تقاضائے رمضان

اصلاح معاشرہ ذرایع ابلاغ کا فرض اولین ہونا چاہیے نہ کہ خواتین کو کروڑوں ناظرین کے سامنے دوڑیں لگوانا


نجمہ عالم June 23, 2016
[email protected]

رمضان المبارک میں ٹی وی دیکھنے کا مجھے تو ذرا بھی وقت نہیں ملتا بلکہ عام دنوں میں بھی نہیں کیوں کہ مجھے مطالعے کا شوق ہے، پیشہ ورانہ اور گھریلو فرائض کی ادائیگی کے بعد جو بھی وقت میسر آتا ہے اس میں اخبارات و رسائل (ادبی و دینی اور تاریخی) کا مطالعہ کرتی ہوں، مطالعے کے بغیر نیند بھی نہیں آتی اور نیند کب آتی ہے یہ منحصر ہے اچھی کتاب پر کہ اس کو ختم کیے بنا سونے کو دل بھی نہیں چاہتا۔

بہرحال یہ بات عام دنوں کی ہے، ورنہ رمضان میں تو یہ اوقات بھی تبدیل ہوجاتے ہیں، ٹی وی کی بے نتیجہ غیر معیاری مکالماتی نشریات اور بے ہنگم اشتہارات دیکھنے کے بجائے انسان کچھ پڑھ ہی لے تو بہتر ہے، چاہے وہ کسی دوا کی ترکیب استعمال ہی ہو۔ خیر ذکر تھا ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے وقت نہ ہونے کا، اخبارات میں مختلف چینلز پر رمضان المبارک کی خصوصی نشریات کے اشتہارات دیکھ کر پورا ارادہ کرتی ہوں کہ فلاں فلاں پروگرام ضرور دیکھوںگی لیکن ''ارادے ٹوٹنے ہی سے تو میں نے اپنے رب کو پہچانا'' ( حضرت علی کرم اﷲ)۔ گزشتہ دنوں میرے بھائی کی طبیعت کچھ خراب تھی تو میں بعد عصر اس کی عیادت کے لیے چلی گئی۔

وہاں کام تو کچھ تھا نہیں، خالی بیٹھنا عادت نہیں، خیال آیا کہ اس دوران تمام چینلز پر افطار کی نشریات دکھائی جارہی ہوںگی کیوں نہ ایک نظر ان پر ڈالی جائے شاید کوئی کام کی بات نظر آجائے۔ میں نے اپنی بھتیجی سے کہا کہ کوئی چینل تو لگاؤ جس پر افطار شو آرہا ہو، جو چینل اس نے لگایا اس پر نشریات کیوںکہ کافی پہلے سے شروع ہوچکی تھیں اس لیے یہ تو معلوم نہ ہوسکا کہ اس کا آغاز کس طرح ہوا مگر جو منظر اس وقت پیش نظر تھا وہ کچھ یوں تھا کہ تین جوڑوں کے درمیان کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پھل کھانے کا مقابلہ جاری تھا، جس جوڑے نے کم وقت میں زیادہ پھل کھائے، بلکہ ضایع کیے اس کو موٹر سائیکل بطور انعام دی گئی۔ اس کے بعد اشتہارات شروع ہوگئے۔

اس وقفے کے بعد پھر تین جوڑوں میں ہری مرچیں کھانے کا مقابلہ ہوا، یہ اتنا تکلیف دہ مقابلہ تھا کہ بمشکل کوئی تیس مرچیں ہی کھاسکا ہوگا۔ اﷲ اﷲ کرکے مقابلے کا وقت ختم ہوا اور مقابلہ جیتنے والوں کا اعلان بھی۔ اس مقابلے کے لیے شاید کپڑے دھونے کی مشین انعام میں دی گئی، مگر اس مقابلے میں شامل خاتون مچل مچل کر بے حد عاجزانہ انداز میں میزبان سے فرمانے لگیں کہ واشنگ مشین تو ہمارے پاس ہے، پلیز ہمیں بھی موٹر سائیکل دے دیں۔ کچھ حجت کے بعد بالآخر ان کو بھی موٹر سائیکل مل گئی، میاں صاحب نے سیٹ سنبھالی، بیگم صاحبہ پیچھے تشریف فرما ہوئیں اور سیٹ پر ہی ایک چکر لگاکر اس کو حاصل کردہ انعامات کی جگہ پر پارک کردیا گیا۔

اتنا دیکھ لینے کے بعد میں نے بچی سے کہا، بیٹا کوئی دوسرا چینل لگاؤ اس چینل کا منظر کسی کے خیال میں دلچسپ مگر میرے خیال میں عبرت ناک تھا، پورے سیٹ پر مرغیاں بھاگتی پھر رہی ہیں اور ایک برقعہ پوش خاتون ان کے پیچھے دوڑ لگارہی ہیں، مرغیاں پکڑ پکڑ کر ایک بڑے ڈبے میں ڈالتی جاتی ہیں، کئی بار وہ بمشکل مرغی پکڑتیں اور وہ ان کے ہاتھ لگاتے ہی کسی اور طرف بھاگ جاتی، وہ صاحبہ انعام کی خاطر پورے سیٹ پر مرغیوں کے پیچھے بھاگتی پھر رہی ہیں۔ خدا جانے انھوں نے کتنی مرغیاں پکڑیں، اس قسم کے مناظر دیکھ کر ہم نے ٹی وی بند کرادیا۔ اب تک رمضان کی خصوصی نشریات میں یہ دو چینلز دیکھنے کا اتفاق ہوا، ہوسکتا ہے اختتام ماہ مبارک تک کچھ اور روح پرور مناظر دیکھنے کی سعادت حاصل ہوجائے۔

صرف یہ دو مناظر دیکھ کر ہی ہم تصویر حیرت بنے ہوئے ہیں کہ یا اﷲ رمضان وہ بھی اسلامی ریاست کے ذرایع ابلاغ پر اس طرح منایا جاتا ہے۔ جب سے ہم نے ہر شعبہ زندگی کو تجارت، وہ بھی منافع بخش بنایا ہے تو ذرایع ابلاغ نے دینی پروگرام بھی اسی نہج پر ترتیب دینے شروع کردیے ہیں۔ دین میں تفرقہ اور گروہ بندی بھی عروج پر ہے۔ کیا کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آخر اس قوم کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچا گیا ہے؟ نئی نسل کو کون سی راہ دکھائی جارہی ہے؟ کیا پاکستان میں ذہین اور باشعور افراد کا قحط پڑگیا ہے کہ ذرایع ابلاغ میں کسی مقدس تہوار یا مبارک مہینے کے بارے میں کوئی صائب مشورہ دینے والا کوئی نہیں۔ اخلاص عمل، تزکیہ نفس، احترام دین کے بجائے کمانے، تجارت کرنے کے لیے بلکہ صرف ریٹنگ بڑھانے کی خاطر قوم کو گمراہ کیا جارہا ہے۔

کاش اس ماہ مبارک کو (جس کی عبادات و نیکی کا اجر و ثواب ستر گنا بڑھا کر دیا جائے گا) اصول دین، پیغام قرآن، قصص الانبیاء، ارکان دین سے ناواقف بچوں، نوجوانوں کے لیے معلوماتی پروگرام اور مقابلوں کے ذریعے آگاہ کرنے اور دین کی جانب ان کی دلچسپی اور رجحان بڑھنے کے لیے غیر متعصبانہ اور درست معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ان پروگراموں کو بنایا جاتا۔ کیا رمضان کی خصوصی نشریات میں، قرآن، احادیث مبارکہ، انبیا علیہ السلام کے طرز حیات، سبق آموز واقعات، حق و باطل کے درمیان ازلی جنگ، فتح خیبر، شکستِ شر وغیرہ کے بارے میں مقابلۂ معلومات پیش نہیں کیے جاسکتے۔ اگر کوئی قرآنی سورتوں کے موضوعات، انبیا علیہ السلام کے واقعات پر درست جواب دے کر انعام حاصل کرے تو مطالعے، تحقیق اور معلومات میں اضافے کا رجحان پروان چڑھایا جاسکتا ہے مگر جس ملک کے مقتدر حضرات کا مقصد حیات ہی قوم کو لاعلم اور جہل کے اندھیروں میں دھکیلنا ہو وہاں علم کے چراغ روشن کرنے کی ہمت کون کرسکتا ہے؟

انعامات کی تقسیم محض اپنے پروگرام مقبول کرنے کے لیے نہیں، بلکہ نسل نو، گھریلو خواتین، غیر تعلیم یافتہ افراد کے علم میں اضافے کے لیے رکھی جائیں، علمی سوالات کے درست جوابات پر حوصلہ افزائی کی جائے، رمضان المبارک میں حسن قرأت، قرآنی معلومات، حیات طیبہ، قرابت داران رسولؐ، اصحاب باوفا حضورؐ کے طرز جہاں پائی، حسن اخلاق، غیر مسلموں سے روابط اور ان کے ساتھ آپؐ کا سلوک، صلۂ رحمی، امداد باہمی غرض بے شمار موضوعات ہیں جس پر گفتگو کے علاوہ مقابلے کرائے جاسکتے ہیں، کیوں کہ آج ہمارا معاشرہ جس بدعنوانی، خودغرضی، بداعمالی، تعصب اور خصوصاً جہالت کا شکار ہے۔

اس میں اصلاح معاشرہ ذرایع ابلاغ کا فرض اولین ہونا چاہیے نہ کہ خواتین کو کروڑوں ناظرین کے سامنے دوڑیں لگوانا، مرچیں کھلانا جیسے غیر مہذب مقابلے کسی قومی سطح کے ذرایع کو زیب دیتے ہیں؟ آخر ہمارے یہاں غوروفکر (جس پر قرآن نے بے حد زور دیا ہے) کے بجائے محض اپنے فائدے اور وہ بھی ایسا فائدہ جس کا منطقی انجام سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں، کیوںکہ معاشرہ ہم سب سے ملکر بنتا ہے، اگر ہم درست ہیں تو معاشرہ خودبخود درست ہوجائے گا، معاشرے کو ہم نے ہی بگاڑا ہے، اس کو درست بھی ہمیں ہی کرنا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے انسانی ہدایت کی تکذیب کرنے والوں پر عذاب نازل کیا ہے، اب وہ کہہ چکا ہے کہ کوئی نبی نہیں آئے گا تو سوچیے کہ کیا ہم عذاب الٰہی کی راہ ہموار نہیں کر رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں