بھارت نے متنازع سرکریک کے قریب توانائی کی تنصیبات پر کام کا آغاز کردیا

رن آف کچھ کے علاقے سے نمک کے حصول کے علاوہ صوبہ گجرات میں بجلی کے حصول کیلیے متبادل ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں


آن لائن June 26, 2016
کچھ میں ہی مندرا کے علاقے میں 9 ہزار میگاواٹ کوئلے کے تھرمل پاور اسٹیشن لگائے گئے ہیں۔۔ فوٹو: فائل

بھارت اور پاکستان کے مابین سمندری متنازع علاقے سرکریک کے قریب بھارت نے توانائی کی تنصیبات پر تیزی سے کام شروع کر دیا ہے جس سے ساحلی علاقے میں ماحولیات پر برے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں جبکہ نزدیک ہی کوٹیشور کی بندرگاہ کو بھی اپ گریڈ کر لیا ہے۔

یہ تمام تنصیبات گزشتہ 4 برسوں سے روزانہ کئی درجن ملین ٹن کوئلہ جھونک رہی ہیں، رن آف کچھ کے علاقے سے نمک کے حصول کے علاوہ صوبہ گجرات میں بجلی کے حصول کیلیے متبادل ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں جن میں سولر ونڈ ویسٹ ٹو انرجی اور دیگر ذرائع سے ریاستی حکومت 6 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرتی ہے جبکہ ہائیڈل اور کول سے 6 ہزار میگاواٹ لیتی ہے، پاکستانی ملحقہ علاقے کچھ میں ملنے والے کوئلے کے بعد ساحل پر سانگی سیمنٹ اور 12 سومیگاواٹ کا کوئلے کا بجلی گھر سمیت دیگر کئی کوئلے پر چلنے والی تنصیبات قائم کی گئی ہیں جبکہ حال ہی میں کچھ میں ہی مندرا کے علاقے میں 9 ہزار میگاواٹ کوئلے کے تھرمل پاور اسٹیشن لگائے گئے ہیں۔

فضائی آلودگی کے علاوہ موسمی اثرات پاکستان کے ساحلی علاقوں میں نمایاں ہو رہے ہیں، گلیشئیر سے نکلنے والے دریائے ستلج پر بھارت کا سب سے بڑا بجلی گھر بنایا گیا ہے، ستلج کا پانی ہماچل میں بھکرا ڈیم سے اور نیچے نانگل ڈیم سے موڑا گیا ہے، ستلج کاباقی پانی پاکستانی حدود میں داخل ہونے سے پہلے بھارتی پنجاب میں راجھستان کے صحرا میں موڑ دیا گیا ہے جس سے پورا صحرا آباد کیا جا رہا ہے، تاہم ستلج میں بھی اضافی پانی آنے کی صورت میں بغیر اطلاع پاکستان میں پانی چھوڑ دیا جاتا ہے، ستلج کا پانی چوری کرنے اور سیلاب چھوڑنے کی آبی دہشت گردی بھی بھارت مسلسل کر رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں