یہ مسلمان لوٹ نہ آئیں
میں نے جب سے اخباری رپورٹنگ چھوڑی ہے میں گویا بے علم اور ایک عام پاکستانی سے بہت دور ہو گیا ہوں
میں نے جب سے اخباری رپورٹنگ چھوڑی ہے میں گویا بے علم اور ایک عام پاکستانی سے بہت دور ہو گیا ہوں جب کہ بطور رپورٹر مجھے میاں بیوی کے تعلقات تک کا بھی علم ہوتا تھا کہ وہ اب کس حال میں ہیں اور میرے لیے خبر کا سورس بن سکتے ہیں یا نہیں یہ سیاسی میاں بیوی کا حوالہ ہے اور انھیں میرے جیسے رپورٹر سے یہ توقع ہوتی تھی کہ وہ بوقت ضرورت بیچ بچاؤ کرا سکتا ہے اور خودغرض رشتہ داروں اور دوستوں سے بچا سکتا ہے کیونکہ خود اس کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہوتا تھا اور اپنے 'سورس' کی سلامتی کے لیے خلوص نیت کے ساتھ کوشش کرتا تھا۔
ایک اخباری رپورٹر زندگی کے کئی شعبوں میں گھل مل جاتا ہے اور اگر اس میں اپنے پیشے سے دیانت کا احساس ہے تو وہ ایک جہاندیدہ فرد بن کر خدمت کر سکتا ہے اور کسی بھی شعبے میں وہ ایک غیرجانبدار دوست کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ اس طرح کسی رپورٹر کو باہر سے بہت کچھ مل جاتا تھا لیکن جو شخص اخباری رپورٹنگ سے بوجوہ الگ ہو گیا ہے وہ زمین کی خدمت سے دور چلا جاتا ہے چنانچہ میں ان دنوں عدلیہ کے فیصلوں اور ریمارکس کو بہت غور کے ساتھ سنتا دیکھتا ہوں کیونکہ عدالتیں اس گئے گزرے وقت میں بھی ہماری رہنمائی کرتی ہیں اور ہمیں بھٹکنے نہیں دیتیں۔
یہ تمہید میں نے سپریم کورٹ کے ایک محترم جج کے ریمارکس پڑھ کر باندھی ہے کہ آپ بھی عدالت عظمیٰ کے جج صاحب کے ریمارکس سے ہدایت حاصل کریں اور یہ دیکھیں کہ جج صاحب نے ہمارے اصل مرض کی نشاندہی کی ہے۔ سپریم کورٹ کے محترم جج جسٹس دوست محمد نے ایک مقدمے میں کہا ہے کہ روزہ داروں کا حق کھایا جا رہا ہے اور ان کا حق کوئی بھی معاف نہیں کر سکتا جب کہ وہ سڑکوں پر بیٹھ کر افطار کرنے پر مجبور ہیں۔ جج صاحب نے کہا ہے کہ بندوں کے حقوق معاف کرنے کا اختیار اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے پاس نہیں رکھا۔ روزہ داروں کا حق کھایا جا رہا ہے۔ ہم ایک گنہگار قوم بن رہے ہیں صدق دل سے توبہ کریں تو سارے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔
ہماری ملکی اور قومی صورتحال یہ ہے کہ ہم ایک حق تلف قوم بن گئے ہیں اور دوسرے کا حق مارنے پر ہر وقت تیار رہتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کے ساتھ ہمیں خوشحالی کے تمام وسائل بھی عطا کر دیے ہیں۔ ہم اگر ان وسائل کو دیانتداری کے ساتھ استعمال کریں تو ان میں مزید برکت پڑ جاتی ہے۔ یہی دیکھئے کہ اس سال گندم کی فصل ہماری امیدوں سے بڑھ کر ہوئی ہے پیداوار اتنی بڑھی ہے کہ کاشتکاروں کے گھر اور منڈیاں بھر گئی ہیں اور گندم کے خریداروں کی تلاش ہے۔
یہی حال ہماری ہر ضرورت کا ہے جو ہماری ضرورت سے وافر ہے اور اب تو ہم نہ صرف قومی زرعی پیداوار میں خودکفیل ہیں بلکہ ہمارے ذہین سائنس دانوں نے اپنی حب الوطنی کی لاج رکھی اور ہم اب ایک ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ اب دنیا کی ہر طاقت ہم سے بات کرتے ہوئے سنبھل جاتی ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ پاکستان صرف ضرورت کا بم ہی نہیں رکھتا اس کے پاس دنیا کی بہترین فوج بھی ہے۔ پاکستان کا جانباز سپاہی اور ایٹم بم کا مالک جوان کون اس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ بس خدا ہمیں اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق دے جو ہمیں اس دنیا میں ممتاز قوم بنا رہی ہے۔
اب بھارت ہو یا ہمارا کوئی اور مہربان یہ سب ہمیں جانتے ہیں اور عقلمندی سے بات کرتے یا معاملہ کرتے ہیں کیونکہ ہم کوئی عام سے لوگ نہیں ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں ان میں سائنس دان بھی ہیں، کاشتکار بھی ہیں اور سب ایک کامیاب قوم کے فرد ہیں جس کے پاس دنیا کے تمام ضروری وسائل موجود ہیں اور وہ ان وسائل کو استعمال کرنا بھی جانتی ہے۔ بہرکیف ہم اسی بھری دنیا میں رہتے ہیں جہاں امریکا جیسی ایک سپرپاور ہے جو ہمارے دشمنوں کی سرپرست ہے اور ہمیں اس سے خبردار رہ کر وقت گزارنا ہے لیکن شکر ہے کہ ہم بحیثیت ایک قوم کے کسی سے کمتر نہیں ہیں۔
امریکا ہو یا کوئی اور بڑی طاقت وہ ہمارے دشمنوں کی سرپرست بھی بن سکتی ہے اور خود بھی دشمنی پر اتر سکتی ہے لیکن ہمارے ہاں اصل سوال ہماری سیاسی قیادت کا ہے اگر ہمیں ایک باغیرت اور باہمت قیادت بھی حکومت کے تحت ملے تو ہم کسی سے بھی کمتر نہیں ہیں لیکن لازم ہے کہ ہم اپنے ملک کے اندر اپنے شہریوں کی زندگی میں مساوات اور معاشی ہمواری کو قائم کریں۔
اگر ہم اپنی قوم میں مساوات اور اتحاد کا جذبہ پیدا نہ کر سکے تو پھر کوئی بھی ہم سے بہتر اور طاقتور ہے لیکن اگر ہم ایک خوش و خرم اور مطمئن قوم ہیں تو پھر کون ہے جو ہماری طرف بری نظر سے دیکھ سکے۔ یہ دشمنی اور طاقت کی باتیں میں ان دنوں بہت کر رہا ہوں کیونکہ میری معلومات کے مطابق اسلامی پاکستان کے خلاف گہری سازشیں کی جا رہی ہیں اور یہ سازشیں صرف ہمارے خطے تک محدود نہیں ہیں بلکہ عالمی سطح پر خصوصاً مغربی دنیا میں، وہاں کے لوگوں کو اسلام اور پاکستان برداشت نہیں ہے۔ نماز روزے پر بھی ناراضگی ظاہر کی جاتی ہے جو کسی شخص کی ذاتی زندگی کا حصہ ہے۔
اصل بات یہ کہ اسلام نے ایسے فرائض نافذ کر دیے ہیں جن کو چھپایا نہیں جا سکتا اگر ضرورت کے وقت پردہ داری جائز ہے لیکن یہ کسی کے ایمان کا معاملہ ہے۔ جو خبریں ملتی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں مسلمان اپنے آپ کو چھپانے کے قائل نہیں ہیں اگرچہ انھیں اس کے سخت نقصانات بھی اٹھانے پڑتے ہیں مگر وہ نہ جانے کس جذبے سے مغلوب ہو کر اسلامی فرائض کو علی الاعلان ادا کرتے ہیں اور اس پر مصر بھی ہیں۔ یہی وہ اسلام ہے جس سے مغربی دنیا پریشان ہے کیونکہ ماضی میں ان ہی مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی ہے اور وہ پھر بھی کبھی ایسا کر سکتے ہیں اور ان کی مغلوب یہی مغربی دنیا ہو گی۔