وسل حلق میں پھنسے گی
کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے
کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، لیکن پڑوس کے معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہے کیونکہ جوکچھ وہ کر رہے ہیں انھیں کسی کی پرواہ نہیں ہے کہ انھیں کون کیا سمجھتا ہے اچھا یا برا۔ ہاں البتہ گوروں کے سامنے امیج اچھا ہی جانا چاہیے یہ مرض ایشیائیوں میں تب سے ہے جب پہلی بارگورے نے اس دھرتی پر قدم رکھا تھا۔
بھارت دنیا کی دوسری بڑی طاقت۔ بھارت کا امیج بہت سوفٹ ہے دنیا میں۔ اسی قسم کے بیانات پڑھتے چلے جائیے کہ میں اور آپ کیا بگاڑ سکتے ہیں ان کا۔ ناکام میزائل کے تجربے کو سینہ ٹھونک کر کامیاب کہہ کر مبارکبادیاں قبول کرنا یہ ہے طرہ امتیاز پڑوس کا۔ 9/11 کے واقعے سے پہلے اور بعد میں پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر دیکھنے کا متمنی بھارت خودساختہ کامیابیوں کے جھرمٹ میں بظاہر پرسکون ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
رواں مہینے میں 2002ء میں بے گناہ مسلمانوں کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ ہو گیا لیکن جس انداز سے اس کے نتائج سامنے آئے اسے دیکھ کر ذہن میں یہی بات ابھرتی ہے کہ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ پر کیوں ہوا؟ گودھرا میں ٹرین پر ہونے والے حملے اور فسادات کے سلسلے میں 69 مسلمان شہید ہوئے تھے ان میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری بھی شامل تھے اس دور کوگجرات کا بدترین زمانہ قرار دیا جا چکا ہے، جس میں موجودہ وزیراعظم نریندر مودی صاحب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور جس بے دردی سے یہ قتل ہوئے اس پر حکومت گجرات نے آنکھیں بند کر کے چپ سادھ لینے میں سکون محسوس کیا اس کارروائی میں شدت پسند ہندوؤں کی جماعت وشواہندو پریشد کے کارکنان شامل تھے۔
اتنے برسوں بعد جو فیصلہ سامنے آیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت اپنے شدت پسندی کے جذبات دل کھول کر نکال رہی ہے۔ 36 افراد کو اس مقدمے میں بری کر دیا گیا جب کہ 24 افراد کو مجرم قرار دیا گیا۔ ان میں سے صرف 11 افراد پر قتل کی دفعہ 302 عائد کی گئی۔ ادھر امریکا میں نریندر مودی نے امریکی کانگریس میں خطاب کرتے ہوئے بڑے جذباتی انداز میں فرمایا تھا 'بھارت انسانیت کے لیے جان دینے والوں کی قدرکرتا ہے۔' اور مزید یہ بھی کہ ''دہشتگردی بھارت کے پڑوس میں پنپ رہی ہے دہشتگردی مختلف ناموں سے امن کو تباہ کر رہی ہے، دہشتگردی خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔''
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2002ء میں جب یہ دہشتگردی مسلمانوں کے خلاف عروج پر تھی تو مودی سرکار چپ کا روزہ رکھے ہوئے تھی اور 2016ء میں اسی دہشت گردی کو خطے کا بڑا مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ گجرات میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں ایک اعلیٰ پولیس آفیسر بھی ان ظالمانہ کارروائیوں پر چپ نہ رہ سکا تھا جس میں شدت پسند ہندو شامل تھے ایک اعلیٰ پولیس افسر کا اپنی ہی قوم کے خلاف بیان ایک عجب بات تھی لیکن ان کے ضمیر نے یہی پسند کیا اور بالآخر شدت پسندی کے اس زہر نے اس ہندوآفیسر کی بھی جان لے لی تھی یہی نہیں کئی بھارتی فلمی ستارے بھی اس درندگی پر چیخ پڑے تھے۔ خیال تھا کہ اب اتنا وقت گزرنے کے بعد سیاسی حربے کچھ تبدیل ہو گئے ہوں گے شدت پسندی کی جگہ انصاف کا کچھ ٹیڑھا ترازو ہی آ کھڑا ہو گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور فیصلہ سب کے سامنے ہے۔
دنیا بھر میں پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے شدید حریف کی مانند دیکھا جاتا ہے اور اس گرم اور سرد جنگ کو استعمال کیا جاتا ہے، جیسے 23 نومبر 2008ء کو جب یوگنڈا کے شہر کمپالا میں دولت مشترکہ کے اہم اجلاس میں پاکستان کی رکنیت معطل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اتارا گیا تھا جو اس وقت یقینا پاکستان کے لیے نہایت شرمندگی اور اذیت کا مقام تھا لیکن اس وقت کے حالات جب کہ ایمرجنسی، عدلیہ کی آزادی، میڈیا کی پابندیاں، صدر مشرف اور آرمی چیف کے عہدے کے درمیان رسہ کشی میں پاکستان اندرونی طور پرکمزور ہو رہا تھا ایسے میں دولت مشترکہ کی رکنیت رکھی جائے یا نہیں سے زیادہ اخلاقی طور پر کمزوریاں ابھر کر آ رہی تھیں بہرحال ایک بڑا مقام ہاتھ سے چلا گیا تھا۔
اس رکنیت سے معطلی کے محض دو دن بعد ہی برطانیہ میں بھارتی سفارت کار کملیش کو دولت مشترکہ کے 52 ممالک نے متفقہ طور پر اپنا سیکریٹری جنرل منتخب کر لیا تھا جو ایشیا سے دولت مشترکہ کے پہلے سیکریٹری جنرل تھے۔ بظاہر یہ خاص بات نظر نہیں آتی لیکن کملیش شرما کو اسی وقت کیوں سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیا جب پاکستان کی رکنیت دو روز قبل معطل کی گئی تھی۔
بھارت یقیناً ایک بڑا ملک ہے بقول دنیا بھرکے عقل مند دانشوروں کے اس کی پالیسیاں ملک کے امیج اور استحکام کے لیے بہت زبردست ہیں لیکن ان تمام حالات و واقعات کو دیکھتے اور سمجھتے محسوس یہ ہوتا ہے کہ بھارت کی یہ پالیسی اسے اندرونی طور پرکمزورکر رہی ہے۔ اس کی حالیہ حکومت کے تشویش ناک فیصلے کسی بھی قوم کو نفسیاتی طور پر کمزور نہیں بلکہ تمام قومیتوں میں ایک ایسے جذبے کو ہوا دے رہے ہیں جس کا اثر آنے والے برسوں میں ہی ظاہر ہو گا اور بیرونی طور پر اسے ایشیا میں ایک ایسا سیاسی کھلاڑی بنا رہی ہیں جسے وِسل بجا کر تماشائی اکٹھے کرنے کا شوق ہے۔ یہ وِسل ان کے حلق میں اس وقت پھنس سکتی ہے جب اندرونی طور پر وہ نڈھال ہو نگے۔