں نشر ہوتی رہتی تھیں۔ پرائیویٹ ریکارڈ کی ہوئی نعتوں کے علاوہ فلموں کی بھی مشہور نعتیں ریڈیو سے گاہے گاہے نشر ہوتی رہتی تھیں ۔ ان نعتوں میں آل انڈیا ریڈیو سے نشرہونے والی ایک نعت جو گلوکارہ شمشاد بیگم کی آواز میں تھی اور پاکستان میں بھی سب سے زیادہ سنی جاتی تھی جس کے بول تھے:
پیغام صبا لائی ہے گلزار نبیؐ سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبیؐ سے
شمشاد بیگم کی سریلی اورکھنک دار آواز نے اس روح پرور نعت کے ذریعے لاکھوں دلوں کو منورکیا ہوا تھا، یہ نعت جیسے ہی آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوئی اور میری والدہ کے کانوں میں اس کی آواز کہیں سے آتی تو وہ فوراً مجھے پکارتیں۔ ارے یونس! دیکھ تو یہ نعت کس ریڈیو سے آرہی ہے یہ فوراً ہمارے ریڈیو میں بھی لگا دے۔اور میں فوراً ہی ان کے حکم کی تعمیل کرتا تھا۔ انھیں شمشاد بیگم کی آواز میں یہ نعت بہت زیادہ پسند تھی اور وہ یہ نعت سنتے ہوئے کبھی کبھی تو رونے بھی لگتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے بڑے بڑے گلوکار اورگلوکارائیں بڑے شوق سے نعتیں ریکارڈ کراتی تھیں اور بڑے خشوع وخضوع سے گاتی تھیں اورخاص طور پر ماہ رمضان میں تو ان نعتوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی تھی۔ جیسے نامورگلوکار محمد رفیع کی آواز میں گائی ہوئی ان دنوں اس نعت کی بڑی دھوم تھی۔
اگر کملی والے کی رحمت نہ ہوتی
تو قسمت کے ماروں کا کیا حال ہوتا
رسول خدا کا سہارا نہ ملتا
تو ہم بے سہاروں کا کیا حال ہوتا
یا پھر محمد رفیع کی ایک اور نعت جس کے بول تھے:
اگر مل گئی مجھ کو راہ مدینہ
محمدؐ کا نقش قدم چوم لوں گا
یا پھر لتا منگیشکر کی آواز میں یہ نعت بھی اکثروبیشتر آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوتی تھی۔
دل کی کشتی بھنور میں آئی ہے
کملی والے تیری دہائی ہے
یا پھر فلم ''مغل اعظم'' کی یہ مقبول ترین نعت جو لاکھوں دلوں میں گھر کرچکی تھی۔
بیکس پہ کرم کیجیے سرکار مدینہ
گردش میں ہے تقدیر بھنور میں ہے سفینہ
اس زمانے میں ہندوستان اور پاکستان میں نہ مذہبی جماعتوں کی بہتات تھی اور نہ ہی دلوں میں اتنا تعصب تھا جو آج کے دور میں دونوں ملکوں میں نظر آتا ہے۔ پاکستانی گلوکار جتنی محبت سے نعتیں گاتے تھے اتنی ہی محبت سے ہندوستان کے گلوکار بھی نعتیں گا کر روحانی سکون حاصل کیا کرتے تھے۔ اب میں پھر گلوکارہ شمشاد بیگم کی طرف آتا ہوں جس کی ایک نعت نے اس کی شہرت کو آسمان تک پہنچا دیا تھا۔
شمشاد بیگم کی گائیکی میں قدرتی حسن تھا اور گلے میں جو سُروں کا رچاؤ تھا وہ بھی اللہ کی دین تھا۔ شمشاد بیگم نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم کسی سے بھی حاصل نہیں کی تھی۔ شمشاد بیگم کا تعلق لاہور سے تھا اس کے والد کا نام میاں حسین بخش تھا اس کا گھرانہ انتہائی مذہبی گھرانا تھا اور شمشاد بیگم کے گھر میں اس زمانے میں پردے کا سختی سے رواج تھا۔ جب شمشاد بیگم کی عمر دس سال کی تھی اور یہ اسکول میں پڑھتی تھی تو سہیلیوں میں اس کی خوبصورت آوازکے چرچے ہونے لگے تھے جب اس کی آواز کی تعریف اس کے اسکول کی پرنسپل تک پہنچی تو پرنسپل نے اسے اپنے کمرے میں بلا کر بطور خاص سنا تو وہ بھی بڑی متاثر ہوئی تھیں اور پھر انھوں نے اسکول Prayers میں شمشاد بیگم کو لیڈ کرنے کے لیے منتخب کرلیا۔
بلکہ اسکول میں پراتھنا کے موقعے پر بھی شمشاد بیگم کی آواز کو نمایاں رکھا جاتا تھا۔ جب یہ ذرا بڑی ہوئی تو اس کے ماموں اس کے والد کو بتائے بغیر اسے ایک ریکارڈنگ کمپنی میں لے گئے جب وہاں اس کی آواز کو سنا گیا تو پہلے ہی مرحلے میں اسے منتخب کرلیا گیا تھا، یہ 1933 کا زمانہ تھا۔ جب اس کی گائیکی پہلی بار منظر عام پر آئی تھی۔ فلموں میں اس کو شہرت اے آرکاردار کی فلم ''درد'' سے سب سے زیادہ شہرت ملی اور اس میں گایا ہوا ایک گیت جو نعتیہ انداز میں ہی تھا اور کورس کے انداز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ سارے برصغیر میں بڑا مشہور ہوا تھا۔ جس کے بول تھے۔
ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنادیں گے
ہر دل میں محبت کی اک آگ لگادیں گے
سرکار دو عالم کی امت پہ ستم کیوں ہو
اللہ کے بندوں کو منجدھارکا غم کیوں ہو
اسلام کی کشتی کو ہم پار لگادیں گے
نوشاد کی موسیقی میں یہ گیت شکیل بدایونی کا لکھا ہوا تھا۔ جس گلوکارہ نے 1933 میں لاہور ریڈیو اسٹیشن سے اپنی گلوکاری کا آغاز کیا تھا وہ اب بمبئی فلم انڈسٹری کی ٹاپ کی گلوکارہ بن چکی تھی۔ اس کے ابتدائی گیتوں میں جس گیت کو بہت زیادہ شہرت ملی تھی وہ قوالی کے انداز میں تھا اور جس کے بول تھے۔
تری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے
گھڑی بھر کو ترے نزدیک آکر ہم بھی دیکھیں گے
شمشاد بیگم کو فلمی دنیا میں بطور گلوکارہ آنے کے لیے بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا گھر والوں کی طرف سے یہ پابندی لگائی گئی تھی کہ شمشاد بیگم کی کوئی تصویر کہیں شایع نہیں ہوگی۔ یہ کسی فلمی تقریب میں حصہ نہیں لے گی۔
یہ کسی بھی اخبار کو کوئی انٹرویو نہیں دے گی۔ اتنی پابندیوں کے باوجود شمشاد بیگم کی شہرت بڑھتی چلی جا رہی تھی جو لوگ اپنی پی آر کی وجہ سے فلموں میں اپنی جگہ بنانے کے لیے ہمہ وقت مصروف رہتے تھے مگر پھر بھی انھیں شہرت نصیب نہیں ہوئی تھی مگر شہرت تو جیسے شمشاد بیگم کی کنیز ہوگئی تھی۔ فلم ''دور'' کے بعد نامور موسیقاروں نے شمشاد بیگم کے گھر کے چکر لگانے شروع کردیے تھے اور اس کے مقبول گیتوں کی ایک آبشار تھی جو منظر عام پر آرہی تھی اور شمشاد بیگم کے سپر ہٹ گیت بارش کی طرح برس رہے تھے۔ ذیل میں صرف چند ہی مقبول ترین گیتوں کے مکھڑے درج کیے جا رہے ہیں۔
میرے پیا گئے رنگون وہاں سے کیا ہے ٹیلی فون' تمہاری یاد ستاتی ہے
سیاں دل میں آنا رے آکے پھر نہ جانا رے' چھم چھما چھم چھم
بوجھ مرا کیا نام رے ندی کنارے گاؤں کے' پیپل جھومے مورے انگنا ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں رے
ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا' افسانہ میرا بن گیا افسانہ کسی کا
کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ' جینے دو ظالم بناؤ نہ دیوانہ
لے کے پہلا پہلا پیار' بھر کے آنکھوں میں خمار' جادو نگری سے آیا ہے کوئی جادوگر
اور پھر جب موسیقار اوپی نیئر منظر عام پر آئے اور انھیں فلمساز گرودت کی فلم ''آر پار'' ملی تو اوپی نیئر نے بھی شمشاد بیگم ہی سے فلم ''آر پار'' کے لیے جو گیت گوایا وہ اتنا مشہور ہوا کہ فلم کی کامیابی کی ضمانت بن گیا، گیت کے بول تھے:
کبھی آرکبھی پار لاگا تیر نظر
سیاں گھائل کیا رے تو نے مورا جگر
پھر تو شہرت شمشاد بیگم کے پیروں میں بچھی بچھی پھرتی تھی، ہر نامور موسیقار شمشاد بیگم کی کھنک دار اور سریلی آواز کا دیوانہ تھا شمشاد بیگم نے اپنی شہرت کا ایک شاندار دور بڑی کامیابی سے گزارا تھا پھر ایک وکیل سے محبت کے بعد شادی کرلی مگر بدقسمتی سے اس کا شوہر ایک حادثے میں ہلاک ہوگیا یہ حادثہ اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ وہ فلمی دنیا سے دور ہوتی چلی گئی۔ پھر مسلسل بیمار رہنے لگی اور 23 اپریل 2013 میں چورانوے سال کی عمر پاکر اس دنیا کو بے شمار سریلے گیتوں کی سوغات دے کر رخصت ہوگئی۔