ابھی نہیں تو کبھی نہیں
ہر چند کہ کراچی کا رستا ہوا ناسور بگڑتے ہوئے حالات کوئی نئی بات نہیں ہے
ہر چند کہ کراچی کا رستا ہوا ناسور بگڑتے ہوئے حالات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کراچی گزشتہ تین دہائیوں سے اپنے اور غیروں کی لگائی آگ میں جل رہا ہے۔ کراچی لہولہان ہے، سسک رہا ہے۔ انسانیت اور امن کے دشمن کبھی نقاب، کہیں بے نقاب، کبھی دستانے پہنے ہوئے، کبھی مگر مچھ کی طرح آنسو بہاتے ہوئے، تو کبھی سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے نظر آتے رہے ہیں۔
اگرچہ کئی مواقع پر امن و امان کا سدباب کرنے کی کو ششیں کی جاتی رہی ہیں اور ہر بار نہ جانے ایسا کیا ہوجاتا ہے کہ سب تدبیریں خاک میں ملتی معلوم ہوتی رہی ہیں۔ پھر اہل کراچی کو وہ بھیانک دن بھی دیکھنے پڑے جب پورے کراچی نے محسوس کیا کہ کراچی میں انسانیت کے دشمنوں کا مکمل راج ہے۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کے ہاتھوں اہل کراچی یرغمال بنے رہے اور حکومت کی رٹ کہیں بھی نظر نہ آئی، البتہ حکومت محلات میں موجود رہی۔ پھر ایک نئی وفاقی حکومت برسر اقتدار آئی، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور وفاقی کابینہ کی منظوری سے 5 ستمبر 2013 سے کراچی میں آپریشن کا آغاز کیا گیا۔
آپریشن میں رینجرز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں، شہر کراچی میں قتل و غارت گری کی وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ اس کامیابی کو پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان بہترین کوآرڈی نیشن قرار دیا گیا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات میں 80 فیصد تک کمی ہوئی۔ کراچی میں جاری آپریشن کی دو سالہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق 5 ستمبر 2013 سے یکم ستمبر 2015 کے دوران 1171 ملزمان کو ہلاک کرنے اور 64 ہزار 493 ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، جن میں 1798 قاتل، 803 دہشت گرد اور112 اغواکار بھی شامل ہیں۔ شہر میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا، عوام میں تحفظ کا احساس پیدا ہوا۔
پھر نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں ڈکیتی اور لوٹ مار کی وارداتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا، شہری پھر سے خود کو ڈاکو راج کے نرغے میں محسوس کرنے لگے۔ عام شہری کے علاوہ ججز اور ان کے اہل خانہ بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے صاحب زادے بیرسٹر اویس علی شاہ کو دن دہاڑے کلفٹن کے علاقے سے اغوا کیا گیا، اس کے دو روز بعد ممتاز قوال امجد صابری کو بیچ سڑک بے دردی سے قتل کیا گیا۔ فنکار بھی عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں۔ انسانیت اور امن کے دشمن عوام کو احساس دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آج بھی تم ہمارے رحم و کرم پر ہو۔ گزشتہ دنوں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے کور ہیڈ کوارٹرز کراچی کا دورہ کیا۔
اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ کراچی میں آپریشن کے باعث امن و امان کی صورت حال میں نمایاں بہتری آئی، جرم اور دہشت کے خاتمے کے لیے انٹیلی جنس معلومات پر توجہ دی جائے اور جرم و دہشت گردی کے معاون اسٹرکچر کو مکمل طور پر تباہ کردیا جائے، اب آپریشن اس مرحلے میں داخل ہورہا ہے جہاں دہشت گرد اور ان کے معاون کمزور اور تنہا ہوچکے ہیں اور وہ اپنے آپ کو باقی رکھنے اور معاشرے کو نفسیاتی طور پر نقصان پہنچانے کے لیے آسان اہداف کو نشانہ بنارہے ہیں۔ انھوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ ان عناصر کی کارروائیوں کو وقوع پذیر ہونے سے قبل روکا جائے، ہر صورت اپنے مقصد کے لیے آگے بڑھنا ہوگا اور کسی کو بھی اپنی کامیابیاں ضایع نہیں کرنے دیں گے۔ انھوں نے اہل کراچی کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں، ان کے معاونین اور ہمدردوں کا گٹھ جوڑ ہر صورت توڑا جائے گا اور کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ وزیراعظم نواز شریف نے کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر آپریشن میں تیزی لانے کی اجازت دے دی ہے ۔
بلاشبہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرنا ریاست کی اولین ذمے داری ہے جسے پورا کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے، جسے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رکھنے کا عزم کا اعادہ کیا جاتا رہا ہے۔ یہ سوال لمحہ فکریہ ہے کہ دہشت گرد اتنے طاقتور نہیں کہ وہ پورے ریاستی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیں؟ پھر یہ سوچنا ہوگا کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو کراچی کو سدا لہولہان کرنے میں گائے بگاہے کامیاب ہوجاتی ہیں؟
کہیں سیاسی و انتظامی نااہلی کارفرما تو نہیں؟ کہیں سیاسی مصلحت تو نہیں؟ کہیں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی پشت پناہی تو نہیں؟ وہ کون لوگ ہیں جو دہشت گردوں کی مالی مدد کرتے ہیں، لاجسٹک سپورٹ کرتے ہیں؟ کراچی میں عرصہ دراز سے متوازی حکومتیں رہی ہیں، طاقت کے مراکز قائم تھے، ان کے ذمے دار کون لوگ تھے؟ کیا سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنے اندر سے عسکری ونگ اور جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ کردیا ہے؟ اندرونی دشمنوں کے علاوہ بیرونی دشمنوں کی بھی کمی نہیں ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح اور سوالات ہیں جو کراچی کے امن و امان سے جڑے ہوئے ہیں، جو عام شہریوں کی زبان پر ہیں۔
کون نہیں جانتا کراچی مختلف ٹکڑوں میں بٹا ہوا تھا، ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے میں آزادانہ آ جا نہیں سکتے تھے۔ یہ علاقے آزاد تو ہوگئے لیکن کیا وہ قوتیں گرفت میں آگئیں جنھوں نے یہ صورت حال پیدا کی یا اس کا سبب بنے رہے؟ جو بت توڑے گئے کیا ان کے معمار گرفت میں آگئے؟ کراچی میں بربریت کا بازار گرم کرنے والے، مرکزی کردار ادا کرنے والے کون لوگ تھے یا ہیں، ان کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کس حد تک بحالی امن کے لیے کردار ادا کررہے ہیں، ان کے کردار کو مزید فعال کیا جائے۔ قانون کے نفاذ کو عملی صورت دی جائے۔ پولیس اور انتظامیہ کو سیاسی مداخلت سے پاک کیا جائے، کراچی میں مختلف مافیاز سرگرم عمل رہی ہیں، ان کا سدباب کیا جائے۔ کراچی منی پاکستان ہے، یہاں ملک کی مختلف زبانیں بولنے والے لوگ بستے ہیں، ان کے درمیان فاصلے کم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ کراچی ملکی معیشت کی شہ رگ ہے، ملکی تجارت کا بیشتر حصہ کراچی میں ہی ہوتا ہے، کراچی خوش ہوگا تو پورا پاکستان خوشحال ہوگا، اس لیے کراچی میں امن کا مطلب پورے پاکستان کا امن ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے عدالتی نظام کے سقم اور عدم ثبوت کی بنا پر مجرم رہا ہوتے رہے ہیں، ایسی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا مل سکے۔ یاد رکھیں جہاں قانون کی رٹ نہ ہو وہاں عام آدمی عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے اور ایسا کچھ کراچی میں ہوتا رہا ہے، طاقتور کچلے ہوئے عوام پر حاوی تھے، اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر کئی لوگوں نے کراچی سے ہجرت کی اور وہ دن بھی اہل کراچی نے دیکھا جب ایک علاقے کے لوگوں نے دوسرے علاقے میں ہجرت کی۔ کیسے کیسے درد سہے اہل کراچی نے۔ کراچی میں کاروبار کرنا تقریباً ختم ہوچکا تھا، سرمایہ بیرون ممالک منتقل ہوئے، عالمی برادری میں پاکستان بدنام ہوا، کراچی کے ماتھے پر امن کا جو جھومر سجا ہوا تھا اسے نوچ لیا گیا، بھائی سے بھائی کو لڑوایا گیا، پھر بھی حکومتیں قائم رہیں، کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
حد تو یہ کہ حکمرانوں نے یہاں تک کہا کہ کراچی بہت بڑا ہے، دو کروڑ لوگ بستے ہیں، اکا دکا واقعات ہوتے ہیں۔ یہ بے حسی کی انتہا تھی جو اہل کراچی کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھی۔ جب کراچی میں امن بحالی کے اقدامات شروع ہوئے تو عام شہریوں کے چہرے کھل اٹھے، پھرنہ جانے کس کی نظر بد لگی کہ ان کے مسکراتے چہرے پھر مرجھا سے گئے ہیں۔ خدارا اہل کراچی کی مسکراہٹیں پھر سے لوٹادو۔