ماہ رمضان میں مہنگائی۔۔۔۔۔۔ حکومت کو ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے

حکومتی، سیاسی و سماجی شخصیات کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ کوئٹہ میں گفتگو


حکومتی، سیاسی و سماجی شخصیات کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ کوئٹہ میں گفتگو ۔ فوٹو : بنارس خان

ماہ رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے اور اس ماہ مبارک میں دنیا بھرکے مسلمان اللہ کو راضی کرنے اور اپنے گناہ بخشوانے کے لیے عبادات کرتے ہیں اور اس کی مخلوق کی خدمت بھی کرتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اس ماہ مبارک کی آمد سے قبل سے ہی ہمارے معاشرے میں منافع خور اور ذخیرہ اندوز متحرک ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے اس مہینے میں اشیاء خورونوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں اور غریب کی پہنچ سے باہر ہوجاتی ہیں۔

اس عمل کی وجہ سے ماہ رمضان کا اصل مقصد ''مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی'' ختم ہوجاتا ہے اور رحمت کا یہ مہینہ عوام کے لیے زحمت بن جاتا ہے۔ مہنگائی، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں اورحکومت انہیں ریلیف دینے کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے اس بارے میں جاننے کے لیے '' ماہ رمضان میں اشیاء خورونوش کی قیمتوں'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' کوئٹہ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی، سیاسی و سماجی شخصیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

منیر احمد موسیانی
( اے سی صدر)
مہنگائی تو عام دنوں میں بھی ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں رمضان المبارک میں مہنگائی زیادہ کردی جاتی ہے جو اچھی بات نہیں ۔دوسرے ممالک کے لوگ اپنے تہواروں کے موقع پر قیمتوں میں کمی کردیتے ہیں جبکہ ہمارہے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے لہٰذا اس چیز کو کنٹرول کرناہماری ذمہ داری ہے۔اس سلسلے میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں جن کی روشنی میں خصوصی ٹیمیں بنائی گئی ہیں لہٰذا جو لوگ رمضان المبارک میں نرخنامے کی پابندی نہیں کرتے ہمیں ان کے خلاف کارروائی کرنا ہوتی ہے۔

اس حوالے سے ہمارے پاس دو طریقے ہیں، پہلا یہ کہ ہم فیلڈ میں جاتے ہیں اور جہاں ریٹس کی خلاف ورزی ہورہی ہو ہے ہم ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر آفس میں شکایت سیل کنٹرول روم بنایاگیا ہے جہاں لوگ شکایات اپنی درج کرواتے ہیں اور اس طرح جہاں سرکاری نرخنامے کی خلاف ورزی ہورہی ہے وہاں ٹارگٹڈ کارروائی کی جاتی ہے۔

گراں فروشوں کے خلاف کارروائی کیلئے دو اسسٹنٹ کمشنر ، ایک اے سی صدر اورتین مجسٹریٹ صاحبان ہیں ۔ میں ایک مسئلے کی جانب آپکی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ 1996ء میں جب کوئٹہ کی آبادی کم تھی تو مجسٹریٹس کی تعداد12تھی مگر اب آبادی زیادہ اور مجسٹریٹس کی تعداد کم ہے لہٰذا مجسٹریٹس کی تعداد بڑھانی چاہیے ۔ہم ریٹس فکس کرنے کے لیے محکموں کے ماہرین کو بلاتے ہیں اورجہاں ضرورت پڑتی ہے ہم دوسرے نمائندوں کو بھی بلالیتے ہیں اور پھر ریٹس کا مارکیٹ کے ریٹس کے ساتھ جائزہ لیا جاتا ہے ۔

ہم ایک خاص میکانزم کے تحت اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کسی خاص چیز کا نرخ کیا ہونا چاہیے تاکہ دکاندار بھی اپنا کاروبار کرسکیں اور عوام بھی حسب استطاعت خریداری کرسکیں۔ جب نرخ مقرر ہو جاتے ہیں توپھر اس پر عملدرآمد کروایا جاتا ہے اور دکانداروں کو چیک کیاجاتاہے کہ وہ کس حد تک اس پر عمل کررہے ہیں۔ جو نرخنامے کی پابندی نہیں کرتے ، ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔

ہم نے شہر کے بعض ڈیری فارمز کو ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا ہے، یہ لوگ نہ صرف پرائس کنٹرول لسٹ کی خلاف ورزی کررہے تھے بلکہ مضر صحت انجکشن گائے اور بھینسوں کو لگارہے تھے ۔ جہاں تک ریٹس کی بات ہے تو اس میں ہم کچھ چیزیں اوپن مارکیٹ میں رکھتے ہیں یا کچھ کے ریٹ فکس کردیتے ہیں، یہ ریٹ سپلائی اور ڈیمانڈ کے مطابق مقرر ہوتے ہیں، اس حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر مارکیٹ کمیٹیاں ،سبزیوں اور پھلوں کے ریٹ مقرر کرتی ہیں۔ جولوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ انتظامیہ انہیں کھلی چھوٹ دے تاکہ وہ ناجائز منافع خوری کرسکیں۔وہ چاہتے ہیں کہ حکومت نہ ریٹ چیک کرے اور نہ ہی بیکریوں یا دوسری دکانوں کی صفائی بلکہ انہیں من مانی کرنے دی جائے۔

دکاندار ہمارے بھائی ہیں، وہ اپنا کاروبار کریں، جائز منافع کمائیں لیکن ہم انہیں ناجائز منافع خوری کی اجازت نہیں دیں گے۔ عوام ناجائز منافع خوروں کے خلاف ہمیں اپنی شکایات پہنچاتے رہیں تاکہ ہم اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ جہاں تک گوشت کے نئے نرخ دینے کی بات ہے توہم نے جوریٹ مقرر کئے تھے اس پر قصابوں کوتحفظات تھے جنہیں دور کرنے کے لیے ہم نے ریٹ ایڈجسٹ کیا تاکہ ان کا بھی کاروبار چلے اور عوام کو بھی رمضان المبارک میں کوئی پریشانی نہ ہو۔

انجینئر زمرک خان
(رکن صوبائی اسمبلی و رہنما اے این پی )
رمضان المبارک بابرکت مہینہ ہے، اس میں لوگ نماز پڑھتے ہیں ،تراویح پڑھتے ہیں، محنت کرتے ہیں اور اس محنت کے صلے میں اچھی آخرت ملتی ہے لیکن افسوس ہے کہ ہم اس مہینے میں بھی عوام کی کھال اتارہے ہیں۔ ذخیرہ اندوز اپنے سٹورز سامان سے بھرلیتے ہیں اور رمضان میں دگنی قیمت پر اشیاء خورونوش فروخت کرتے ہیں۔ یہاں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرے۔

پرائس کنٹرول کمیٹی کو بڑے بڑے دکانداروں اور بڑے مگرمچھوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے کیونکہ مہنگائی کی اصل وجہ یہ ہیں لہٰذا چھوٹے دکاندار اور ریڑھی والے قیمتیں کیا بڑھائیں گے۔ حکومت کو بڑے بڑے ڈپارٹمینٹل سٹوروں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ لوگوں کس قیمت پر مال فروخت کرہیں، اگر وہ چھوٹے دکاندار کو مناسب قیمت پر مال فروخت کریں گے تو چھوٹادکاندار بھی مناسب قیمت پر مال فروخت کرے گا لیکن اگر وہ دگنی قیمت پر مال دیں گے توچھوٹادکاندار بھی ڈبل قیمت پر اشیاء فروخت کرے گا۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور بلدیاتی نظام بہت اچھا سسٹم ہے ، یہ جمہوریت کی نرسری کی حیثیت رکھتاہے جبکہ میئر کی دنیا میں بڑی اہمیت ہوتی ہے، انہیں چاہیے تھا کہ رمضان المبارک سے قبل مہنگائی کو ختم کرتے۔ کوئٹہ چھوٹا شہر ہے، یہاں لوگ اپنی مرضی سے گلیاں اور سیوریج کا نظام بناتے ہیں۔

حالت یہ ہے کہ سیوریج کا پانی گلیوں میں بہہ رہاہوتاہے اور ہر طرف بدبوہوتی ہے جس سے ہیپاٹائٹس جیسی بیماریاں اور مچھر پیدا ہوتے ہیں۔ کوئٹہ زلزلہ زون پر واقع ہے، یہاں اگر خدانخواستہ بڑا جھٹکاآگیا تو پہلے ہزاروں لوگ مرتے تھے مگر اب لاکھوں لوگ مرجائیں گے کیونکہ عمارتیں بلڈنگ کوڈ کے تحت نہیں بن رہیں جبکہ سفارش کی بنیاد پر نقشہ پاس ہوجاتا ہے۔

محمد قاسم سوری
( رہنما پاکستان تحریک انصاف)
کوئٹہ شہر کی آبادی میں کتنااضافہ ہوا ہے اس حوالے سے مردم شماری نہیں ہوئی۔ حکومت صرف پرائس کنٹرول کمیٹیاں بنادیتی ہے۔ مہنگائی بہت ہے مگر رمضان المبارک میں عوام کو مہنگائی کے حساب سے ریلیف ملنا چاہیے۔ انہوں نے سستے بازار لگائے ہیں مگر ان میں بھی اشیاء خورونوش دستیاب نہیں ہیں لہٰذا یہ عوام کو رمضان المبارک میں کہاں سے ریلیف دیں گے۔ کوئٹہ میں بہت سی زمینیں ہیں، اسلام آباد ، لاہور اور دوسرے شہروں میں سستے بازارلگتے ہیں، انہیں زمینیں الاٹ کردی گئی ہیں یہاں باچا خان چوک پر سڑک کے کنارے بازار لگادیا گیا جہاں اول تو کچھ ہے ہی نہیں، دوسرا خواتین اور بچے اس گرمی اور رش والی جگہ پر کیسے جائیںگے۔

دوسرے شہروں میں تو سستے بازاروں میں کھانے پینے کی چیزیں جوتے، کپڑے سمیت ضرورت کی تمام چیزیں موجود ہوتی ہیں لوگ آرام سے خریداری کرکے واپس آجاتے ہیں۔ وزیر بلدیات، سینئر وزراء اور میئر ان کا ہے لیکن کوئٹہ میں مٹن مارکیٹ کو خالی کروادیا گیا ہے۔ دکاندار ایک سال سے احتجاج پرہیں۔ پہلے کوئٹہ کے شہری مٹن مارکیٹ سے با آسانی گوشت خرید لیتے تھے ،یہاں تو لوگوں کی دکانیں چلی گئی ہیں ،روزگار ختم ہو گیا ہے۔ گوشت والوں نے ہڑتال کی تو حکومت نے ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ، بالآخر سمجھوتہ ہوگیا کیونکہ چار روز تک دکاندار بھی بے روزگار رہے اور شہری رمضان المبارک میںگوشت نہیں حاصل کرسکے۔

آخر میں پرانے ریٹ پر ہی انتظامیہ نے گوشت اوپن کردیا۔ انہیں تو ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے فارمولے کاعلم ہی نہیں کہ شہر میںکتنا آٹا آتا ہے اور اس کی کتنی کھپت ہے۔ چینی سمیت دوسری چیزیوں کی کتنی ضرورت ہوتی ہے۔ شہر میں ٹریفک کے نظام کو دیکھ لیں تو انہوں نے تمام کاروباری سڑکوں پر پارکنگ بنادی ہے اور شہریوں سے تیس سے پچا س روپے وصول کررہے ہیں انہیں چاہیے تھا کہ پارکنگ پلازے بناتے اور کوئٹہ شہرکو وسعت دیتے۔ آج عام آدمی بیس ہزار روپے کرایہ کے فلیٹ میں رہ رہا ہے، یہ ہاؤسنگ سوسائٹیز بناتے اور لوگوں کو قسطوں پر پلاٹ دیتے ۔

اسی طرح مٹن مارکیٹ ، سبزی مارکیٹ اور تھوک کا کاروبار کرنے والوں کے لیے بڑی بڑی مارکیٹیں بناتے ، ہمیں بھی پتہ چلتا کہ اس شہر کا کوئی وارث ہے لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ میرے نزدیک یہ معاملات کو کنٹرول نہیں کرسکتے۔ کوئٹہ کے میئر کی عمر زیادہ ہے وہ سو فیصد اپنی خدمات نہیں دے سکتے۔ شہر میں صفائی کے کام کیلئے نوجوانوں کو آگے لایاجائے۔

انہوں نے بندربانٹ شروع کررکھی ہے جو پسندیدہ ہے اس کو زیادہ فنڈ دے دیئے جاتے ہیں انہوں نے تین سال میں کوئی کارکردگی نہیں دکھائی،یہ درختوں پر لائٹس لگاکر لوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں حالانکہ صورتحال یہ ہے کہ انہی درختوں کے نیچے کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جبکہ صفائی کرنے والاکوئی بھی نہیں۔یہاں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں صوبائی حکومت میں شامل لوگ صرف فنڈز لوٹ رہے ہیں اور شہر کے لیے کوئی میگا پروجیکٹ نہیں لایا گیا۔ اب شہر میں خوف کی فضاء ہے ، لوگ حساس علاقوں میںجا ہی نہیں سکتے جبکہ دوسرے علاقوں میں زمینیں بہت مہنگی ہیں اور سرکاری زمینوں پر سرکاری وزیر قبضہ کررہے ہیں لیکن غریب عوام کو کچھ نہیں دے رہے۔ کوئٹہ مسائلستان بن چکا ہے، شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، اگر حکومت شہر میں کوئی ڈیم بناتی تو پینے کے پانی کا لیول اوپر چلاجاتا ہے ۔ پانی کا مسئلہ سنگین ہوگیا یہاں انتظامیہ کے ہاتھوں واسا بھی ناکام ہوچکی ہے۔ میرے نزدیک ہنگامی بنیادوں پر ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر کوئٹہ بنجر ہوجائے گا۔

عبدالرحیم کاکڑ
( صدر مرکزی انجمن تاجران )
کوئٹہ شہر میں مہنگائی باہر سے آتی ہے کیونکہ یہاں پر اشیاء خورونوش کی تمام چیزیں دوسرے صوبوں سے آتی ہیں۔ یہاں دکانداروں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے اور یہاں پرائس کنٹرول کمیٹی کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔ ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان میں پرائس کنٹرول کمیٹی کا اجلاس بلایا جاتا ہے جس میں کچھ دکاندار جاتے ہیں اور کچھ نہیں بلکہ یہاں پرائس کنٹرول کمیٹی فعال نہیں ہے۔

پرائس کنٹرول کمیٹی کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کے علاوہ بھی ہر ماہ اس کا اجلاس بلایا جائے۔ کمیٹی میں شامل تاجر، عوام اور انتظامیہ کے نمائندوںکو چیک اینڈ بیلنس کے سسٹم کو دیکھنا چاہیے ، ایک دوسرے کو تجاویز دینی چاہئیں تاکہ اس پر پورا سال کام ہوتا رہے۔ یہاں تو صورتحال اس کے برعکس ہے، یہ اپنی مرضی سے نرخنامہ جاری کردیتے ہیں جس میں ہمارے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی جاتی۔ پھر انتظامیہ دکانوں پر چھاپے مارتی ہے اور بھاری جرمانے عائد کئے جاتے ہیں۔ جب ایسا نظام ہوگا تو لازمی بات ہے کہ دکاندار بھاری جرمانے کی رقم پوری کرنے کے لیے مہنگے داموں اشیاء فروخت کرے گا۔ جب کسی دودھ فروش پر 80 ہزار روپے جرمانہ عائد کریں گے تو کیا وہ دودھ میں پانی نہیں ڈالے گا؟

وہ دو نمبری نہیں کریگا تو اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے کیا کریگا ؟دودھ فروش کو سات روز تک جیل بھجوا دیا جاتا ہے پھر جب وہ باہر آتا ہے تو اسے 80 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جاتا ہے، اس طرح وہ ضد میں آجاتا ہے۔ ہم نے ڈی سی کوئٹہ اور انکے عملے کے ساتھ بار بار رابطے کئے،ان کی منت سماجت کی کہ لوگوں کو اتنا تنگ نہ کریں، انہیں اتنے بھاری جرمانے نہ لگائیں بلکہ ہم خود انہیں سمجھا دینگے اورآپ ریٹ مقرر کریں۔حیرت ہے کہ ڈی سی کوئٹہ اور ان کا عملہ خود ریٹ لسٹ پاس کردیتے ہیں، گزشتہ رمضان المبارک میں جب انتظامیہ نے قصابوں کو تنگ کرنا شروع کیا تو انہوںنے ہڑتال کردی۔ پھر ہماری مرکزی انجمن تاجران نے انتظامیہ اور قصابوں کے نمائندوں سے بات چیت کی اور مٹن کا ریٹ 6 سو روپے لیا۔ 6 مہینے بعد انتظامیہ نے از خود مٹن کاریٹ 550 روپے مقرر کرلیا ۔

سوال یہ ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹی کا اجلاس دوبارہ کب بلایا گیا؟اپنی مرضی کا نرخ مقرر کرنے کے بعد قصابوں کی گرفتاریاں شروع کردی گئیں، ہم ڈی سی کے پاس گئے اور ان سے استفسار کیا کہ آپ نے 600 روپے کا ریٹ دیا ہے لیکن اب یہ 550 روپے کیسے مقرر ہوا تو انہوں نے کہا کہ پٹرول سستا ہوگیا ہے۔ اگر پٹرول سستا ہوا ہے تو رکشوں، بسوں اور ٹرکوں کے کرائے کم کریں لیکن یہ تو طریقہ نہیں کہ گوشت کی قیمت کم کردی جائے۔ حیرت ہے کہ کوئٹہ کی انتظامیہ کیسے کام کرتی ہے جن کا پرائس کنٹرول کمیٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔انتظامیہ نے رکشے کے کرائے کم کرنے کی کوششیں کی تو رکشہ یونین نے ہڑتال کردی، دو دن کی ہڑتال کے بعد انتظامیہ نے رکشہ یونین سے مذاکرات کیے اور پھر انہیں فری ہینڈ دے دیا گیا جس کے بعد اب رکشہ والے دوگنا کرایہ وصول کررہے ہیں لیکن انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

افسوس ہے کہ بلوچستان میں نہ کوئی سسٹم ہے نہ ہی طریقہ کار بلکہ وزیراعلیٰ سے لیکر نیچے تک ایسا کوئی شخص نہیں ہے جس کے پاس ہم اپنے مسائل لے کر جائیں۔ میئر اورڈپٹی میئر کوئٹہ کی کارکردگی پر نظر ڈالیں توشہر کی صورتحال یہ ہے کہ پورا شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے، نالیاں کچرے سے بھری پڑی ہیں اور یہ شہر کو خوبصورت بنانے کی باتیں کررہے ہیں۔ انہوں نے شہر کی بعض سڑکوں پر رنگین روشنیاں لگادی ہے لیکن ان چیزوں سے شہریوں کے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ شہر میں صفائی ہونی چاہیے۔ میئر کوئٹہ کے پاس سارا دن کونسلرز کی بھرمار ہوتی ہے ، وہ اپنی مرضی کے فنڈز مانگ رہے ہوتے ہیں لیکن انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے کہ صفائی کون کروائے گا،سڑکیں کون تعمیر کرے گاجبکہ شہر کی بدحالی ساری دنیاکے سامنے ہے۔

پانی کی قلت ہے اور لوگ مہنگے داموں ٹینکرز کے ذریعے پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ سارا دن شہر میں ٹریفک جام رہتا ہے جبکہ ٹریفک پولیس اہلکار دن بھر چالان کاٹنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ ان مسائل کا حل بہت آسان ہے۔ اگر میئر کوئٹہ شہر کو صاف ستھرا اور خوبصورت بنانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ایک کمیٹی قائم کریں، اس میں تین نمائندے ہماری انجمن کے،تین کونسلرز اور تین، چار افراد سیاسی جماعتوں کے شامل کرلیں، ہم ایک ایک روڈ مثالی بنا کر ان کے حوالے کردیں گے ، ہم تجاوزات کا خاتمہ، نالیاں صاف اورشہر میں لائٹنگ کروائیں گے۔ اس کے علاوہ مہنگائی کا معاملہ بھی حل کروائیں گے اور تاجروں کے تحفظات بھی دور کریں گے۔

اﷲ داد ترین
( تاجر رہنما)
میں خود پرائس کنٹرول کمیٹی کا ممبر ہوں، میں نے بارہا انتظامیہ سے کہا ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹی کا ہرماہ اجلاس بلایاکریں اور ایسی ریٹ لسٹ مرتب کی جائے جس سے دکاندار اور خریدار دونوں مطمئن ہوں۔ رمضان المبارک سے ایک ماہ قبل ہم نے جو ریٹ طے کئے تھے اس کے بعد اے سی مجسٹریٹس صاحبان نے خود ساختہ نرخنامہ جاری کیا۔ کسی چیز کے نرخ میں دس روپے کم کسی میں 20 روپے کم اور کسی میں اس سے زیادہ کمی کرکے ایک دم شہر میں نکل آئے اور ایک حجام کو دس ہزار روپے جرمانہ کرنے کے علاوہ اس کی بے عزتی بھی کی گئی۔ کیونکہ اس نے بال تراشنے کے 90 روپے کی بجائے 100 روپے لئے تھے یہ تمام چیزیں ہم ڈی سی کوئٹہ اور متعلقہ اے سی صاحبان کے علم میں لاچکے ہیں۔

گوشت والوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ حکومت نے خودساختہ طورپر 50 روپے فی کلو کم کرکے ان کی دکانوں پر چھاپے مارے اور بھاری بھر کم جرمانے وصول کرنا شروع کردیئے۔ ہم نے اس حوالے سے اخبارات کو بیانات جاری کئے کہ یہ جو جرمانے وصول کئے جارہے ہیں ان کی رسیدوں کی جانچ پڑتال کی جائے کہ آیا یہ رسیدیں واقعی اصلی ہیں یا نہیں۔ ہم نے اعلیٰ حکام کو جرمانے کی رسیدوں کی تصویریں دکھائیں تو وہ خود بھی حیران رہ گئے کہ 80 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ ایک گوشت فروخت کرنے والے کو جرمانہ کرکے اس کی دکان بھی سیل کردی گئی، جب چار پانچ روز بعد دکان کھلی تواس میں موجود 2 لاکھ 70 ہزار روپے کا گوشت بھی ضائع ہوچکا تھا اور اس کا نقصان ساڑھے تین لاکھ روپے کا ہوگیا میرے نزدیک یہ ظلم کی انتہا ہے۔ ہمیں کہیں حکومت کی رٹ نظر نہیں آرہی اور نہ ہیں کہیں گڈ گورننس ہے۔

اب کی جو صورتحال ہے اس میں تو بدتر حالات نظر آرہے ہیں۔ دکاندار کبھی گراں فروشی میں ملوث نہیں رہا، مہنگائی ایک الگ چیز ہے اور گراں فروشی الگ ۔ ہماری اپنی تو کوئی پراڈکٹ نہیں ہے بلکہ ہم باہر سے اشیاء خورونوش اوردیگر چیزیں منگواتے ہیں لہٰذامہنگائی اوپر کی سطح سے ہوتی ہے۔رمضان بازار یا سستے بازار ایسے کامیاب نہیں ہوتے ،پنجاب میں اگر سستے بازارکامیاب ہوتے ہیں تو وہاں حکومت نے اربوں روپے کی سبسڈی دی ہے۔اسی طرح اگر ہماری حکومت بھی سبسڈی دے تو رمضان بازار کا میاب ہوسکتے ہیں اور غریب عوام کو ریلیف مل سکتاہے۔ میری تجویز ہے کہ اس مسئلے پر کمیٹی بنائی جائے اور اسمبلی میں قانون سازی کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔