توانائی کا بحران
قارئین کی یہ بات درست ہےکہ ہم لکھنےوالےدنیا جہاں کے مسائل پر لکھتے ہیں مگر عوامی مسائل بہت کم یا کبھی کبھار لکھتے ہیں۔
www.facebook.com/shah Naqvi
قارئین کی یہ بات درست ہے کہ ہم لکھنے والے دنیا جہاں کے مسائل پر لکھتے ہیں مگر عوامی مسائل بہت کم یا کبھی کبھار لکھتے ہیں۔ ان کا شکوہ بجا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں عوامی مسائل کا پہاڑ کھڑا ہے۔
اب گرمیاں ہیں تو لوڈشیڈنگ سب سے بڑا مسئلہ ہے' بجلی کی کمیابی گھر سے لے کر باہر ہر جگہ بحران کا باعث ہے۔ اب رمضان المبارک میں بجلی کی کمی کو کس طرح پورا کیا جا رہا ہے بہتوں کو اس کا اندازہ نہیں۔ وہ بجلی جو صنعتوں کو فراہم کی جاتی ہے اس میں کٹوتی کر کے صارفین کو فراہم کی جا رہی ہے۔ صنعتوں اور فیکٹریوں کے اپنی استعداد سے کم کام کرنے کی وجہ سے لیبر کو مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے بے روز گاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مزدور عین رمضان اور عید کے موقع پر بے روز گار ہو رہے ہیں' جب ہر گھر کا خرچہ معمول سے دوگنا اور تین گنا ہو جاتا ہے۔ ذرا سوچئے اس شخص کا کیا بنے گا جو ان دنوں اپنی معمول کی اجرت سے ہی محروم ہو جائے۔
ان پر تو قیامت گزرنے کا ہی منظر ہے۔ معاشی حالات کے ہاتھوں خود کشیوں کا ارتکاب کرنے کی خبریں تو ہم پورا سال ہی پڑھتے رہتے ہیں لیکن عید کے موقع پر ان خود کشیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ان کے اقتدار میں آنے کے 6 مہینے بعد ختم ہو جائے گی لیکن آج 36 مہینے گزر چکے ہیں لوڈشیڈنگ ختم ہونے کا دور دور نام و نشان نہیں۔ اخبارات گواہ ہیں۔ بڑے شہروں کے کچھ خاص علاقوں کو چھوڑ کر چھوٹے شہروں اور قصبات کا حال تو بہت ہی برا ہے۔
پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں میں تو بجلی جاتی ہے تو کئی کئی گھنٹوں آنے کا نام نہیں لیتی' بعض اوقات کئی کئی دن نہیں آتی۔ جنوبی پنجاب کا حال بھی کم برا نہیں جہاں سے ٹیلیفون آتے رہتے ہیں۔ اس صورت حال میں اے سی اور فریج چلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات بہاولپور کی ہو رہی ہے جو جنوبی پنجاب کا بڑا شہر ہے۔ جب وہاں یہ صورت حال ہے تو سرائیکی بیلٹ میں واقع دوسرے شہروں اور قصبات کا اندازہ آپ خود ہی لگا سکتے ہیں۔اس موقعہ پر ''کے الیکٹرک'' کا ذکر نہ کرنا کراچی کے شہریوں سے ناانصافی ہو گی جس نے کراچی کے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ایک تو لوڈشیڈنگ دوسرے بجلی کے ناجائز بل، جتنی بجلی صرف ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ بل آ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے زیادہ قیامت کم آمدنی اور مزدور طبقے پر ٹوٹتی ہے۔ جائیں تو جائیں کہاں۔ اس ضمن میں پنجاب کا حال بھی یہی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پورے ملک کا حال ہی ایسا ہے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔ میں یہ سب ایسے ہی نہیں لکھ رہا پورے ملک سے بے بس قارئین ہمیں توپ چیز سمجھ کر ٹیلیفون کرتے ہیں۔ ہم بیچارے لکھنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اگر متعلقہ حکام اور ارباب اختیار کے کان پر جوں بھی نہ رینگے تو پھر عوام کہاں جائیں۔ سڑکوں پر جا کر احتجاج کریں تو پولیس کے ہاتھوں پٹ پٹا کر گھر اور اگر زیادہ احتجاج کیا تو جیل تو ہے ہی۔حال ہی میں ایک رپورٹ ترسیلی نظام کے بارے میں شایع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ناقص ترسیلی نظام سے سیکڑوں میگاواٹ بجلی ضایع ہو رہی ہے۔
اگر ترسیلی نظام کو بہتر نہ بنایا گیا تو بجلی کی پیداوار بڑھنے کے باوجود اضافی بجلی صارفین تک پہنچ نہیں سکے گی۔ ترسیلی نظام بہت پرانا اور فرسودہ ہو چکا ہے جس کو بدلنا ناگزیر ہے لیکن اس کے لیے کثیر سرمائے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ملک میں یوٹیلٹی اسٹور قائم کیے گئے ہیں لیکن ایک تو ان میں اشیاء کا معیار ناقص ہے دوسرا پاکستان کی آبادی کے مقابلے میں ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ یہ یوٹیلٹی اسٹور زیادہ تر بڑے شہروں میں قائم ہیں۔ چھوٹے شہروں میں اکا دکا اور قصبات دیہات میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
جہاں تک بجلی کی قلت کا تعلق ہے تو ہماری مجبوریوں کی ایک طویل داستان ہے۔ ہمارے ملکی معاملات شروع سے ہی بیرونی دباؤکا شکار رہے ہیں۔ اپنی مرضی سے ہم کچھ نہیں کر سکتے جب تک بیرونی قوتوں کی اجازت شامل نہ ہو۔ پہلے بیرونی دباؤ کا اہم عامل امریکا رہا ہے۔ اب بیرونی دباؤ کے عوامل میں چین اور مشرق وسطیٰ کی بادشاہتیں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ اب ہم اپنا کوئی بھی کام ان طاقتوں کی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتے۔
اب دیکھ لیں پاکستان اور پاکستانی عوام کے بہترین مفاد میں ہے کہ ایران سے گیس لی جائے جس نے دو سو ارب روپے خرچ کر کے یہ گیس پائپ لائن پاکستان اور ایران کی سرحد پر پہنچا دی ہے اور ایران پاکستانی سرزمین پر پائپ لائن ڈالنے میں مدد کے لیے بھی تیار ہے لیکن ہم ایرانی گیس حاصل نہیں کر سکے۔ اصل بات حکومتی ارباب اختیار نہیں بتاتے' بس عوام کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنی پالیسیوں کی بدولت امریکا ' چین اور عرب بادشاہتوں کے زیر اثر آ گیاہے۔
بہر حال پاکستان کے ارد گرد توانائی کے وافر ذخائر موجود ہیں' اگر ہم اپنی پالیسیوں میں آزاد ہوں تو پاکستان توانائی کے بحران پرباآسانی قابو پا سکتا ہے' اگر ایسا ہو جائے تو لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی ' ایسے کار خانے جو بجلی کی کمی کی وجہ سے بند ہیں یا پوری استعداد سے کام نہیں کر سکتے وہ بھی چل پڑیں گے' مزدوروں کو روز گار ملے گا اورپاکستانی معیشت جو جمود کا شکار ہے تیزی سے ترقی کر سکے گی۔ لیکن یہ سب تو اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہمارے معاملات ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہوں' دوسروں کے جنبش ابرو کے محتاج نہ ہوں... کیا ایسا ممکن ہے بظاہر تو ایسا نہیں لگتا۔
پاکستانی سیاست جولائی سے اکتوبر کے درمیان فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔
سیل فون:۔ 0346-4527997