دن گزاریں مگر احتیاط کے ساتھ
حادثات روز مرہ کی زندگی کا معمول بن چکے ہیں۔ ان واقعات کے پس پردہ انسان کی اپنی کوتاہیاں کارفرما ہیں۔
حادثات روز مرہ کی زندگی کا معمول بن چکے ہیں۔ ان واقعات کے پس پردہ انسان کی اپنی کوتاہیاں کارفرما ہیں۔ بجلی سے چلنے والی تمام تر اشیا، ایئرکنڈیشنر، گاڑیوں کا دھواں وغیرہ انسانی صحت کو مستقل نقصان پہنچا رہا ہے۔ ہم آسائش کی چیزیں تو استعمال کر رہے ہیں مگر ان کے نقصانات سے بے خبر ہیں۔ ہر آسائش اپنی گہرائی میں کوئی منفی رویہ پوشیدہ رکھتی ہے۔ جس سے ہم انجان بنے رہتے ہیں، کیونکہ سُکھوں کے شیدائی ہونے کے ساتھ ہم فقط خوبیوں کی پرستش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ جب حقائق ہم پر آشکار ہوتے ہیں تو ہم فقط ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
کچھ دن پہلے حیدر آباد کے کسی گیراج سے ایک لڑکی اور لڑکے کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ دونوں کی موت غالباً کاربن مونو آکسائیڈ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کار کا اے سی دیر تک چلنے کی صورت میں۔ جب کہ والدین کا خیال ہے کہ یہ ایک حادثہ نہیں بلکہ سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے۔ بقول والدین کے ان کے جسموں پر تشدد کے نشانات ہیں۔ بالکل اسی طرح کا واقعہ دو سال پہلے ہوا تھا۔ یونیورسٹی میں زیر تعلیم لڑکی اور لڑکے کی لاشیں گیراج سے برآمد ہوئی تھیں۔ جن کی موت دم گھٹنے سے واقع ہوئی تھی۔ ایک اخبارکی خبر کے مطابق شدید گرمی سے عاجز میاں بیوی گاڑی کا ایئرکنڈیشنر چلا کے سو گئے اور صبح تک یہ بدنصیب جوڑا ہلاک ہو چکا تھا۔ ان کی موت کاربن مونو آکسائیڈ کے اخراج کی وجہ سے ہوئی تھی۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ بہت سے لوگ گرمی سے بچنے کے لیے گاڑی کا اے سی چلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ منچلے گانے بھی سنتے رہتے ہیں۔ زیادہ دیر اے سی چلنے کی وجہ سے گاڑی کے انجن کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دوسری جانب صحت کو خطرہ الگ۔ یہ خطرہ اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے، اگر کار پرانی ہو یا اے سی ٹھیک سے کام نہ کر رہا ہو۔ ایسی صورتحال میں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ہو سکتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے، سر چکرانے لگتا ہے۔ براہ راست اے سی کی ہوا کا چہرے پر لگنے سے بصارت کو الگ نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ فرض کریں اگر گاڑی کہیں کھڑی ہے اور دیر تک اے سی چل رہا ہو۔ آپ گاڑی میں بیٹھے عزیز یا دوست کا انتظار کر رہے ہیں۔
آپ نے تھوڑی سی کھڑکی بھی کھول دی تا کہ تازہ ہوا اندر آئے تو اس صورت میں بھی جسم میں آکسیجن کی مقدار کم ہونے لگتی ہے اور ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے آپ کی حالت غیر ہو سکتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لمبی ڈرائیو کے دوران کہیں سستا لینے سے انسان تازہ دم ہو جاتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق گاڑی میں داخل ہوتے ہی، اے سی چلانے سے ڈیش بورڈ، سیٹس اور تمام پلاسٹک سے بنی اشیا سے Benzene کا اخراج ہونے لگتا ہے جو کینسر کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ پرانی گاڑیوں میں اس کیمیکل کا زیادہ اخراج ہوتا ہے۔ حالانکہ آٹو موبائل کمپنیز کے ماہرین اس کی تردید بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان خطرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، جو گاڑیوں کے استعمال سے انسانی زندگی کو لاحق ہو چکے ہیں۔ چاہے گاڑیوں کا دھواں ہو یا کسی بھی زہریلی گیس کا اخراج انسانی جانوں کا دشمن بن جائے۔
طبی ماہرین مستقل اس مسئلے پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گاڑیوں سے مستقل سفر کرنے والے افراد کو صحت کے مسائل ہو سکتے ہیں۔ جن میں تھکن، لرزہ، سانس کی بیماریاں اور سردرد شامل ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق سینٹرل ایئرکنڈیشننگ سسٹم کے بھی اپنے نقصانات متوقع ہیں۔ جس میں بلڈ پریشر کا کم ہو جانا، جوڑوں کا درد اور نروس سسٹم سے تعلق رکھنے والی علامات شامل ہیں۔ ایئرکنڈیشنر کی وجہ سے انتہائی خطرناک بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ جسے Legionairres Disease کا نام دیا جاتا ہے۔ جو تیز بخار اور نمونیا کا باعث بن جاتی ہے۔ اور جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
اس مصنوعی ٹھنڈ کی وجہ سے انسانی زندگی کو مستقل نقصان پہنچ رہا ہے، لیکن ہم اس نقصان سے بے خبر ہیں۔ مصنوعی سردی کی وجہ سے گرمی کی برداشت کم ہونے لگتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہر سال گرمی سے متاثرین کی شرح اموات بڑھ جاتی ہے۔ اکثر اوقات خواتین ٹھنڈے کمروں سے نکل کر کچن کا رخ کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی صحت شدید متاثر ہو جاتی ہے۔ جس جگہ زیادہ دیر اے سی چلتے ہیں، وہ جگہ جراثیم کی آماجگاہ بنی رہتی ہے۔ ہم نے جدید اشیا سے اپنے گھر تو بھر لیے ہیں، مگر ان کے بارے میں بنیادی معلومات سے لاعلم ہیں۔ حالانکہ ان اشیا کے منفی و مثبت رخ سے ہمیں مکمل طور پر آگاہ ہونا چاہیے۔
آج جس قدر اسپتال وکلینکس آباد ہیں اس کی بنیادی وجہ ہماری اپنی غفلت و کوتاہی ہے۔
عام زندگی میں دیکھا گیا ہے کہ گاڑیوں کو پارک کرنے کے بعد بھی ان میں بچے وغیرہ بیٹھے نظر آتے ہیں اور اے سی چل رہے ہوتے ہیں۔ سہولیات و آسائشوں کے ہم اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ فطری ماحول میں بیٹھنے یا وقت گزارنے سے کتراتے ہیں۔ لیکن ہم ان تمام تر باہم سکھ و سہولت پہنچانے والی اشیا کے عادی ہو چکے ہیں کہ ہر طرح کے خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ہم ہر دن مکمل نظر داری کے تحت گزارنے لگیں تو کبھی ایسے ناخوشگوار واقعات رونما نہ ہوں۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم ہر دن سوچ سمجھ کر نظرداری کے تحت گزاریں۔ شام کو زیادہ سے زیادہ کھلی جگہوں پر وقت گزارا جائے تاکہ فطری تازگی جسم کے مرجھائے ہوئے خلیوں میں زندگی کی روانی بھر دے۔
کمروں کی کھڑکیاں اور دروازے دیر تک کھلے رکھیں۔ یا ان کمروں کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ استعمال کی اشیا بدلتے رہیں۔ پانی زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔ پھلوں و سبزیوں کا استعمال بڑھا دیں اور جس قدر ہو سکے مشینوں اور مشینی زندگی کی یکسانیت سے دور رہنے کی کوشش کی جائے۔ پیدل چلیں، گرمی کا مقابلہ کریں۔ جس قدر ہو سکے فطری رویے و اصول اپنائیں۔