پیاس کہتی ہے کہ اب ریت نچوڑی جائے
اب سے پانچ دہائی قبل ہمارے آباء نے کب یہ سوچا ہوگا کہ ملک میں عام آدمی کے لیے پانی عنقا ہوجائے گا
LONDON:
اب سے پانچ دہائی قبل ہمارے آباء نے کب یہ سوچا ہوگا کہ ملک میں عام آدمی کے لیے پانی عنقا ہوجائے گا، ان کی اولاد پانی کی تلاش میں سرگرداں پھرے گی، پانی ایک قیمتی ضرورت بن کر پلاسٹک کی چھوٹی بڑی بوتلوں میں مہنگے داموں فروخت ہوگا، یہ ایک وسیع منافع بخش کاروبار بن جائے گا، عام آدمی میٹرو بس میں سفر کریں گے لیکن پینے کو پانی نہ ہوگا، وزراء و مشیر لندن اور دبئی کے پرتعیش گھروں کے مالک ہوں گے، ان کی آل اولاد گھنٹوں سوئمنگ پول میں تیراکی کے مزے لے گی اور عوام کو پیاس بجھانے کے لیے پانی کی تلاش میں ریت نچوڑنی پڑجائے گی۔
اس وقت سخت گرمیوں کا موسم ہے، کراچی میں پانی کی قلت نے کربلا ڈھائی ہوئی ہے۔ سحری میں مسجدوں میں اذان کے بعد ہونے والے اعلان سے کہ مسجد میں پانی نہیں گھر سے وضو کرکے آئیں، سخت شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ مسجدوں میں وضو کے لیے پانی فراہم نہیں کرسکتے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ گرمیاں شروع ہونے کے بعد سے ہی کراچی میں پانی کا بحران شروع ہوگیا تھا۔
ایک جانب لوڈشیڈنگ نے زندگی عذاب بنائی ہوئی ہے تو دوسری طرف شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ پانی کی اس قدر قلت اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آئی، خواتین، بچے، بوڑھے، سبھی بالٹی، کین، کنستر اور ڈبے اٹھائے پانی کے لیے سرگرداں ہیں۔ پورے شہر کو ٹینکرمافیا کے حوالے کردیا گیا ہے۔ جن کے پاس استطاعت ہے وہ ٹینکر مافیا کو چار گنا زیادہ رقم ادا کرکے پانی خرید سکتے ہیں۔ وہ غریب کہاں جائیں جن کی گزر اوقات بمشکل ہوتی ہے۔
سرکار کہتی ہے ہم نے پانی چوری کرنے والوں کے خلاف مہم چلا رکھی ہے، جن علاقوں میں پانی نہیں آرہا وہاں ہم ٹینکر کے ذریعے پانی پہنچارہے ہیں۔ تو صاحب ایک دو ٹینکر سے پورے علاقے کی ضروریات کب پوری ہوسکتی ہیں؟ ہر ایک کے حصے میں تین چار بالٹی پانی کی آئے گی، اس قیامت خیز گرمی میں کیا یہ پورے خاندان کے لیے کافی ہوگا؟ اس سے کئی گنا زیادہ پانی آپ کے گارڈن کے استعمال کو بھی ناکافی ہوتا ہوگا پھر ایک خاندان کس طرح اس گرمی میں روزہ رکھ کر اس پر گزارا کرے گا اور کب تک یہ سلسلہ چلے گا اور یہ ٹینکر والوں کے پاس پانی کہاں سے آتا ہے، وہیں سے عوام کے لیے بھی پانی کی لائنیں لگوا دیجیے، دعائیں دیں گے۔
حکومت پانی کی بندش پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کو بھی الزام دھرتی ہے۔ ادھر کے الیکٹرک کا کہنا ہے بجلی کا بل ادا نہ کرنے پر یہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ واٹر بورڈ نے بجلی کے بل کے کروڑوں روپے کہاں غائب کردیے؟ کئی سال سے بجلی کا بل نہیں ادا ہوا، تو کیا کے الیکٹرک سو رہی تھی؟ ادھر گھریلو صارفین دو ماہ بجلی کا بل نہیں ادا کریں تو بجلی کاٹنے پہنچ جاتے ہیں، وہاں کروڑوں روپے ادا نہیں ہوئے کے الیکٹرک خواب غفلت میں رہی۔ اس سے آگے بہت سارے سوال ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے ایک رکن کے مطابق حکومت سندھ نے اب تک ترقیاتی اخراجات کی مد میں سوا ارب خرچ نہیں کیے، لہٰذا اگر ان سے واٹر بورڈ کے بجلی کے واجبات ادا کردیے جائیں تو ڈھائی کروڑ آبادی کے اس پانی کے بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مزید کہا گیا کہ آٹھ سال تک کے، کے فور والے چھ ارب روپے کہاں جارہے ہیں، اس کا حساب بھی دیا جائے۔ پچھلے دنوں پانی کی قلت کے مسئلے پر متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کراچی پریس کلب سے وزیراعلیٰ ہاؤس تک پیدل مارچ کیا گیا، احتجاجی دھرنا ہوا۔ فاروق ستار کہتے ہیں کہ کراچی جیسے شہر کو حکمرانوں نے کربلا بنادیا ہے، اگر پانی فراہم نہیں کیا گیا تو بعد میں سود سمیت لیں گے۔
دنیا کے ماہرین پانی کو سفید سونا سے تعبیر کرتے ہیں۔ آیندہ آنے والی جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔ متحدہ کا کہنا ہے ''کراچی میں پانی کا بحران ایک سازش کے تحت پیدا کیا گیا ہے، کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہوچکی ہے، شہر کی یومیہ پانی کی ضرورت 1100 ملین گیلن ہے، اسے روزانہ 650 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ کراچی کے عوام کا پانی بند کرنا سندھ حکومت کا کراچی سے دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارے وزیراعلیٰ ہمارے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نشتر چلارہے ہیں کہ ایم کیو ایم نے پانی کے مسئلے پر احتجاج کرکے اچھا نہیں کیا''۔
حکومتی بیانات، وجوہات، توجیہات سب خبروں کی زینت ہیں، اپوزیشن پارٹی عوام کے دکھ میں برابر شریک ہیں، ان کے ساتھ مل کر آئے دن سڑک بلاک کی جارہی ہے، پتھراؤ، ٹائر جلائے جارہے ہیں۔ پورے کراچی میں خواتین، بچے، بوڑھے کہیں نہ کہیں سراپا احتجاج ہیں۔ ان علاقوں میں اورنگی ٹاؤن، لیاقت آباد، نیپا، نارتھ کراچی، کورنگی، بلدیہ ٹاؤن، لیاری، پرانا گولیمار جیسے قدیم علاقے شامل ہیں، لیکن بات پھر بھی نہیں بن رہی۔ ذمے داروں کا نام لینے سے سب قاصر ہیں۔ کراچی کے عوام کہاں جائیں؟ ان کی بنیادی ضرورت ہی حکومت پوری کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ لیاری کے عوام کو بے وقوف بنا کر ڈیڑھ ارب کے واٹر پلانٹس چھ ارب میں لگا کر دس ملین گیلن پانی فراہم کیا گیا، جو اب بند ہے۔ پانی کی تقسیم کو منصفانہ بنایا جائے۔ غیر قانونی ہائیڈرنٹس اور ٹینکر مافیا کا خاتمہ کیا جائے۔
کراچی کے بعض علاقے تو لگتا ہے اب بھی قیام پاکستان سے قبل کی زندگی جی رہے ہیں، آئی آئی چندریگر روڈ جیسی شہر کی مصروف ترین شاہراہ پر آج بھی انگریزوں کے زمانے سے چلا آرہا (پکھالی سسٹم) نظام، چمڑے کے مشکیزے میں پانی بھر کر بیچا جاتا ہے۔ دنیا ڈسپنسر اور منرل واٹر تک آگئی ہے، ہم اب بھی گدھا گاڑی پر پانی کی ٹنکی چڑھائے کنستروں کے حساب سے پانی بیچ رہے ہیں۔ یہ ان علاقوں کا احوال ہے جہاں کراچی کے تمام بڑے آفس و دفاتر موجود ہیں اور کروڑوں کا روزانہ کاروبار ہوتا ہے، حکومت کو لاکھوں میں ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔ وہاں کے رہائشی تو اب اس کے عادی ہوچکے ہیں لیکن اب سے پانچ دہائی قبل گھروں میں لگے نلکوں سے ہاتھوں کے چلو میں پانی پینے والوں نے کب تصور کیا ہوگا کہ ان کی آل اولاد پانی کی تلاش میں اور پیاس کی خاطر ریت نچوڑے گی۔