حکومت کے تین سال
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے (ن) لیگی ارکان کی ناراضگی کے باوجود اپنا بجٹ منظورکرا لیا۔
وزیر اعظم نواز شریف کی یہ پہلی حکومت ہے، جس نے اپنے اقتدار کے نہ صرف تین سال پورے کرلیے بلکہ پہلی بار اپنی حکومت کا چوتھا بجٹ بھی قومی اسمبلی سے منظور کرا لیا۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی ایوان میں دوتہائی اکثریت ہے مگر اس بار قومی اسمبلی میں ارکان کی حاضری مایوس کن رہی اور ایوان میں بجٹ سیشن کے دوران روزانہ ہی کورم کا مسئلہ درپیش رہا۔
وزیر اعظم ملک سے باہر رہے تو (ن) لیگی ارکان نے بھی ایوان سے باہر رہنے میں ہی عافیت جانی اور اجلاس میں 28 ممبروں کی موجودگی پرکورم کی نشاندہی کی نوبت آگئی اور وزیر خزانہ جس روز بجٹ پر اپنا آخری اظہار خیال کر رہے تھے تو ایوان کی خالی نشستیں قوم کا منہ چڑا رہی تھیں اور وزیر خزانہ کے برابر بیٹھے ایک وفاقی وزیر بھی اپنی نیند پوری کرکے ثابت کر رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے اقتدارکے تین سال سوکرگزار دیے اور قوم کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے (ن) لیگی ارکان کی ناراضگی کے باوجود اپنا بجٹ منظورکرا لیا۔ اپوزیشن 3 جون کو بجٹ کے موقعے پر شور مچا مچا کر اتنی تھک گئی تھی کہ وہ بھی گھروں میں سوتی رہی اور اس نے بھی ایوان کو اہمیت نہیں دی اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے جس بجٹ کو 'پنجابستان' کا بجٹ قرار دیا تھا اسے معمولی ردوبدل سے قومی بجٹ بناکر وزیر خزانہ منظور کرانے میں کامیاب رہے۔
حکومت تین سالوں میں بڑے کشکول کی مدد سے قرضوں کا بوجھ پر بوجھ قوم پر چڑھاتی رہی اور الفاظ کے ہیر پھیر سے قوم کو اپنی معاشی کامیابی کی خبریں سنواتی رہی اور گمراہ کن اعدادوشمار سے ظاہر کرتی رہی کہ (ن) لیگ کی حکومت نے تین سالوں میں معاشی طور پر ملک کو مستحکم کردیا ہے جب کہ اس کے دعوؤں کے برعکس ملک میں غربت اور مہنگائی بڑھتی رہی جب کہ مسلم لیگ ن کی حکومتوں میں روزگار کے نئے مواقعے تو کبھی میسر نہیں آئے تو نئے بجٹ میں کیا آنے تھے۔ کیونکہ (ن) لیگی حکومتوں میں غیر ملکی قرضے ضرور ملتے رہے ہیں اور اگر نہیں ملتا تو لوگوں کو روزگار نہیں ملتا البتہ بیروزگاری ضرور ملتی ہے جسے وزیر خزانہ معاشی ترقی قرار دیتے نہیں تھکتے۔
وزیر اعظم نے ملکی آمدنی و اخراجات کے معاملات اپنے انتہائی قریبی وزیر خزانہ پرچھوڑ رکھے ہیں جن کے مالی اعداد و شمار اپوزیشن کے قابل رہنماؤں کی سمجھ میں نہیں آتے تو عوام کی کیا سمجھ میں آئیں گے۔ اس لیے عوام غربت اور مہنگائی کا سامنا تو کرتے ہی آ رہے ہیں مگر انھیں امید تھی کہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے وعدے پر اقتدار میں آنے والی (ن) لیگی حکومت انھیں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نجات دلائے گی مگر تین سالوں میں تو حکومت دعوؤں کے سوا کچھ نہ کرسکی اور عوام کو دلاسے ہی ملے۔ حکومت نے اپنے بااعتماد افراد کو وزیر بناکر سوچا تھا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی آئے گی مگر یہ کمی برائے نام ہی آئی اور عوام جس کمی کی توقع کیے ہوئے تھے وہ حقیقی طور پر تو کہیں نظر نہیں آئی البتہ وزیر اعظم اور ان کے دونوں متعلقہ وزیروں کی طرف سے 2018 تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کردیے جانے کے اعلانات ضرور تین سالوں میں ملتے رہے۔
بجلی کے نئے نئے منصوبوں کے سنگ بنیاد رکھے جاتے رہے قوم کو خوش خبری پہ خوش خبری دی جاتی رہی مگر بجلی کے لیے پورا ملک ویسے ہی ترستا رہا جس طرح زرداری دور میں ترستا تھا۔ ملک بھر میں بجلی کے لیے احتجاج ویسے ہی جاری ہیں جو تین سال پہلے تھے۔ سندھ اور کے پی کے کی حکومتوں کی طرف سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی دہائیاں ہو رہی ہیں۔ شہروں میں ہونے والے احتجاج تو میڈیا دکھا دیتا ہے مگر سخت گرمی اور روزے کی حالت میں دیہی علاقوں کے لوگوں پر جو گزر رہی ہے وہ وہی جانتے ہیں۔
حیدر آباد کے ایک بزرگ کا میڈیا پر یہ کہنا درست ہی لگ رہا ہے کہ یہ حکومت بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ذریعے ملک کے عوام کو پاگل بنانے میں مصروف ہے جو بجلی تو نہیں دے رہی مگر کے الیکٹرک ہو یا بجلی فراہمی کے مختلف ناموں کے ادارے سب کے سب ہی اوور بلنگ کے ذریعے صارفین کو لوٹ رہے ہیں۔ دعوے کیے جاتے رہے کہ لوڈ شیڈنگ کم ہو رہی ہے مگر کہاں ہو رہی ہے یہ کم حکومتی ایوانوں اور بااثر افراد کے علاقوں میں ہو رہی ہوگی مگر غریبوں اور متوسط طبقوں کے علاقوں میں بجلی کی علانیہ اور غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ ملک بھر سے حسب معمول جاری ہے۔
حکومت کے تین سالوں میں بہتری صرف محکمہ ریلوے ہی میں نظر آئی ہے یا دہشت گردی میں جو کمی آئی ہے اس کا کریڈٹ پاک فوج کو جاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوج کی کامیابیاں تو ملک میں نظر آئی ہیں اور دہشت گردی میں نمایاں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے ملک میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت میں بے حد اضافہ ہوا ہے اور سیاسی حکومت میں جنرل راحیل شریف مقبولیت کی معراج پر ہیں۔
موجودہ حکومت میں ہرکام دیر سے کرنے کی پالیسی نے بھی حکومت کو بدنام کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں وفاقی اداروں اور وفاقی حکومت کے خلاف آئے دن دیے جانے والے ریمارکس بھی حکومت کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ قومی ادارے مہینوں اپنے سربراہ سے محروم رہتے ہیں تو وفاقی حکومت کی نااہلی سے ملک کا الیکشن کمیشن نا مکمل ہو کر غیر فعال ہوچکا ہے جس سے ملک بھر میں ضمنی انتخابات اور سندھ و پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ملتوی ہوچکے ہیں کیونکہ حکومت سوئی ہوئی تھی جب کہ اسے معلوم تھا کہ جون میں الیکشن کمیشن کے ممبران کی میعاد مکمل ہوجائے گی مگر نئے ارکان کے تقرر کے لیے حکومت نے پہلے سے کچھ نہیں کیا اور الیکشن کمیشن غیر فعال ہوگیا۔
وفاقی کابینہ بھی متحد نہیں اس میں بھی گروپ بنے ہوئے ہیں متعدد وزرا ایک دوسرے سے ناراض اور خلاف ہیں اور حکومت بااثر وزیروں کے آگے بے بس اور ہر وزیر کے الگ الگ بیانات وفاقی کابینہ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جہاں ہر ایک کی رائے مختلف ہے۔
حکومت کی تین سالہ کارکردگی تو دور کی بات من مانیوں پر ہی سپریم کورٹ کو کہنا پڑا ہے کہ حکومت ملک کو بادشاہوں کی طرح چلا رہی ہے اور اس کا طرز حکومت درست نہیں ہے اور اپنوں کو ہی نوازا جا رہا ہے میرٹ پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کو اقتدار کے باقی دو سال مشکلات سے بھرپور ملیں گے اگر اب بھی حکومتی روش نہ بدلی تو عوام انھیں مسترد کرسکتے ہیں۔