لاقانونیت کا راج کیوں
ملک میں دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں جرائم کی وارداتیں بلا خوف و خطر اور روک ٹوک جاری ہیں
ملک میں دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں جرائم کی وارداتیں بلا خوف و خطر اور روک ٹوک جاری ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں چیف جسٹس (سندھ) کے بیٹے کے اغوا اور معروف قوال امجد صابری کے قتل کے واقعات پیش آئے اور وزارت داخلہ کی طرف سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا گیا کہ ملک کی مختلف جیلوں میں رات کے اوقات میں خواتین قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے۔
اس طرح کے واقعات جیل عملہ کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتے۔ اب تک ذمے داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔ اس شرمناک اور سنگین رپورٹ پر کمیٹی نے وزیر مملکت برائے داخلہ سے کہا ہے کہ وہ ایسے واقعات کے بارے میں معلومات جمع کرکے کمیٹی کے سامنے پیش کریں۔ چند دنوں کے اندر رونما یا افشا ہونے والے یہ تین واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک میں کہیں بھی قانون و انصاف کی حکمرانی نہیں ہے۔
چیف جسٹس کے بیٹے کو جو خود بھی وکیل ہیں، کراچی کے پوش اور تجارتی گہماگہمی والے علاقے سے دن دہاڑے اسلحہ کے زور پر اغوا کیا گیا، جو ریڈ الرٹ زون میں واقع ہے، جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد، CCTV کیمرے، پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز اور ہزاروں افراد موجود رہتے ہیں۔ اغوا کاروں کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ 4 افراد تھے، سفید لباس میں ملبوس سر پر کیپ اور منہ پر ڈھاٹے باندھے ہوئے تھے، مغوی نے مزاحمت کی کوشش کی اور مدد کے لیے پکارا، مگر اطراف میں موجود سیکیورٹی گارڈز، پارکنگ و دیگر عملہ اور شہری اس کی کوئی مدد نہ کرپائے۔ اس طرح اغوا کار آرام سے اپنی کارروائی کرکے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
شہر میں خوف و ہراس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے عدم تحفظ و عدم اعتماد اور خوف کی جو فضا قائم ہے اس میں کسی شخص یا پرائیویٹ سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی ہمت ہی نہیں بنتی کہ وہ اپنے سامنے ہونے والے واقعات جن کو وہ روکنے یا مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، روک سکیں۔ کیوں کہ اکثر جرائم پیشہ عناصر کے پیچھے منظم مافیا ہوتی ہے۔
وکیل کے اغوا کے اس کیس میں دیکھنے میں آیا کہ جب متعلقہ تھانہ کی پولیس نے ایس ایس پی کو صورتحال سے آگاہ کیا تو انھیں کہا گیا کہ کوئی بڑا آدمی ہوگا، اس کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کرپشن کے الزام میں گرفتار کرکے لے گئے ہوں گے، لہٰذا کار کے قریب سادہ لباس میں اہلکار تعینات کردیں، اگر کوئی کار لینے آئے تو فوری طور پر حراست میں لے کر تھانہ لایا جائے۔
حالانکہ اگر واقعے کے فوراً بعد ہی گاڑی کی نمبر پلیٹ کے ذریعے کوائف حاصل کرکے کارروائی شروع کردی جاتی تو اغواکاروں کو کئی گھنٹے نہ مل پاتے۔ واقعے کے چھ آٹھ گھنٹے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انتظامیہ حرکت میں آئی، داخلی و خارجی راستوں پر چیکنگ شروع ہوئی، سیکڑوں مشتبہ افراد حراست میں لیے گئے، اندرون سندھ چھاپوں میں ہزاروں گرفتار ہوئے، سیکڑوں دیہاتوں کی گھر گھر تلاشی لی گئی اور یہ سلسلہ جاری ہے، رینجرز نے اطلاع دینے والے کے لیے 25 ہزار اور وزیراعلیٰ نے ایک کروڑ دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس میں امن وامان کی صورتحال سے متعلق اجلاس ہوئے، انھوں نے واقعے میں سیکیورٹی اداروں کی ناکامی کا اعتراف کیا۔
چیف جسٹس کے بیٹے کا دن دہاڑے اغوا ماضی میں ہونے والے اغوا کی وارداتوں سے مختلف نوعیت کا محسوس ہوتا ہے، اس میں اغواکاروں کا مقصد محض تاوان کی رقم حاصل کرنا یا کچھ سیاسی مقاصد حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کا مقصد اس واردات کے ذریعے بہت سے پیغامات دینا ہوسکتا ہے۔ حکومت کی رٹ تو بار بار چیلنج ہوتی رہی ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن یہ واردات عدلیہ پر براہ راست اثر انداز ہونے کی کوششیں بھی ہوسکتی ہے، کیوں کہ عدالتوں میں جرائم اور کرپشن کے متعلق ہائی پروفائل مقدمات چل رہے ہیں، جن میں عدالتیں بڑی بے خوفی اور جانفشانی کے ساتھ کرپٹ اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت کررہی ہیں، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو وقتاً فوقتاً ہدایات و احکامات جاری کرتی اور سرزنش کرتی رہتی ہیں۔
کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ 22 ہزار ملزم آزاد گھوم رہے ہیں، امن کیسے قائم ہوگا، انھیں گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ عدالت نے اس بات کا بھی سخت نوٹس لیا تھا کہ 10 ہزار ملزموں میں سے صرف 2 سو کے قریب ملزمان کے چالان عدالت میں پیش کیے گئے ہیں۔ ایک موقع پر تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر حکومت سندھ اپنے شہریوں کی حفاظت نہیں کرسکتی ہے تو کہہ دے کہ ''شہری اپنی ذمے داری پر گھروں سے باہر نکلیں''۔
معروف قوال امجد صابری کا دن دہاڑے رش کے اوقات میں مرکزی شاہراہ پر قتل کی واردات ایسے وقت پر رونما ہوئی جب چیف جسٹس کے بیٹے کے اغوا کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہائی الرٹ تھے، شہر میں جگہ جگہ ناکہ بندی اور سخت چیکنگ جاری تھی۔ یہ واردات مجرموں کی دیدہ دلیری، قانون سے بے خوفی اور احساس تحفظ کو ظاہر کرتی ہے۔ اس طرح کے واقعات کا مقصد شہر میں خوف وہراس کی فضا پھیلانا ہوسکتا ہے، کیوں کہ مقتول ملنسار، ہر دلعزیز، بے ضرر قسم کی شخصیت کے مالک بتائے جاتے ہیں۔
مقتول کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے لواحقین کے لیے 1 کروڑ مالی امداد اور بچوں کے تعلیمی اخراجات ادا کرنے کا اعلان کیا، رینجرز نے قاتلوں کی گرفتاری میں مدد دینے والے کے لیے 50 لاکھ انعام کا اعلان کیا۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہر مرتبہ اس قسم کے واقعات و سانحات کے بعد حکومت صرف اس حد تک جنبش لیتی ہے کہ وزیراعلیٰ، وزیراعظم ہاؤس میں اجلاس ہوتے ہیں، رپورٹ طلب کی جاتی ہے، کمیٹی کمیشن بنتے ہیں، بلند بانگ دعوؤں اور عزائم کا اظہار کیا جاتا ہے، پھر حکومت اپنی ذمے داری اور لوگ واقعات کی سنگینی کو بھلا بیٹھتے ہیں، تاوقتیکہ کوئی اس سے سنگین واقعہ رونما نہ ہوجائے۔
جیلوں میں خواتین سے بدسلوکی کے جو واقعات سامنے آئے ہیں وہ تو کسی فنڈنگ، کسی بیرونی ایجنسی کی آشیرباد سے نہیں ہوئے ہوںگے؟ ان میں جیلوں کا عملہ ہی ملوث ہوگا۔ قائد کے مزار پر بنت حوا کے ساتھ جو روح فرسا واقعہ پیش آیا تھا یا بعد میں مزار کے زمینی حصے کے متعلق جن شرمناک حرکتوں کی رپورٹ اور فلمیں سامنے آئی تھیں، اس میں تو کوئی غیر ملکی قوت و ہاتھ ملوث نہیں تھا۔ یہیں کے تمام لوگ شامل تھے، کیا انھیں تلاش کرکے کیفر کردار تک پہنچانا مشکل تھا؟ جب طاقت ور مجرم کو اس کے جرم کی سزا نہیں دی جاتی تو وہ سزا پورے معاشرے پر تقسیم ہوجاتی ہے اور جرائم مزید پنپتے ہیں۔