سازشیں
پاکستان کی سفارت کاری کی اس مثالی کامیابی کے بعد اب پاکستانی خارجہ پالیسی کو کس طرح ناکام کہا جا سکتا ہے
اس وقت سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ پاکستان نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبرشپ حاصل کرنے کی بھارتی خواہش پر پانی پھیر کر اس کے خطے میں بالادستی حاصل کرنے کے عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے گو کہ اس ضمن میں بھارت کو امریکا جیسی سپرپاور کی حمایت بھی حاصل تھی مگر اس شکست نے خود امریکیوں کو نہ صرف شرمندہ کر دیا ہے بلکہ ان کے سامنے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ دنیا میں ان کی گرتی ہوئی ساکھ کو کیسے سنبھالا جا سکتا ہے؟ اس شکست سے مودی کو ملک میں سخت خفت اور تنقید کا سامنا ہے۔
پاکستان کی سفارت کاری کی اس مثالی کامیابی کے بعد اب پاکستانی خارجہ پالیسی کو کس طرح ناکام کہا جا سکتا ہے؟ لیکن اس وقت پاکستانیوں کے لیے اصل قابل غور بات امریکی بے مروتی ہے۔ افغان قائدین کی احسان فراموشی تو کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے کہ وہ تو شروع سے ہی پاکستان کے خلاف رہے ہیں انھوں نے تو پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو ہی تسلیم نہیں کیا تھا پھر پہلے دن سے ہی ڈیورنڈلائن کو سرحد تسلیم نہ کر کے تصادم کی راہ اختیار کر لی تھی۔ اصل مسئلہ تو امریکا کا ہے جس کے لیے پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی قربانیاں دیتا چلا آ رہا ہے۔
اس کی خاطر روس جیسی سپرپاور سے ٹکر لی پھر طالبان سے لڑائی لڑی اور یہ خونی جنگ ابھی جاری ہے مگر وہ پاکستان کے احسانوں کو یکسر بھلا بیٹھا ہے اور ہمارے دشمن کا دم بھر رہا ہے۔ افسوس اس امر پر بھی ہے کہ امریکا کے حواری مغربی ممالک بھی پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ یہ سازشیں نہایت غور و فکر کے بعد پاکستان پر ان کے خوفناک نتائج مرتب کرنے کی منصوبہ بندی کے ساتھ تیار کی گئی ہیں جنھیں ہم پہلے نہ سمجھ سکے تھے مگر شکر ہے کہ اب ہم ان سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں۔
یہ آفاقی حقیقت ہے کہ مجرموں اور قاتلوں کو سزائیں دینے سے ہی دنیا میں امن قائم رہ سکتا ہے اور اس سے روگردانی کرنے کا مطلب دنیا کی تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ امریکا سے لے کر بھارت تک میں پھانسیوں پر کبھی کسی نے کوئی پابندی نہیں لگائی مگر پاکستان میں پھانسیوں پر پابندی عائد کرا دی گئی جو حقیقتاً ایک سازش تھی جس کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردی کی خوب حوصلہ افزائی ہوئی۔ اگر حکومت پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طلبا پر سفاکانہ حملے کے بعد پھانسی پر سے پابندی نہیں ہٹاتی تو شاید دہشت گردی پر قابو پانا محال ہو جاتا۔ اس وقت تک ہمارے قید خانے قاتلوں سے بھرے پڑے تھے جو کئی کئی سال سے وہاں موج مستیاں کر رہے تھے انھیں اپنی موت کا کوئی خوف ہی نہیں تھا اس لیے کہ انھیں پتہ تھا کہ ان کے محسنوں نے ان کی جانوں کو بچانے کے لیے سزائے موت کو روکوا دیا ہے۔ پھر جب پاکستانی حکومت نے پھانسی پر سے پابندی ہٹائی تو یورپی یونین سے لے کر کئی عالمی اداروں نے اس کی نہ صرف سخت مذمت کی بلکہ پاکستان کو امداد کی فراہمی کو روکنے کی دھمکیاں بھی دیں۔
ملک میں تیس لاکھ افغان مہاجرین کو اب چالیس سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان کی واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔ لگتا ہے بڑی طاقتیں انھیں پاکستان میں بسا کر بھول گئی ہیں مگر ایسا نہیں ہے دراصل یہ بھی پاکستان دشمن طاقتوں کا پاکستان کے خلاف سازشی گیم ہے۔ پاکستان کے وسائل محدود ہیں وہ ان احسان فراموش مہمانوں کی ایک حد تک ہی خاطرداری کر سکتا ہے۔
تیس لاکھ مہاجرین کا بوجھ اٹھاتے ہوئے اب پاکستان تھک چکا ہے۔ تاہم ان کے شاید یہاں ابھی مزید قیام پر بھی پاکستانی عوام کو کوئی اعتراض نہ ہوتا اگر وہ ہمارے ساتھ بے وفائی کے مرتکب نہ ہوتے۔ جہاں تک بے وفائی کا سوال ہے تو کرزئی جیسا بے وفا بھی پاکستانی میزبانی کے مزے اڑا چکا ہے وہ کئی سال تک کوئٹہ میں پناہ گزیں رہ چکا ہے مگر افسوس کہ وہ اتنا احسان فراموش نکلا کہ بھارت کی نوازشوں میں مدہوش ہوکر اپنے محسن پاکستان کے دشمن کا کردار ادا کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے افغان مہاجرین کی خاصی تعداد دہشت گردی میں ملوث ہو چکی ہے۔ افغان خفیہ اداروں نے ان کی بستیوں میں اپنے دفاتر بنا لیے ہیں جہاں ان مہاجرین کو مختلف تخریبی کارروائیوں کا کام سونپا جاتا ہے۔
اس بات کا انکشاف پاکستان کے مختلف شہروں میں واقع افغان مہاجرین کے کیمپوں میں رہائش پذیر افغان تخریب کاروں کی مختلف وارداتوں میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد ہوا ہے۔ یہ کیمپ نہ صرف تخریب کاری کے گڑھ بن گئے ہیں بلکہ افغانی اور بھارتی دہشت گردوں کی بھی کھلی پناہ گاہ بن چکے ہیں۔ پاکستانی حکومت انھیں یہاں آباد کرانے والے مغربی ممالک سے کئی سالوں سے پرزور اپیل کر رہی ہے کہ اب انھیں ان کے وطن واپس بھیجنے کا انتظام کیا جائے مگر وہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں جب کہ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ اپنے ممالک میں تارکین وطن کو ایک دن بھی رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ شام اور لیبیا سے یورپ جانے والے مظلوم تارکین وطن کا وہاں جو حشر ہو رہا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔ حالانکہ ان بے چاروں کو ان ہی ممالک کی غلط اور جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے بے گھر ہونا پڑا ہے یہ مسلم مہاجرین اس وقت بھی یورپ میں بے آسرا مارے مارے پھر رہے ہیں کچھ مہاجرین کو ضرور مصلحتاً اپنے ہاں رہنے کی اجازت دے دی گئی ہے مگر اکثریت کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
جب یہ ترقی یافتہ اور دولت مند یورپی ممالک اپنے ہاں کسی غیر ملکی کو ایک دن کے لیے بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں تو پھر پاکستان جیسا غریب ملک افغان مہاجرین کو کس طرح چالیس سال سے برداشت کر رہا ہے اس نکتے پر عالمی برادری کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ ملک کے دوسرے شہروں کی طرح کراچی میں بھی افغان مہاجرین کی بڑی تعداد آباد ہے یہ جب سے کراچی میں آباد ہوئے ہیں چوری ڈاکے اسٹریٹ کرائم اور دہشت گردی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی یہ ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ کراچی میں کئی اہم افراد کی ٹارگٹڈ کلنگ میں ملوث رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ مغربی ممالک کی تیسری سازش پاک افغان سرحد پر پاکستان کو باڑ لگانے سے روکنا ہے۔یہ کھلی سرحد پاکستان میں دہشت گردوں کے داخلے کے لیے آئیڈیل راستہ بنا ہوا ہے۔ اس 2600 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگا کر اسے دہشتگردوں سے محفوظ بنانے کے لیے پاکستان کئی سال سے امریکا کو مشورہ دے رہا ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کو فائدہ ہو گا بلکہ افغانستان کے لیے بھی یہ بہت مفید ثابت ہو گی۔
بدقسمتی سے افغانستان کو ہی نہیں امریکا کو بھی یہ شکایت رہی ہے کہ پاکستانی طالبان سرحد پار کر کے افغانستان میں داخل ہو جاتے ہیں اور وہاں تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں۔ سرحد پر باڑ لگنے کے بعد یہ شکایات دور ہو سکتی ہیں مگر باڑ لگانے کے معاملے پر امریکا کی جانب سے سرد مہری کی اصل وجہ یہ ہے کہ افغان اور ''را'' کے تخریب کاروں سے اصل نقصان پاکستان کو پہنچ رہا ہے۔ ابھی حال میں طورخم میں پاک افغان سرحدی چوکی پر گیٹ کی تنصیب کے معاملے پر دو طرفہ فائرنگ ہوئی ہے گیٹ کی تنصیب کو روکنے کے لیے افغان فوجیوں نے فائرنگ کر کے پاک فوج کے ایک میجر علی جواد چنگیزی کو شہید کر دیا ہے۔
دہشتگردوں اور اسمگلروں کی روک تھام کے لیے دراصل پوری سرحد پر کئی گیٹوں کی تنصیب کی ضرورت ہے۔ ان تمام سازشوں سے لگتا ہے کہ اب امریکا کھل کر پاکستان مخالف سرگرمیوں کا حامی بن گیا ہے ادھر اس نے افغانستان کو بھارت کے حوالے کر کے پاکستان کے لیے مستقل مصیبت کھڑی کر دی ہے مگر وہ یاد رکھے کہ اس کا یہ رویہ خود اس کے اپنے مفاد کے لیے زبردست نقصان دہ ثابت ہو گا۔ بھارت ایک دوغلہ ملک ہے جو کبھی کسی کا وفادار نہیں بن سکا تو امریکا کا کیا حق نمک ادا کرے گا؟