جگہیں تبدیل بھی ہوسکتی ہیں
جرمن فلسفی صحیح کہتا ہے، جب وہ کہتا ہے کہ ’’یادیں کبھی نہ ختم ہونے والی اذیت کی خدمت گزاری کرتی ہیں‘‘۔
جرمن فلسفی صحیح کہتا ہے، جب وہ کہتا ہے کہ ''یادیں کبھی نہ ختم ہونے والی اذیت کی خدمت گزاری کرتی ہیں''۔ بلاشبہ ہم ماضی کو بھلانے کی کوشش کرسکتے ہیں، کیوں نہیں۔ کیا یہ انسان کے لیے فطری نہیں کہ جو کچھ اس کو دکھ پہنچائے یا شرمندہ کرے وہ اس کو دبائے۔ کسی جسم کی طرح یادداشت بھی اپنے زخموں کو بچاتی ہے۔ بے خواب راتوں کے بعد جب دن نکلتا ہے تو بھوت کو واپس جانا پڑتا ہے اور مرے ہوؤں کو اپنی قبروں کو لوٹ جانا پڑتا ہے۔ مگر تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہم اپنے مردوں کو دفن نہیں کرسکے، مگر ان کی قبریں ہمارے اندر موجود ہیں۔
میں کیسے بھول جاؤں اپنے ان نوجوانوں کو جو بے روزگاری کی وجہ سے بے موت مارے گئے، جو اپنے وقت سے پہلے ہی قبروں میں جا لیٹے۔ میں کیسے بھول جاؤں ان بچوں کو جنھوں نے اپنا بچپنا کھیلنے کے بجائے دودھ کے چند قطروں کے انتظار میں ترستے ترستے کاٹا ہے۔ میں کیسے بھول جاؤں ان باپوں کو جو اپنے گھروں کے بجھے چولہے دیکھ کر اپنے آپ کو پیٹتے ہیں۔ میں کیسے بھول جاؤں ان ماؤں کو جو اپنے بچوں کو روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے لیے تڑپتے، بلکتے دیکھتی ہیں۔ میں کیسے بھول جاؤں مسجدوں، امام بارگاہوں، گرجا گھروں، مندروں میں بکھرے انسانی جسموں کو، میں کیسے بھول جاؤں عبادت گاہوں کی دیواروں اور فرش پر جمے انسانی خون کو، میں کیسے بھول جاؤں چند روپوں کی خاطر اپنے جسم کے اعضا بیچتے انسانوں کو، میں کیسے بھول جاؤں ان ذلتوں کو جو غریبوں کے مقدر میں لکھ دی گئی ہیں۔
میں کیسے بھول جاؤں ان انسانوں کو جن کے خواب کرچی کرچی ہو آنکھوں میں دھنس گئے ہیں۔ میں کیسے بھول جاؤں اپنے ان نوجوانوں کو جو تیزاب بنادیے گئے ہیں۔ میں کیسے بھول جاؤں ان انسانوں کو جو بے اختیاری کی زنجیروں میں قید ہیں۔ میں کیسے بھول جاؤں ان انسانوں کو جن پر تپتا سورج کبھی غروب ہی نہیں ہوتا ہے۔ میں کیسے بھول جاؤں ان انسانوں کو جو ساری ساری رات بجلی آنے کے انتظار میں کاٹتے ہیں، جو پانی کی ایک ایک بالٹی کے لیے سار اسارا دن مارے مارے پھرتے ہیں۔ میں کیسے بھول جاؤں ان انسانوں کو جو گالیاں سن کر ذلتیں سہہ کر پھر بھی مسکراتے ہوں۔ میں کیسے بھول جاؤں ان انسانوں کو جنہیں ہر جگہ سے دھتکارا جاتا ہو۔ میں کیسے بھول جاؤں ان انسانوں کو جو گندگی میں رہتے ہیں اور گندگی کھاتے ہیں۔
ایسا جیسا اور کوئی حکم خداوندی نہیں جو انجیل میں بار بار آیا ہو ''ہمارا فرض ہے کہ ہم عطا ہونے والی اچھائیوں کو اور دکھ دینے والی برائیوں دونوں کو یاد رکھیں''۔ ایسا وقت بھی ہوتا ہوگا جب ہم ناانصافی کو روکنے میں بے بس ہوتے ہیں مگر ایسا وقت کبھی نہیں ہونا چاہیے جب ہم احتجاج کرنے میں ناکام ہوں۔ ہم تمام قید خانے کھول دینے اور سارے قیدیوں کو آزاد کرنے میں بے بس ہوں گے مگر ایک قیدی، ایک مظلوم سے اپنی یک جہتی کا اعلان کرکے ہم تمام جیلروں کو ملزم ٹھہرا سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے لوگوں کے دکھوں کو یاد رکھنا ہوگا، کیونکہ جگہیں ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی ہیں، تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔ آج ہم جس جگہ پر ہیں اور ہمارے اپنے لوگ جس جگہ پر ہیں، یہ جگہیں تبدیل بھی ہوسکتی ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے لوگوں کے دکھوں کو یاد رکھنا ہوگا، کیونکہ ان دکھوں کی قبریں ہمارے اندر موجود ہیں۔
قبل از مسیح کے مشہور ڈرامہ نگار ''Terence'' نے کہا تھا ''آدمی، انسان ہونے کے ناتے جو کچھ انسانیت کو درپیش ہے اس سے پہلوتہی نہیں کرسکتا''۔ ہمیں لوگوں کی تقدیر کا ساجھے دار ہونا پڑتا ہے۔ تاریخ میں سب انسانوں نے اپنے لوگوں کے دکھوں کو اپنے اندر زندہ رکھا ہوا ہے، وہ انھیں کبھی مرنے نہیں دیتے ہیں، جب جاتے ہیں تو انھیں آنے والوں کے حوالے کردیتے ہیں۔ نوبیل انعام یافتہ ادیب ایلی ویزیل ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ ان لوگوں کے مقدر کے لکھے کو بھلا دیں جو انتقال کرچکے ہیں۔
اگر ہم بھلا دیتے ہیں تو یوں ہے جیسے ہم ایک بار پھر انھیں موت کے منہ میں ڈال رہے ہوں اور ان کی زندگی اور موت دونوں کو بے مقصد بنانے کے ذمے دار ہوں۔ وہ فرض اور ذمے داری ایلی ویزیل جس کی تبلیغ کرتے ہیں، بنیادی طور پر ماضی کی ہولناکیوں کے دہرانے کے خوف کی وجہ سے نہیں ہے، یہ ایک طرح کی مصروفیت سے زیادہ ہے، جو مستقبل میں برائی کی طاقتوں کی امکانی فتح کو روکنے کے لیے ہوتی ہے۔ اس عمل کی تخلیقی طاقت نفرت اور انتقام نہیں بلکہ امن کی آرزو ہے، خوشحالی کی تمنا ہے، زندگی سے محبت ہے، مسائل کا خاتمہ ہے اور انسانی عظمت کا احترام ہے یا جیسا کہ ایلی ویزیل نے خود کہا ہے ''میں اس کی دوبارہ تعمیر کی کوشش سے جس کو انھوں نے تباہ کیا ہے، اپنے قاتلوں کو فتح کروں گا''۔
یادداشت کے بغیر ہمارا وجود بانجھ اور تاریک ہوجاتا ہے، قید کی اس کوٹھری کی طرح جہاں روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی، کسی مقبرے کی طرح جو زندگی کو مسترد کرتا ہے، امید بغیر یادداشت کے ویسی ہے جیسے یادداشت بغیر کسی امید کے۔ جس طرح انسان خوابوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا وہ امید کے بغیر بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگر خواب ماضی کی یاد دلاتے ہیں تو امید مستقبل کو طلب کرتی ہے، یہ ہماری یادداشت ہی ہوگی جو انسانیت کو بچائے گی۔
تو پھر آئیں ہم سب ایک ساتھ مل کر اپنے لوگوں کے دکھوں کو یاد کریں۔ تو پھر آئیں اپنے دل ان کے لیے جلاتے ہیں، اپنے اندر احساس کے لاکھوں دیے روشن کردیتے ہیں، ان دکھوں کو محسوس کرنے کے لیے جو ہمارے اپنے لوگ سہہ چکے ہیں یا سہہ رہے ہیں، بغیر کسی گناہ کے، جرم کے، قصور کے۔ یاد رکھیں ایسی تباہی جسے صرف انسان شروع کرسکتا ہے، انسان ہی اس کو روک سکتا ہے۔ تو پھر دوسروں کی خاطر نہ سہی، اپنی خاطر سہی، آئیں مل کر دکھوں کو سولی پر چڑھا دیتے ہیں، کیونکہ جگہیں تبدیل بھی ہوسکتی ہیں۔