محترمہ بے نظیر بھٹو اور لیاری
اس روز مختلف سیاسی پارٹیوں کے اتحاد پر مبنی پی ڈی اے کی کال پر عام بھوک ہڑتال تھی،
بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وہ پہلے رہنما اور وزیراعظم تھے جنھوں نے لیاری والوں کی عزت نفس کا احترام کرتے ہوئے انھیں اہمیت دی۔ لیاری میں قابل ذکر ترقیاتی کام انھی کے دور حکومت کے مرہون منت ہیں۔ جن میں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لیاری میں لیز کا اجرا، لیاری میں پانی، سیوریج، گیس اور ٹیلی فون کی لائنیں بچھانا، گھر گھر خوشحالی کے لیے روزگار فراہم کرنا، کھڈہ میمن سوسائٹی کی جدید آبادکاری کرنا، جنرل اسپتال لیاری، ٹیلی فون ایکسچینج، لیاری جنرل پوسٹ آفس، لیاری ڈگری کالج، چاکیواڑہ اومنی بس جنکشن کا قیام، سڑکوں کی استرکاری اور گلیوں کی پختگی، وہ میگا پروجیکٹ اور ترقیاتی کام تھے جو آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں۔
علاوہ ازیں لیاری کی تنگ و تاریک گلیوں اور سڑکوں کو کشادہ کرنا، اسڑیٹ لائٹ سے لیاری کو جگمگا دینا، پارکوںکو سرسبز آباد کرتے ہوئے وہاں عوام کی تفریح کے لیے ٹیلی ویژن نصب کرنا، خواتین کے لیے ہوم انڈسٹری قائم کرنا، لیاری میں تین منزلہ سے زائد عمارت کی تعمیر پر پابندی عائد کرنا اور لیاری کی گلیوں میں ایک عام آدمی کی طرح پیدل گھومنا اور عام لوگوں سے گلے ملنا، ان سب سے ہاتھ ملانا اور ان کے مسائل سن کر انھیں فوری طور پر حل کرنا ذوالفقار علی بھٹو کی لیاری کے حوالے سے وہ عوامی خدمات ہیں جنھیں لیاری کی تیسری نسل بھی اپنے لیے انعام تصور کرتی ہے اور وجہ ہے کہ بھٹو آج بھی اہل لیاری کے دلوں میں زندہ ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد 1984 سے 1986 تک لندن میں سیاسی پناہ گزین کے طور پر مقیم رہیں اور اپریل 1986 میں وہ پاکستان واپس لوٹیں اور پارٹی قیادت سنبھالی۔ اپنے والد بھٹو کی طرح انھیں بھی لیاری والوں سے اور لیاری والوں کو ان سے حد درجہ جنون کی انتہا تک دلی لگاؤ اور عقیدت رہی ہے۔ ان کی شہادت پر اہل لیاری غمزدہ رہے۔ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اہل لیاری کے ساتھ اپنے تعلق میں کوئی کمی نہ آنے دی اور اہل لیاری نے بھی حق وفاداری کی تاریخی مثالیں قائم کی۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے، 14 اگست 1986 کا وہ دن جب پارٹی کی شریک چیئرپرسن کی حیثیت سے بے نظیر بھٹو پولیس سے بچتی ہوئی چاکیواڑہ لیاری جا پہنچیں اور مجمع سے خطاب کرنا شروع ہی کیا تھا کہ پولیس والوں نے مجمع پر آنسو گیس کے گولے پھیکنا شروع کردیے۔ اس دوران لیاری کے پرامن لوگوں نے جس انداز سے اپنی قائد بے نظیر بھٹو کی حفاظت کی، وہ سیاسی تاریخ کا ناقابل فراموش واقعہ ہے۔ خود محترمہ نے مختلف مواقع پر اس واقعے کا ذکر کرکے لیاری والوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ اپنی صحافتی ذمے داریوں کے دوران اس عظیم رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کو قریب سے دیکھنے کے بہت سے مواقع ملے، جنھیں میں بھلا نہیں سکتا۔یہ 4 اگست 1991 کی بات ہے۔
اس روز مختلف سیاسی پارٹیوں کے اتحاد پر مبنی پی ڈی اے کی کال پر عام بھوک ہڑتال تھی، جو تغلق ہاؤس اور سندھ ہائی کورٹ کے درمیان چورنگی (موجودہ کبوتر چوک) پر تھی۔ اس وقت سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق علی (مرحوم) تھے۔ اس روز صوبائی حکومت نے امن و امان کی آڑ میں لیاری میں سرکاری اہلکاروں اور بکتر بند گاڑیوں کا جال بچھادیا تھا۔ مقصد بھوک ہڑتال کا ناکام بنانا تھا۔ اس کے باوجود لیاری سے بھاری تعداد میں لوگوں نے اس بھوک ہڑتالی کیمپ میں شرکت کی۔ 3 ستمبر 1992 کو بے نظیر بھٹو نے نشتر پارک کراچی میں جلسہ عام سے خطاب کیا، اس روز بھی اس وقت کی صوبائی حکومت نے لیاری کو اپنے گھیرے میں لیا، کیوں کہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں یہ جلوس لیاری کی اہم سڑکوں سے ہوتا ہوا نشتر پارک پہنچنا تھا۔ حالات کی خراب صورت حال کے پیش نظر محترمہ بے نظیر بھٹو اس جلوس میں شریک نہ ہوسکی تھیں۔
اس بات کا علم لوگوں کو نشتر پارک میں ہوا تھا، اس سے قبل وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ ان کی قائد اس جلوس کی قیادت کررہی ہیں۔ جب یہ جلوس پاکستان کوارٹرز (نزد گارڈن) کے موڑ پر پہنچا تو نامعلوم سمت سے اس پرجوش قافلے پر فائرنگ کی گئی، جس کی زد میں آکر ایک شخص شدید زخمی ہوا تھا۔ لیکن اس کے باوجود یہ جلوس نہ کسی انتشار کا شکار ہوا اور نہ ہی گولی کا جواب گولی سے دیا گیا تھا۔
یہ منظر پرامن لوگوں کی مثال پیش کررہا تھا، جو ہر قیمت پر اپنی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلسہ عام میں سننا چاہتے تھے۔ تمام تر ریاستی رکاوٹوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح سے محترمہ رات آٹھ بجے جلسہ گاہ پہنچیں اور رات گئے تک یہ جلسہ جاری رہا۔یہ ان کی حکومت کا پہلا دور تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو نے لیاری میں واقع سردار اللہ بخش گبول پارک (اسٹیڈیم) کا افتتاح اپنے دست مبارک سے کیا اور ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ 31 دسمبر 1991 کو محترمہ نے لیاری کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، عام لوگوں سے ملیں، ان کے مسائل معلوم کیے اور موقع پر انھیں حل کرنے کی ہدایت دیں۔
قبل ازیں 1988 میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے بطور وزیراعظم پاکستان لیاری کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کرتے ہوئے 83 کروڑ روپے کے پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کیا تھا اور لیاری کے تین ہزار بے روزگار افراد کو ملازمتیں بھی فراہم کی تھیں۔ 3 جولائی 1996 کی شام ککری گراؤنڈ لیاری میں سی او ڈی فلٹر پلانٹ سے لیاری واٹر سپلائی اسکیم کا بطور وزیراعظم افتتاح کیا اور جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ لیاری میرا گھر ہے اور میں لیاری والوں سے محبت اور بہت عقیدت رکھتی ہوں اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو بھی لیاری والوں سے محبت کرتے تھے، جب ذوالفقار علی بھٹو کو سزا اور پھانسی دی گئی تو سب سے پہلے لیاری والوں نے احتجاج کیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں لیاری میں ترقیاتی کاموں کی فہرست طویل ہے۔
1987 میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی کی تقریب لیاری کے ککری گراؤنڈ میں منعقد ہوئی جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے تھے۔ اس تقریب میں زبردست قسم کی آتش بازی کی گئی تھی، جس کی چکاچوند ہزاروں آنکھوں میں نظر آئی، یہ ایک عوامی شادی تھی۔ کراچی بھر کی طرح اس شادی کے موقع پر لیاری کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔
18 اکتوبر 2007 کو محترمہ کے استقبالیہ جلوس پر بم دھماکا کیا گیا، جس میں وہ محفوظ رہیں، لیکن بہت سے لوگ ہلاک اور زخمی ہوگئے تھے جن میں اکثریت لیاری کے نوجوانوں کی تھی۔ اس واقعے کے دوسرے دن محترمہ نے تمام تر سیکیورٹی کو بالائے طاق رکھ کر لیاری کا اچانک دورہ کیا اور ایک ایک کرکے تمام متاثرین کے گھر جاکر تعزیت اور عیادت کی۔ محترمہ کی اس بہادری اور ہمدردی کو سراہا گیا۔ محترمہ پر دوسرا حملہ راولپنڈی میں 27 دسمبر 2007 کو اس وقت کیا گیا جب وہ ایک بہت بڑے جلسہ عام میں خطاب کرنے کے بعد واپس اپنی گاڑی پر جارہی تھیں، جس میں وہ محفوظ نہیں رہیں اور شہید ہوگئیں۔ اگرچہ محترمہ بے نظیر بھٹو جسمانی طور پر موجود نہیں لیکن روحانی لحاظ سے وہ آج بھی اپنے عقیدت مندوں کے دلوں میں زندہ و جاوید ہیں۔