جمنا کے چوراہے
امیر خسرو بانی قوالی تھے، شاعر تھے، موسیقار تھے وہ تھے طبلے کی ایجاد کے مالک تو ستار بھی ان کی ایجاد تھی
FAISALABAD:
آج امیر خسرو دہلوی بہت یاد آئے۔ دہلی جب اپنے بانکپن میں انگڑائی لے رہا تھا اس کے وجود میں کئی ادوار آئے، کئی حملہ آور آئے، نشیب و فراز اور پھر غالب آئے، غالب سے پہلے ہمارے ٹھٹھہ سے گزرتے سرمد آئے، دہلی پنپتا رہا سب اپنی آغوش میں، صوفی آئے، سادھو آئے۔
امیر خسرو بانی قوالی تھے، شاعر تھے، موسیقار تھے وہ تھے طبلے کی ایجاد کے مالک تو ستار بھی ان کی ایجاد تھی، حضرت نظام الدین اولیا کے پیروکاروں میں تھے۔ وہ نہ مرد تھا نہ عورت، نہ یہ تھا نہ وہ تھا۔ نہ تم تھا نہ میں تھا۔ وہ ''کن فیکون'' کی آوازوں میں غلطاں تھا اسے خدا موسیقی میں نظر آیا۔
لہو میں لت پت امجد صابری قوال کی تصویر پر جب میری نظر پڑی، میں چلا گیا امیر خسرو کے پاس، اس تاریخ میں ان تاریک راہوں سے پابجولاں، مست و رقصاں ...بداماں چلتا گیا، ساز و آوازوں کی یلغار تھی یا کوئی مرہم تھا، زخم بھی دیتا گیا اور زخم بھرتا بھی گیا ، جس طرح بڑے غلام علی کی گائی یہ ٹھمری ہے ''کنکر مار جگاگیو ہائے جمنا کے چوراہے رہے'' ...''ہائے رام''
قوال امجد صابری پے لکھوں یا قوالی پے لکھوں، یا صوفیوں کی طویل صدیوں میں پھیلی رواداری کی تحریک پہ لکھوں یا ان قاتلوں پہ لکھوں جو سب بھسم کرنا چاہتے ہیں، بچوں کے اسکول ہوں، یا صوفیوں کی درگاہیں ہوں، انسانی حقوق کی مسافتوں پر چلنے والے ہوں، جیسے پروین رحمٰن تھی، سبین تھی یا خرم ذکی تھے۔
اب کے بار نئی رسم چلی ہے، نوحہ خواں کو مارو، قوال کو مارو، طبلہ و ستار بھسم کردو، سیکولر تعلیم کو جلادو، عورتوں کو اتنا مارو بس صرف ان کی ہڈی نہ ٹوٹے۔
اور پھر ستم یہ کہ ریاست غائب ہے، کوئی کہتا ہے کراچی میں رینجرز کی حکومت ہے اور کوئی کہتا ہے وڈیروں کی حکومت ہے۔ اتنی ساری حکومتیں ہیں اس شہر کراچی میں کہ حکومت ہے بھی یا نہیں ہے۔ بھتہ خوری گئی، ہم مانتے ہیں، شہر سے قبضہ مافیا گئی ہم مانتے ہیں، شہر میں امن بھی آیا ہم مانتے ہیں، ضرب عضب بھی ہوا ہم مانتے ہیںجو ہم نہیں مانتے وہ ہے صبح بے نور ہے اور یہ دستور ہے۔ نفرتوں کے تانتے بندھے ہوئے ہیں، کوئی سعودی عرب کے فنڈ پر پلتا ہے تو کوئی ایران کے ۔ جنونی پنپ رہے ہیں اور عمران خان انھی کو ہمارے ٹیکسوں میں سے پیسے دے رہے ہیں جن کو سعودی عرب کا دیا بہت کچھ ہے۔
یہ ریاست سب کی ہے یا قائم علی شاہ کی ہے ان کے پیچھے بیٹھے وڈیروں کی ہے، ذخیرہ اندوزوں کی ہے۔ گماشتہ سرمایہ داروں کی ہے، جرنیلوں، ججوں وٹیکس نہ دینے والے ایوانوں میں بیٹھے ارکان کی ہے۔ نہیں ہے اگر یہ ریاست تو وہ میری نہیں ہے، آپ کی نہیں، طبلہ نواز، ستار نواز و قوال کی نہیں ہے ، دہقانوں و مزدوروں کی نہیں ہے۔ بھوک سے بلکتے بچوں کی نہیں ہے۔
اقلیتوں کی، عورتوں کی نہیں ، دلیری سے کہتے رپورٹ کرتے صحافیوں کی نہیں ہے، قلم کار کی نہیں ہے۔ تو پھر کیوں نہ مارا جائے گا امجد صابری، کیوں نہ ہوگا حملہ ملالہ پر، اور پھر ہم سازشوں میں بانٹیں جائیں گے، یہ سب ریاست کے عدو ہیں جن کی ہرزہ سرائی جو سول وار کے دہانے پر کھڑی ہے اور ہم دشمن کو سرحدوں پر ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہم غداروں کو ڈھونڈ رہے ہیں، یہ سب اس طویل بیانیہ کا تسلسل ہے جس سے ہمارا تعلق اب چولی اور دامن کی طرح ہے۔ہمارا بیانیہ ضیا کے دور سے اب تک اتنا بگڑا ہے کہ اب جب رواداری کا بیانیہ بنانے کے لیے امجد صابری آئے تو کسی کو کچھ بھی خبر نہ ہوئی کہ کوئی اس کا بھی تعاقب کرسکتا ہے۔ کوئی اس گائیک کو بھی موت کی نیند سلا سکتا ہے۔
سندھ کی تاریخ میں یہ دوسرا سب سے بڑا گائیک ہے جس کا قتل ہوا ہے۔ اس سے پہلے 1939 میں بھگت کنور کا خون ہوا تھا زک اسٹیشن پر، وہ بھی سادھو تھا۔ فقیر منش تھا، خود اپنے گیت لکھتا، خود ان کی دھن بناتا، خود ہی گاتا، پاؤں میں پازیب پہنتا، عقیقوں کے ہار تو انگلیوں میں انگوٹھیاں پہنتا اور ہندو و مسلمانوں کو ساتھ ساتھ امن و محبت سے رہنے کا پیغام دیتا۔ اس کا ہر گیت یہی کہتا تھا کہ خدا ایک ہے، اس کے زاویے بہت سے ہیں۔ وہ سب کا خدا ہے۔ وہ پھر بھگتی (Concert) کرنے کے بعد سب کے سامنے جھولی پھیلاتا اور جو بھی اسے ملتا، وہ کھڑے کھڑے وہیں غریبوں میں بانٹ دیتا اور اکثر غریب ہندو نہیں ہوتے تھے مسلمان ہوتے تھے۔
جس طرح بھگت کنور کا قتل انسانیت کا قتل تھا بالکل اسی طرح امجد صابری کا قتل بھی انسانیت کا قتل ہے۔ قوالی کا قتل ہے۔ طبلے و ستار کا قتل ہے۔ جناح اور فاطمہ کا قتل ہے، جناح کے پاکستان کا قتل ہے۔
ہمارے شاہ بھٹائی برصغیر کی موسیقی کے مداح تھے۔ مورخ یہ تو نہیں بتاتا کہ وہ امیر خسرو سے آشنا تھے کہ نہیں لیکن یہ ناممکن ہے کہ وہ نہ ہوں، ان کی شاعری پر مولانا رومی و بھگت کبیر کا گہرا اثر ہے۔ ان کی شاعری کے سارے باب کلاسیکی موسیقی کے پس منظر و مختلف ناموں سے رقم ہیں، وہ کلاسیکی راگ کو بہت جانتے تھے وہ خود ستار نما ساز ''تنبورو'' کے بانی تھے۔ سیلانی تھے، گجرات جانا تو ان کا ہر سال ہوتا تھا۔ بڑے بڑے راگی اپنے پاس لے آتے تھے۔
اور پھر دیکھئے سندھ نے پاکستان بننے سے پہلے تو کچھ حد تک لیکن پاکستان بننے کے بعد شاہ بھٹائی کو سندھ کی روح کا محور بنادیا۔ اس کے پیغام کو اپنی روح اور ایمان بنالیا۔
ہاں مگر اب کے بار پاکستان جیسے خود برصغیر میں پڑی اپنی تاریخ سے خائف ہے جس طرح اورنگزیب ہوا کرتے تھے۔ ہمارا بس چلے تو ہم سعودی عرب کے پڑوسی ہوجائیں۔ ہم اب اتنے منافق ہوگئے ہیں کہ یہ کہیں کہ اسلام میں بادشاہت حرام ہے، ہاں مگر اتنے دیدی دلیر ہیں کہ یہ ضرور کہیں گے قوالی حرام ہے۔
آپ کہیں کہ قوالی حرام ہے، میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں، آپ پر لازم ہے کہ میری رائے کا بھی احترام کریں کہ قوالی میری روح ہے، موسیقی روح کی غذا ہے۔
یقینا آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ آپ قوالی خواں کو مار دیں۔ نوحہ خواں ہو یا سیکولر تعلیم حاصل کرتے بچے ہوں۔ آپ انسانیت کو قتل کرنے کے جنون میں کیوں ہیں؟
جب ریاست خود فریق ہو تو معاملہ ادھر سے اور بگڑتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں مختلف چینلوں پر ہونے والی پر شور بحث پر جس انداز سے پیمرا نے احکامات جاری کیے ہیں وہ آئین کے آرٹیکل 19 سے ٹکراؤ میں ہے۔ جس طرح کسی کو یہ اجازت ہو کہ وہ مذہب کی آڑ میں عورتوں کی تذلیل کرے انھیں جانور سمجھے وہ آرٹیکل 25 سے متصادم ہے۔
اب آپ کو ایک موقف اختیار کرنا ہوگا یا تو انسانی حقوق یا بنیادی حقوق جو آئین میں وضع کیے ہوئے ہیں ان کو یقینی بنائیں یا پھر جانے دیجیے ان سب کو... اور چلتے ہیں امیرالمومنین، خادم اعلیٰ کی طرح ایک نظام بنائیں۔
جب تک ریاست اور مذہب الگ الگ نہیں ہوں گے ، پاکستان اپنی ڈگر سے بہت دور چلا جائے گا۔ ایک امجد صابری نہیں کئی امجد صابری قتل ہوتے رہیں گے۔