نظاممقدمہ اوردولت
حیدرآباد برصغیر کی امیر ترین ریاست تھی۔اس کے حکمران"نظام"کے نام سے حکومت کررہے تھے
لندن میں حیدرآبادفنڈکیس عدالت میں آج بھی زیرِ سماعت ہے۔1948ء سے ہائیکورٹ میں چلتا ہوا کیس دلچسپ مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے۔ حیدرآباد برصغیر کی امیر ترین ریاست تھی۔اس کے حکمران"نظام"کے نام سے حکومت کررہے تھے۔امیرترین ریاست ہوناہی حیدر آباد کے لیے ناقابل معافی جرم بن گیا۔عروج وزوال کی یہ داستان دل پرزخم لگاتی ہے۔شائدیہ پاکستان کے حکمران دوسو خاندانوں کے لیے سبق بھی ہو۔مگریہاں سبق کون سیکھتا ہے۔ رزق خاک ہونے تک ہرطاقتوراوررئیس انسان یہی سمجھتا ہے کہ دراصل وہ لافانی ہوچکاہے۔مگرقدرت کے قوانین سے کوئی بچ نہیں سکتا۔امیر،نہ غریب اورنہ امیر ترین۔اس کے بالکل ساتھ ہی معاشرے کے طاقتورترین لوگ بھی وقت کی چکی میں پِس جاتے ہیں۔محض مٹی ہونے کے لیے!
ریاست رقبہ کے لحاظ سے بھی غیرمعمولی تھی۔لندن اوراسکاٹ لینڈکوملاکرجورقبہ بنتاتھا،حیدرآبادکی ریاست، اس سے بھی بڑی تھی۔بیاسی ہزارمربع میل پرمشتمل۔ یہ سب کچھ، برصغیرمیں کس حیثیت کامالک تھا،اس حقیقت کواب صرف سوچاجاسکتاہے۔افرادی قوت کے لحاظ سے بھی انفرادیت تھی۔ایک کروڑساٹھ لاکھ انسانوں پرمشتمل یہ خطہ اپنی فوج،ریلوے،کرنسی،بینکاری نظام اورسول سروس رکھتا تھا۔ عثمان علی خان آخری حکمران تھاجو1948ء تک حکومت کرتارہا۔اس کادورحکمرانی پینتیس برس کے لگ بھگ تھا۔
اس سے پہلے کہ لندن میں چیونٹی کی رفتارسے چلتے ہوئے کیس کے متعلق بات کی جائے،مناسب سمجھتا ہوں کہ مجموعۂ تضادات،اس شخص کے متعلق بات کی جائے،جو ہیرے جواہرات سے لدی ہوئی ریاست کا آخری بادشاہ رہا۔عجیب وغریب مزاج کامالک ۔عثمان علی خان دراصل ایک ایسی شخصیت تھاجس میں کئی انسان گم تھے۔ایک دوسرے سے مختلف بلکہ ایک دوسرے سے مطابقت نہ رکھنے والے گمشدہ انسان۔آخری نظام دنیا کا امیرترین شخص تھا۔ اس کی مجموعی دولت کاتخمینہ ٹائم میگزین کے مطابق1937ء میں دوبلین ڈالرکے نزدیک تھا۔ جو آج کے دوسوبلین ڈالر سے بھی زیادہ بنتاہے۔ٹائم میگزین نے اپنے ٹائٹل پرعثمان علی خان کی تصویرشائع کی۔اس کے اوپر لکھا ہوا تھا "دنیاکا امیرترین آدمی"۔
کیس پرتحقیق کرتے ہوئے مجھے اس شخص کی تصویر دیکھنے کااتفاق ہوا۔سرپرمعمولی سی ٹوپی اورگلے میں ایک ادنیٰ درجہ کامفلرڈالاہوا،ایک آدمی اپنے بیٹے کے ساتھ کھڑا ہواہے۔بیٹے نے انتہائی دیدہ زیب کپڑے اورتاج پہن رکھاہے۔پہلے ایسے لگا ایک بادشاہ اپنے کسی معمولی سے ملازم کے ساتھ تکلفاًتصویرکھنچوارہاہے۔غورکرنے پرمعلوم ہوتاہے کہ سادہ کپڑے زیب تن کیے ہوئے شخص دراصل خود نظام ہے۔یعنی دنیاکاامیرترین شخص اوراس کے ساتھ شاہانہ لباس میں بیٹاموجودہے۔حلیے سے انتہائی مفلوک الحال اور قلاش انسان معلوم ہوتاہے۔عثمان علی خان پھٹے ہوئے موزے پہنتاتھا۔جب موزوں میں سوراخ بڑے ہوجاتے تھے تووہ خودہی انھیں سی بھی لیتاتھا۔کئی کئی مہینہ ایک ہی جوڑے میں گزاردیتاتھا۔
کسی استری کے بغیرلباس دوچار ہفتوں میں بربادہوجاتا تھا مگردنیاکاامیرترین شخص انھیں مہینوں پہنتاتھا۔عثمان کوسگریٹ پینے کی لت تھی۔ سستے ترین بلکہ گھٹیاترین سگریٹ پیتاتھا۔ایک دن، مہمان، بادشاہ سے ملنے آیاتو مہمان سے سگریٹ ادھار مانگ لیا۔ اس کے دوٹکڑے کیے۔فلٹروالاٹکڑااپنے پاس رکھ لیا۔باقی حصہ مہمان کے حوالے کردیا۔بالکل اسی طرح سردیوں میں نظام کوایسے لگاکہ اس کاکمبل پرانا ہو چکا ہے۔
نوکر کوپچیس روپے دیکربازاربھیجاکہ اس سے مہنگاکمبل ہرگز نہیں خریدنا۔ نوکر پورابازارگھومتارہا۔سستاترین کمبل تیس روپے کا تھا۔ نوکر خالی ہاتھ واپس آیا۔نظام کوبتانے لگاکہ پچیس روپے کاکمبل پوری مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ بادشاہ نے نوکرکی فراست کوسراہا۔پچیس روپے واپس لیے اور پرانے کمبل میں گزارا کرنے لگا۔نظام کی کنجوسی اس درجہ ضرب المثل تھی کہ ہرشخص ذکرکرتاتھا۔اپنے روزانہ کے اخراجات صرف اورصرف ایک پاؤنڈتک محدودکررکھے تھے۔مگراس شخصیت کادوسرارخ،انتہائی مختلف اور غیرمعمولی تھا۔اس حدتک متضادکہ لگتاہے کہ دونوں کوئی اور اشخاص ہیں۔نظام کی ٹیبل پرکاغذات کے اوپررکھنے کے لیے پیپرویٹ نہیں تھا۔بطخ کے انڈے سے قدرے بڑاایک بہت بڑاہیراتھاجسے نظام کاغذات کویکجارکھنے کے لیے استعمال کرتاتھا۔1924ء میں اس ہیرے کی قیمت پچاس ملین پاؤنڈبتائی جاتی ہے۔ایک دن،برطانوی شہزادہ نظام کوملنے آیا۔نظام نے اپنے جواہرات دکھائے جو گاڑیوں پرلدے ہوئے تھے۔
کہنے لگاکہ اگرلندن کے پورے بازاروں کے فرش ان جواہرات کے بن جائیں،پھربھی یہ ختم نہیں ہونگے۔لندن کے مشہورعلاقے"پیکاڈلی سرکس"کے متعلق کہتاتھاکہ اس کی گلیاں اورکوچے اس کے ذخیرہ شدہ خزانوں کا بوجھ نہیں اُٹھاسکتیں۔نظام کے مختلف محلات بھی عجوبہ تھے۔ ایک محل میں ڈیڑھ کلومیٹرلمبی الماریاں تھیں جس میں بادشاہ کے کپڑے لٹکے رہتے تھے۔یہ لباس کوئی عام لباس نہیں تھے۔شاہی پوشاکیں،ریشم وکمخواب سے مزین یہ کپڑے اپنی جگہ حیران کن حدتک قیمتی تھے۔نظام نے ایک محل تعمیر کرواتے ہوئے حکم دیاکہ اس کادرباراورڈائننگ ہال دنیا کا سب سے لمبااورخوبصورت ہوناچاہیے۔بادشاہ کے تخت تک پہنچنے کے لیے ایک میل لمباہال تعمیرکیاگیا۔اس میں کھانے کاایساانتظام بھی کیاگیاکہ ہزاروں لوگ شاہی دعوت کے وقت میزپربیٹھ کرکھاناکھاسکتے تھے۔ایک محل میں تہہ خانہ بنوایاگیا۔نظام کوشک تھاکہ کسی بھی وقت رعایا اس کے خلاف ہوسکتی ہے۔لہذااس نے خصوصی ٹرک بنوائے۔
انھیں تہہ خانے میں کھڑاکیااوراپنی ساری دولت ان پرلاددی تاکہ خزانہ کومنتقل کرنے میں آسانی ہو۔مگراس کی نوبت کبھی نہیں آئی۔وہ ٹرک کبھی بھی تہہ خانے سے باہرنہ نکل پائے۔ ایک دن،شاہی منعم نے بتایاکہ تین ملین پاؤنڈ کے کرنسی نوٹ چوہے کترکرکھاگئے ہیں۔نظام ہنسنے لگاکہ یہ توکوئی نقصان نہیں۔نظام کی سات شادیاں تھیں جن میں سے چونتیس بچے اورایک سوچارپوتے پوتیاں تھے۔ان بیگمات میں آخری ترک سلطان کی بیٹی درشہواربھی شامل تھی۔بیگمات کے علاوہ غیرمنکوحہ خواتین کی تعدادچالیس کے قریب تھی۔
برصغیرکی تقسیم کے وقت انگریزوں نے نظام اور دیگر ریاستوں کواختیاردیاتھاکہ کسی بھی نئے ملک کے ساتھ الحاق کرلیں۔اس کے علاوہ اپنی آزادانہ حیثیت بھی برقراررکھ سکتی تھیں۔نظام نے آزادانہ حیثیت کوترجیح دی۔
مگریہ انڈیا کے لیے ناقابل قبول اَمرتھا،کہ ایک امیر ریاست جونئے ملک کے وجودکے درمیان ہو اور اس کا حکمران بھی مسلمان ہو۔ لہذا اگست1947ء کے بعد، ہندوستان کی حکومت نے مختلف حربے استعمال کیے کہ نظام کسی بھی طریقے سے مجبوراً الحاق کرلے۔سب سے پہلے،پوری ریاست کی ناکہ بندی کردی گئی تاکہ دوائیاں اورغذائی اجناس وہاں نہ پہنچ سکے۔ نظام نے یہ وار زائل کردیا۔اس کے پاس بندرگاہ نہیں تھی مگروہ ہر طریقے سے اپنی رعایاکوغذااوردوائیاں بہم پہنچاتارہا۔یہ صورتحال 1948ء تک چلتی رہی۔اس وقت نظام نے ہندوستان کے متعصب رویہ کوپہچانااورپاکستان کے ساتھ خفیہ مذاکرات شروع کردیے۔یہی وہ عرصہ تھاکہ جس میں ایک ملین پاؤنڈ،لندن میں پاکستانی سفارت خانے کے اکاؤنٹ میں جمع کروادیے گئے۔انڈیاکے لیے یہ سب کچھ ناقابل قبول تھا۔لہذا1948ء میں ہندوستانی فوج نے ایک ڈویژن کی نفری کے ساتھ حیدرآبادپرحملہ کر دیا۔ نظام یہ جنگ جیت نہیں سکتاتھا۔
نظام کے ایک لاکھ برطانوی پاؤنڈ،آج چونتیس لاکھ پاؤنڈبن چکے ہیں۔لندن میں عدالت کے سامنے انڈین حکومت نے یہ نکتہ اُٹھایاکہ پاکستان کااس دولت پرکوئی استحاق نہیںہے۔مختلف شواہدسامنے رکھتے ہوئے، برطانوی عدالت نے فیصلہ کیاہے کہ پاکستان اس دولت میں شریک کارہے اوریہ حق پاکستان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ فیصلہ تین چاردن پہلے ہواہے۔2014ء میں دنیا کے امیرترین شخص کی اولادیں مختلف ملکوں کی عدالتوں میں اپنے حصے کی دولت حاصل کرنے کے لیے دست وگریبان ہیں۔ سیکڑوں مقدمات میں مصروف کارہزاروں حصے دار ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں۔ان میں سے اکثریت مالی طور پر انتہائی کمزورہیں۔سیٹھ انھیں پیسے دیکر کاغذ خرید لیتے ہیں اورپھرجائیدادکے مالک بن جاتے ہیں۔ عبرت ناک مناظرریاست کی ہرکچہری اوردفترمیں سب کے لیے باعث افسوس ہیں۔
لندن میں موجودکیس کاکیافیصلہ ہوگا۔اس سے کوئی سروکارنہیں۔ہلکی سی بھی دلچسپی نہیں۔یہ قانونی جنگ اگلی کئی دہائیوں تک جاری رہے گی۔لامتناہی سلسلہ کب ختم ہوگا، کوئی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔اصل نکتہ یہ ہے کہ دنیاکے امیرترین بادشاہ کی دولت بھی اولادکے کام نہ آسکی۔لندن کی عدالت میں جہاں پاکستان اورہندوستان،دوفریق موجود ہیں،وہاں نظام کے دوبیٹے بھی عدالت میں اسی دولت کے جائزحقدارکی حیثیت سے مقدمہ لڑرہے ہیں۔ ترک سلطان کی بیٹی سے جواولادتھی،آج استنبول میں دو کمروں کے فلیٹ میں رہنے پرمجبورہے۔ہرایک کوبتابھی نہیں سکتے کہ وہ کون ہیں اورکیاتھے۔
سب کے لیے بے نام سی حیثیت رکھتے ہیں۔ روزصبح اٹھ کرعدالتوں اوردفتروں کے چکرلگاتے ہیںکہ کسی طریقے سے والد کی دولت میں سے کچھ حاصل کرلیں۔وقت بہت ظالم چیزہے۔اس کی گردمیں عثمان علی خان گم ہوچکاہے اوراس کی اولاددبدرٹھوکریں کھانے پرمجبور ہے۔پاکستان کے ڈیڑھ دوسوخاندانوں کو بطور خاص "نظام" کی دولت اوراس کی اولادکاانجام پڑھنا چاہیے۔ سیکھنا چاہیے کہ آپ اپنی اولاد کو اچھا اور امیر مقدر ہرگز ہرگز نہیں دے سکتے۔مگریہاں کوئی نہیں سنے گا۔کوئی نہیں سمجھے گا۔ اگر دنیاکاامیرترین شخص وقت کے سامنے بربادہوگیاتوکوئی بھی نہیں بچ سکتا!