قومی کرکٹ ٹیم کی مشکل مہم کا آغاز

پاکستان ٹیم ماضی میں انگلینڈ کے دوروں کے دوران کامیابیاں کم، رسوائیاں زیادہ سمیٹتی آئی ہے


Mian Asghar Saleemi June 19, 2016
ہمارے ملک کی طرح کرکٹ میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے، فوٹو: اے ایف پی

لاہور: پاکستان کرکٹ ٹیم 6سال کے طویل عرصہ کے بعد بلندو بانگ دعووں کے ساتھ انگلینڈ کے دورے پر روانہ تو ہو گئی ہے لیکن شائقین کو طرح طرح کے وسوسوں اور اندیشوں نے گھیر رکھا ہے کہ کہیں دورے کے دوران پھر کوئی نیا سانحہ رونما نہ ہو جائے اورسپاٹ فکسنگ یا میچ فکسنگ کا کوئی نیا تنازع ملکی کرکٹ کے درودیوار کو ہلا نہ کر رکھ دے۔

کرکٹ پرستاروں کے یہ وسوسے بلاوجہ بھی نہیں ہیں کیونکہ پاکستان ٹیم ماضی میں انگلینڈ کے دوروں کے دوران کامیابیاں کم، رسوائیاں زیادہ سمیٹتی آئی ہے، ٹیم کے 2010ء کے آخری ٹور کو ہی دیکھ لیں جس میں کپتان شاہد آفریدی کے انکار پر اس وقت کے چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ نے سلمان بٹ کو ٹیم کا نیا کپتان بنایا تو انہوں نے یہ گل کھلایا کہ اپنے ساتھ ٹیم کے 2اہم بولروں محمد عامر اور محمد آصف کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبے، جہاں تک پاکستان ٹیم کی کارکردگی کی بات ہے توسمجھ میں نہیں آتا کہ انگلینڈ جا کر قومی کھلاڑیوں کے ہاتھ پاؤں کیوں پھول جاتے ہیں، بیٹسمین بیٹنگ کرنا کیوں بھول جاتے ہیں اور نت نئے تنازعات کیوں رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ میں مجموعی طور پر46 ٹیسٹ میچوں میں شرکت کی لیکن صرف 9 میں ہی کامیابی سمیٹ سکی جبکہ20 میچز میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور گرین شرٹس کے اس ریکارڈ کو کسی طور بھی تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا، گو مصباح الحق پاکستان ٹیم کے وہ واحد کپتان ہیں جن کی کامیابیوں کا گراف سب سے زیادہ ہے، انہوں نے اپنے کپتانی کے 5برسوں میں عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم اور عبدالحفیظ کاردار جیسے بڑے کھلاڑیوں کے ریکارڈز کو پاش پاش کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں کامیاب ترین کپتان کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔

مڈل آرڈر بیٹسمین کا انگلینڈ کے خلاف ریکارڈ سب سے اچھا ہے اور ان کی قیادت میں ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف 6 ٹیسٹ میچوں میں حصہ لے کر 5میں کامیابی حاصل کی، ایک مقابلہ ڈرا رہا لیکن قارئین کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں کہ پاکستان نے یہ تمام کامیابیاں متحدہ عرب امارات میں حاصل کیں ہیں، مڈل آرڈر بیٹسمین کی کپتانی میں تو پاکستانی ٹیم پہلی بار گوروں کی سرزمین پر کھیلے گی، گو ٹیم منیجر انتخاب عالم کو انگلینڈ میں کھیلنے کا وسیع تجربہ ہے لیکن ان کی سربراہی میں بھی پاکستانی ٹیم انگلینڈ میں ایک بھی مقابلہ نہیں جیت سکی، ٹیم نے میزبان سائیڈ کے خلاف 6 ٹیسٹ میچز کھیلے، 5 ڈرا رہے جبکہ ایک میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، یہی حال چیف سلیکٹر انضمام الحق کا بھی ہے جن کی قیادت میں قومی ٹیم نے انگلینڈ میں 4 ٹیسٹ میچز کھیلے، 3 میں ناکامی کا سامنا رہا، اوول ٹیسٹ تنازع کی وجہ سے ملک کی بدنامی الگ سے ہوئی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کا ایک اور افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ماضی کی سرد جنگ کی وجہ سے کپتان اور چیف سلیکٹر بھی ایک پیج پر نظر نہیں آتے، انضمام الحق کی جانب سے انگلینڈ کے دورے میں مستقل اوپنر محمد حفیظ یا شان مسعود کی عدم دستیابی کی صورت میں نوجوان سمیع اسلم کی بجائے اظہرعلی سے اوپن کرانے کی دی گئی تجویز کی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے مخالفت کر دی ہے، انضمام الحق کاخیال ہے کہ سمیع اسلم ناتجربہ کاری کے باعث شاید انگلینڈ کی کنڈیشنزکا سامنا کرنے کے قابل نہ ہوں اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ اظہر علی کو اوپنر کے طور پر رکھا جائے، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ مصباح نے انضمام کو واضح طور پر کہا اگر چیف سلیکٹر کو سمیع اسلم کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ نہیں ہے تو انھیں اوپنر کے طور پر شامل نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر وہ منتخب ہو گئے تو نوجوان اوپنر کو انگلینڈ کے خلاف سیریز میں دہری ذمہ داریاں دی جائیں گی۔

فٹنس مسائل کے شکارمحمد حفیظ کا ٹیسٹ ٹیم میں انتخاب بھی معمہ بنا ہوا ہے، ماہرین حیران ہے کہ اوپنر نے نہ تو کاکول بوٹ کیمپ میں شرکت کی اور نہ ہی لاہور میں مختصر تربیتی کیمپ میں حصہ لیا لیکن اس کے باوجود ان کا نام حتمی سکواڈ میں شامل کیا گیا ہے، دورے کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم کی امیدوں کا محورمحمد عامر ہوں گے لیکن سپاٹ فکسنگ کا واقعہ منحوس سائے کی طرح ان کا پیچھا کرتا رہے گا، پی سی بی نے پیسر کو مشورہ دیا تھا کہ دورے کے دوران میڈیا سے دور رہیں اورسب کچھ بھول کر صرف کرکٹ پر توجہ دیں لیکن انہوں نے اپنے دورے کا آغاز ہی متنازعہ بیان سے کیا ہے۔

غیر ملکی ویب سائٹ کو انٹرویو میں ان کا کہنا ہے کہ کرکٹ میں کرپشن کی موجودگی کھلاڑی کے وقار کیلیے خطرناک ثابت ہو گی، اس لئے ایسے کھلاڑی کو تاحیات پابندی کی سزا ہونی چاہیے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کا جرم تو انہوں نے خود بھی کیا ہے، ملک وقوم کا سر شرم سے جھکانے کے اعتراف میں خود بخود کرکٹ کے کھیل سے علیحدگی کیوں نہ اختیار کی، انٹرنیشنل کرکٹ میں دوبارہ واپسی کیلیے کیوں آئی سی سی اور پی سی بی کی منت سماجت کرتے رہے۔ وقار یونس کی جگہ سنبھالنے والے نئے غیر ملکی ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے کاکول ملٹری اکیڈمی میں کھلاڑیوں کو ٹریننگ کروائی اور نہ ہی وہ لاہور میں شیڈول کیمپ کے موقع پر موجود تھے، وہ کھلاڑیوں کی خوبیوں، خامیوں اور ان کی نفسیات سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں ہے، ایسے میں پاکستانی ٹیم کا انگلینڈ میں اچھا کھیل جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔

اگر دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی ٹیسٹ سیریز کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو انگلینڈ کا پلڑا خاصا بھاری دکھائی آتا ہے،1954 سے 2015 تک کے درمیان پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیموں کے درمیان 77 میچز کھیلے گئے، پاکستان نے 18 میچوں میں کامیابی حاصل کی جبکہ 22 میں اسے ناکامی کا سامنا رہا، جبکہ37 مقابلے برابر رہے،دونوں ملکوں کے درمیان پہلی ٹیسٹ سیریز1954ء میں انگلینڈ میں ہوئی، 4ٹیسٹ میچوں پر مشتمل 2 مقابلے برابری کی سطح پر ختم ہوئے تاہم 12 تا 17 اگست تک اوول میں شیڈول ٹیسٹ میںعبدالحفیظ کاردار کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم پہلی بار انگلینڈ کو اسی کی سرزمین پر 24 رنز سے زیر کرنے میں کامیاب رہی۔1961-62میں انگلینڈ نے پاکستان کا پہلی بار دورئہ کیا اور 3 ٹیسٹ میچوں کی یہ سیریز مہمان ٹیم 1-0 سے اپنے نام کرنے میں کامیاب رہی۔

1962 میں پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کا جوابی دورئہ کیا اور 5 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں پاکستان کو 4-0 سے بدترین ناکامی کا سامنا رہا۔1967 میں پاکستانی ٹیم ایک بار پھر انگلینڈ گئی اور 3 میچوں کی سیریز 2-0 سے ہار گئی،1968 میں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان آئی اور لاہور، ڈھاکہ اور کراچی میں شیڈول تینوں میچز برابر رہے۔1971 میں انگلینڈ میں ہی 3میچز کھیلے گئے، 2مقابلے برابر ہوئے جبکہ تیسرے میچ میں انگلینڈ نے پاکستان کو 25 رنز سے زیر کیا۔1973 میں انگلینڈ نے پاکستان کا دورہ کیا، لاہور، حیدر آباد اور کراچی میں شیڈول تینوں میچز ایک بار پھر ڈرا رہے۔1974 میں پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کا دورئہ کیا اور 3 میچوں کی سیریز برابر رہی۔

1977-78میں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان آئی اور لاہور، حیدر آباد اور کراچی میں ہونے والے یہ ٹیسٹ بھی برابر رہے۔1978 میں پاکستان ٹیم نے انگلینڈ کا دورئہ کیا اور ابتدائی 2ٹیسٹ ہارنے کے بعد تیسرے میچ مشکل سے ڈرا کرنے میں کامیاب رہی، لارڈ ٹیسٹ میں تو گرین شرٹس کو اننگز اور120 رنز کی شکست کا سامنا رہا۔1982میں پاکستانی ٹیم نے ایک بار پھر انگلینڈ کا دورئہ کیا اور پاکستانی ٹیم لارڈز میں انگلینڈ کی ٹیم کو 10 رنز سے ہرانے میں کامیاب رہی تاہم لیڈز ٹیسٹ جیت کر انگلینڈ نے سیریز 2-1 سے جیت لی۔1984کو انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کھیلنے کے لئے آئی، کراچی ٹیسٹ میں پاکستان نے 3 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی، یہ انگلینڈ کی سرزمین پر پاکستان کی میزبان ٹیم کے خلاف پہلی فتح تھی۔

1987 میں پاکستانی ٹیم انگلینڈ کے دورے پر گئی اور عمران خان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم پہلی بار انگلینڈ کو اسی کی سرزمین پر زیر کرنے میں کامیاب رہی،2 تا 6جولائی میں لیڈز میں ہونے والے ٹیسٹ میں پاکستان نے اننگز اور18 رنز سے کامیابی حاصل کی، سیریز کے باقی4میچ ڈرا رہے، ٹیسٹ میں کپتان عمران خان نے دونوں اننگز میں 10 وکٹ حاصل کئے۔1987 میں ہی انگلینڈ کی ٹیم پاکستان آئی اور لاہور ٹیسٹ میں مہمان ٹیم کو اننگز اور87 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جاوید میانداد ٹیم کے کپتان تھے۔1992 میں پاکستان کی ٹیم انگلینڈ گئی اور پہلی بار پاکستان نے انگلش ٹیم کے خلاف 2 ٹیسٹ میچوں میں کامیابی حاصل کی۔

سیریز کا نتیجہ2-1 رہا، 2 مقابلے برابر رہے۔ اسی ٹیم کے کپتان بھی جاوید میانداد تھے۔1996 میں پاکستان نے انگلینڈ میں میزبان ٹیم کے خلاف 3ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں 2-0 سے کامیابی حاصل کی، وسیم اکرم ٹیم کے کپتان تھے۔ 2001 ء میں انگلینڈ نے پاکستان کو اسی کی سرزمین پر شکست دے کر سیریز 1-0 سے جیتی، 2 میچز ڈرا رہے،معین خان ٹیم کے کپتان تھے۔2001میں ہی پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کا جوابی دورئہ کیا اور سیریز ایک، ایک سے برابر رہی۔ وقار یونس کپتان تھے۔ 2005 میں انگلینڈ نے پاکستان کا دورئہ کیا اور پاکستان نے تین ٹیسٹ میچوں کی یہ سیریز 2-0 سے جیتی۔ انضمام الحق ٹیم کے کپتان تھے۔

2006میں پاکستان نے انگلینڈ کو دورئہ کیا اور 4 میچوں کی سیریز میں پاکستان کو 3-0 سے شکست کا سامنا رہا۔ اسی ٹیم کے کپتان بھی انضمام الحق تھے۔2010 میں پاکستان نے آخری بار انگلینڈ کا دورئہ کیا اور پاکستان ٹیم کو سپاٹ فکسنگ سکینڈل سمیت میزبان ٹیم کے ہاتھوں 4ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں 3-1 سے شکست کا سامنا رہا۔ پاکستان نے واحد ٹیسٹ سلمان بٹ کی قیادت میں جیتا، ٹیم کے کپتان سلمان بٹ تھے۔ سانحہ لبرٹی کی وجہ سے پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان پہلی بار دونوں ٹیمیں نیوٹرل مقام یو اے ای میں آمنے سامنے ہوئیں، 2011-12 میں شیڈول سیریز میں پاکستان نے 3 میچوں کی سیریز 3-0 سے اپنے نام کی۔ مصباح الحق ٹیم کے کپتان تھے۔2015میں دونوں ٹیمیں یو اے ای میں ایک بار پھر آمنے سامنے ہوئیں اور3ٹیسٹ میچوں کی سیریز پاکستان نے 2-0 سے جیتی۔

ہمارے ملک کی طرح کرکٹ میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے، ایسی کسی مشکل صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے شائقینِ کرکٹ اور قومی ٹیم کے چاہنے والے ذرا دل تھام کے بیٹھیں کیونکہ کرکٹ ایسا کھیل ہے جو ہنساتا کم اور رلاتا زیادہ ہے اور جب بات پاکستانی ٹیم کی ہو تو رونے رلانے اور آنسو بہانے کے امکانات اور بھی بڑھ جاتے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ دورئہ انگلینڈ کے دوران مصباح الحق الیون شائقین کو زیادہ ہنساتی ہے یا رلاتی، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں