احسان فراموش افغانی

پشاور سے ایک افغانی باباجی اپنی اہلیہ کے ہمراہ طورخم کے راستے افغانستان جا رہے تھے


امجد عزیز ملک June 20, 2016

پشاور سے ایک افغانی باباجی اپنی اہلیہ کے ہمراہ طورخم کے راستے افغانستان جا رہے تھے،طورخم بارڈر کراس کرنے کے بعد انھیں کسی مسافر گاڑی کی تلاش تھی کہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہو سکیں،اتنے میں ایک پاکستانی نوجوان نے میاں بیوی کی پریشانی بھانپ لی اسے ٹیکسی میں کابل جانا تھا،اس نے دونوں کو پیشکش کی اور اپنے ہمراہ گاڑی میں سوار کر لیا، اس کا خیال تھا کہ ویسے بھی اسے اکیلے جانا ہے اگر دو بزرگ بیٹھ جائیں تو اسے دعائیں ہی ملیں گی۔

ابھی گاڑی تھوڑی دیر ہی چلی تھی کہ بزرگ نے پاکستان اور پاکستانیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ڈرائیور نے دری زبان میں بزرگ کو کہا کہ تمھیں گاڑی میں اپنے ہمراہ مفت کابل لے جانے والا بھی پاکستانی ہے، سنبھل کر بات کریں لیکن بزرگ باز نہ آیا ،اتنے میں پاکستانی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، اس نے گردن موڑی اور پیچھے بزرگ کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوئے کہ بابا جی کہاں سے آ رہے ہیں ؟بابا جی بولے کہ حیات آباد میں واقع ایک اسپتال گیا تھا؟ پاکستانی نے پوچھا کہ علاج کیسا ہوا؟بابا جی بولے بہترین علاج ہوا؟ پوچھا کہ کھانا کہاں کھایا؟

جواب ملا کہ پشاور میں ہی کھایا تھا۔سوال کیا کہ کیا پولیس والوں نے تنگ کیا؟ بولے نہیں ۔کیا ڈاکٹروں نے زیادہ پیسے لیے ؟ جواب ملا نہیں بس اتنے ہی لیے جتنے پاکستانیوں سے لیتے ہیں۔اب طبیعت کیسی ہے؟ اس سوال کے جواب میں بابا جی بولے کہ بہت بہتر ہوں۔تو پھر کیوں پاکستان کو برا بھلا کہہ رہے ہو ؟کہنے لگے میں تو ویسے ہی بات کر رہا تھا۔پاکستانی نے قدرے سختی سے کہا کہ بابا جی ابھی پاکستان میں کھایا گیا کھانا ہضم نہیں ہوا اور تم پاکستان سے اس قدر نفرت کا اظہار کر رہے ہو خدا کا خوف کرو پھر بابا جی کابل تک کچھ نہیں بولے۔

افغانستان میں طویل عرصے سے مقیم ایک پاکستانی دوست جن کا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں یہ واقعہ سناتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے ،وہ پاک افغان بارڈر طورخم پر دستاویزات کے بغیر آمدورفت پر پابندی پر بہت خوش تھے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے افغان مہاجرین کی جس قدر خدمت کی اور انھیں اپنے دلوں میں جگہ دی لیکن انھوں نے ہمیں کبھی اپنا نہیں سمجھا ۔انھوں نے مزید بہت سے واقعات سنائے جن سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہ تھا کہ سارے نہیں تو اکثر افغانی پاکستانیوں سے نفرت کرتے ہیں اور نفرت بھی ایسی کہ پاکستان کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔

ایک اوردوست بھی بڑے جذباتی ہو گئے، کہنے لگے کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ افغانستان میں چند عرصہ قبل تک مختلف اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں میں نو ہزار کے لگ بھگ پاکستانی ملازمتیں کر رہے تھے لیکن ان کی تعداد چند سو میں رہ گئی ہے کیونکہ افغانی اب پاکستانیوں کو برداشت نہیں کر پا رہے، وہ بھول گئے ہیں کہ بے سر و سامانی کے عالم میں انھی پاکستانیوں نے انھیں جینے کی امنگ دی تھی یہ وہی پشاوری اور پٹھان ہیں جنہوں نے اپنے گھر مہاجرین کو دے دیے ۔

ان کا اپنوں سے بڑھ کر خیال رکھا،کاش انھیں مہاجر کیمپوں میں رکھا جاتا جس طرح ایران نے کیا تو تب انھیں پاکستان اور پاکستانیوں کی قدر آتی!دوست مزید گویا ہوئے کیا آپ کو پتہ ہے کہ کابل کی جیلوں میں ہزاروں پاکستانی کیوں قید ہیں ؟ صرف اس لیے کہ ان کے پاس ویزہ نہ تھا اور ویزہ نہ ہونے کی وجہ سے انھیں جیلوں میں ڈال دیا گیا! بہت اچھا ہوا کہ اب افغانی بھی پاسپورٹ بنائینگے اور ویزہ لے کر پاکستان جائینگے اور یہ بھی بڑی اچھی بات ہے کہ پاکستانی بھی ویزہ لے کر افغانستان آئیں تاکہ انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تو نہ جانا پڑے!دوست مزید کہنے لگے کہ ایک پاکستانی بینک کی ہی مثال لے لیںافغانی پاکستانی بینک کے ساتھ کاروبار کرنا بھی بہتر نہیں سمجھتے ۔افغان اسٹیٹ بینک نے قواعد و ضوابط اس قدر سخت کر دیے ہیں کہ پاکستانی بینک ممکن ہے مستقبل میں خسارہ کا شکار ہو جائے۔دکھ تو اس بات کا بھی ہے کہ بغیر رشوت دیے بینک اہلکاروں کے ویزوں کی میعاد بھی نہیں بڑھائی جاتی اور انھیں خاصا تنگ کیا جاتا ہے جب کہ ویزے کی میعاد بڑھانے کی اچھی خاصی رقم لی جاتی ہے۔

انھوں نے کئی ڈاکٹروں کے قصے بھی سنائے جنھیں مجبور ہو کر افغانستان چھوڑنا پڑاالبتہ چند افغانی پختون ایسے بھی ہیں جو پاکستانی پختونوں سے محبت رکھتے ہیں ان کے خیال میں دونوں اطراف کے پختون افغان ہیں اس حوالے سے ان کے دلوں میں تھوڑی سی ہمدردی ضرور ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ پختون ولی سے زیادہ ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کرنے کی ضرورت ہے تو یہ بیجا نہ ہو گا۔یقینا افغانستان سے پاکستان میں آکرآباد ہونیوالے خود کو افغان قرار دیتے ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن جو افغانستان میں رہتے ہیں وہ بلاشبہ افغان قرار پائینگے لیکن پاکستان میں رہنے والے افغان اب پاکستانی ہیں انھیں پاکستان کی عزت و وقار کو مقدم رکھنا ہو گا۔

میں نے دوستوں سے پوچھا کہ پاکستان کے سفارت کار پاکستانیوں کی کوئی مدد نہیں کرتے؟ اس سوال کے جواب میں بھی انھوں نے لمبی تقریر جھاڑ دی کہ اگر کوئی پاکستانی اپنا مسئلہ لے کر پاکستانی سفارت خانے چلا جائے تو اسے افغانستان کی خفیہ ایجنسی والے اٹھا لیتے ہیں انھیں بہت تنگ کیا جاتا ہے اس لیے پاکستانیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے نہ ہی جائیں تو بہتر ہے۔

کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کو یاد ہو گا کہ گذشتہ دنوں افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی کی عالمی فاتح ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم کو بھی شکست سے دوچار کیا ۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی خواہش تھی کہ افغانستان کرکٹ ٹیم کو دورہ پاکستان کی دعوت دی جائے لیکن افغان کرکٹ بورڈ نے سکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان ٹیم بھجوانے سے معذرت کر لی اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ افغانستان ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کو پشاور کے مختلف کلبوں کی جانب سے کھیلنے سے بھی منع کر دیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ افغان ٹیم میں شامل انھی کھلاڑیوں نے عمدہ کارکردگی دکھائی جو پشاور میں پیدا ہوئے اور پشاور کے مقامی کلبوں سے کھیلتے ہوئے انھوں نے افغان ٹیم کی نمایندگی کا اعزاز حاصل کیا اور پھر افغان ٹیم کو کامیابیوں سے ہمکنار کیا۔اگرچہ افغان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نسیم دانش کا کہنا ہے کہ انھوں نے کھلاڑیوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں کی لیکن سچ یہی ہے کہ آجکل افغان ٹیم میں شامل کھلاڑی پشاور میں نہیں کھیل رہے۔

یہ چند جھلکیاں تھیں جس سے یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستانیوں کی افغانستان میں کتنی اہمیت ہے؟ اس قسم کے واقعات کی فہرست خاصی طویل ہے مگر پاک افغان سرحد پر باڑ لگے یا نہیں! گیٹ بنے یا نہیں!حکومت پاکستان کو اب افغان مہاجرین کو انتہائی عزت و احترام کے ساتھ واپس افغانستان بھیجنے کے انتظامات شروع کر دینے چاہئیں کیونکہ افغانستان سے امریکی فوجیں اس لیے واپس جا رہی ہیں کہ وہاں امن قائم ہو گیا ہے اور صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ خود یہ مانتے ہیں کہ افغانستان اب ایک پر امن ملک ہے تو ہمارے بہت ہی پیارے افغان بھائیوں اور بہنوں کو اپنے ملک واپس جا کر معیشت کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت افغانستان کو بیرون ملک بسنے والے اپنے شہریوں کی اشد ضرورت بھی ہے۔بھلے وہ ہمارا احسان مانیں یا نہ مانیںہماری دعا ہو گی کہ وہ اپنے وطن میں خوش و خرم رہیں بس ہمیں اب معاف کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔