غیر منصفانہ لوڈشیڈنگ
ملک بھر میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ کئی سال سے چلا آرہا ہے
ملک بھر میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ کئی سال سے چلا آرہا ہے، جو حکومت کے بقول اسے ورثے میں ملا ہے اور حکومت اس اہم مسئلے کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم نے بجلی دو روپے یونٹ سستی کرنے کا بھی اعلان کیا ہے مگر اس وقت اصل مسئلہ بجلی مہنگی یا سستی ہونے کا نہیں بلکہ بجلی ملنے اور بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ کا ہے، جس میں گرمی کی شدت بڑھنے کے ساتھ مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
ملک جس طرح گزشتہ کئی سال سے بجلی کی کمی کے بحران کا شکار ہے اور (ن) لیگ کی حکومت یہ بھی جانتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو عوام نے اس لیے مسترد کیا تھا کہ اس نے اپنی بااختیار حکومت کے 5 سال میں بجلی کے بحران پر توجہ دینے کے بجائے اپنی مدت پوری کرنے پر بھرپور توجہ دی تھی اور سابق دور میں بجلی کے معاملات میں کرپشن کی بہت زیادہ شکایات تھیں ۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے انتخابی مہم میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے متضاد دعوے کیے تھے اور شہباز شریف نے لوڈشیڈنگ مقررہ وقت میں ختم نہ ہونے پر اپنا نام بدلنے کا بھی اعلان کیا تھا مگر ان کے مقررہ وقت میں لوڈشیڈنگ ختم ہوئی نہ نام بدلا گیا مگر بعض علاقوں میں لوڈشیڈنگ میں کمی تو واقع ہوئی ہے جو قابل تعریف قطعی نہیں ہے۔
ملک بھر میں لوڈشیڈنگ کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے مگر لوڈشیڈنگ کہیں بھی منصفانہ نہیں ہے اور حکمرانوں کے علاقوں کو لوڈشیڈنگ سے استثنیٰ ملا ہوا ہے جو گرمی ہو یا سردی ہمیشہ جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آتے وقت خبر گرم تھی کہ میاں شہباز شریف وفاقی وزیر بجلی بننے کے خواہاں تھے مگر وزیراعظم کو ان کی پنجاب میں زیادہ ضرورت تھی اس لیے خواجہ آصف کو یہ اہم وزارت دی گئی۔
حکومت بجلی کے بحران کے خاتمے میں کتنی سنجیدہ تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خواجہ آصف کو دفاع کی اہم وزارت دے دی گئی اور وزیراعظم نے عابد شیر علی کو بجلی کا وزیر مملکت بنادیا تھا، جسے مکمل وزیر نہیں دیا گیا اور خواجہ آصف کی توجہ اس طرف نام ہی کی حد تک رہی اور محکمہ بجلی و پانی نہایت اہمیت کا حامل ہونے کے باوجود حکومت کی سب سے زیادہ توجہ حاصل نہ کرسکا اور لگتا ہے کہ بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کے سنگ بنیاد اور افتتاح کے لیے وزیراعظم نے خود کو مختص کر رکھا ہے۔ خواجہ آصف کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں اور بیان بازی کا کام وزیر مملکت کے سپرد ہے جو بجلی کے بجائے سیاسی بیانات دینے ہی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ پہلے ہی شہری علاقوں سے زیادہ دیہی علاقوں میں زیادہ لوڈشیڈنگ ہوتی تھی جس میں کمی تو آئی ہے مگر ملک کی اکثریتی آبادی اب بھی شدید لوڈشیڈنگ کا شکار ہے جہاں دن ہو یا رات اب بھی دس بارہ گھنٹوں سے زیادہ لوڈشیڈنگ ہورہی ہے اور سخت گرمی اور کھلے کھیتوں میں محنت کرنے والوں کی نیند بھی پوری نہیں ہو رہی۔
موجودہ حکومت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے پر تو توجہ دی مگر بجلی کی چوری روکنے پر توجہ نہیں دی اور وزیر بجلی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ جس علاقے میں بجلی کی چوری زیادہ ہوگی وہاں لوڈشیڈنگ بھی زیادہ کی جائے گی۔ بجلی کی پیداوار بڑھانے سے زیادہ بجلی کی چوری اور اس کے ضیاع کو روکنا بھی بہت اہم ہے مگر بجلی چوری روکنے سے زیادہ حکومت کو بجلی کے نرخ بڑھانے کی زیادہ فکر ہے۔
ماضی میں جب ایک جنرل واپڈا کے سربراہ اور بریگیڈیئر طارق سدوزئی کے ای ایس سی کے سربراہ تھے تو انھوں نے کہا تھا کہ بجلی مہنگی کرنا مسئلے کا حل نہیں، بجلی کی چوری کی روک تھام اصل حل ہے، کیونکہ بجلی مہنگی ہونے سے بجلی کی چوری روکی نہیں جاسکے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بجلی کی چوری بجلی مہنگی ہونے کے بعد بڑھتی رہی ہے بلکہ کئی سال سے بجلی کی چوری صارفین خصوصاً غریبوں کی مجبوری بنی ہوئی ہے کیونکہ بجلی مہنگی ہونے سے بل بہت زیادہ رقم کے آنے لگے تھے جن کا حل خود واپڈا اہلکار بجلی کی چوری اور میٹر کی رفتار کم کرنا قرار دے کر صارفین کو بجلی کی چوری پر راغب کرتے تھے اور رشوت لے کر ایسا کرنے کے گر بھی خود بتاتے تھے۔ بجلی کے کنڈے اہلکاروں سے کبھی پوشیدہ نہیں رہے بلکہ ان کی ناجائز کمائی کا اہم ذریعہ رہے ہیں۔
واپڈا اور کے الیکٹرک نے بجلی روکنے کے لیے ہمیشہ احمقانہ فیصلے کیے۔ نرخوں میں مسلسل اضافہ کیا گیا۔ بجلی کے میٹر گھروں اور دکانوں سے باہر لگوا کر بھی دیکھ لیا گیا مگر چوری نہ رکی تو پرانے میٹروں کی جگہ نئے تیز رفتار میٹر لگوا کر صارفین پر بلوں کا بوجھ مزید بڑھایا گیا مگر چوری میں کمی نہیں آئی۔ واپڈا اور کے الیکٹرک کے نئے نئے تجربات کا فائدہ خود ان سے زیادہ ان کے بدعنوان ملازمین کو اور سب سے زیادہ نقصان ان صارفین کو ہوا جو بجلی چوری پر یقین نہیں رکھتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ان سے اتنے ہی بل لیے جائیں جتنی وہ بجلی استعمال کرتے ہیں۔
واپڈا اور کے الیکٹرک نے کبھی ایسے مخلص بجلی استعمال کرنے والوں کا خیال نہیں کیا اور انھیں ہی اپنا نشانہ بنائے رکھا۔ بجلی صارفین سو فیصد درست کہتے ہیں کہ جتنی وہ بجلی استعمال کرتے ہیں ہمیشہ اس سے زیادہ ہی کے بل آتے ہیں اور جو گھنٹوں بجلی بند رکھ کر لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے تو بجلی کے استعمال میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہوکر بل کم ہونے چاہئیں مگر ہو اس کے برعکس رہا ہے اور بجلی کے بلوں کی رقم کم نہیں ہو رہی بلکہ بڑھ رہی ہے۔
بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے حکومت کو رقم چاہیے جس کی وصولی پر توجہ نہیں ہے۔ سرکاری محکمہ لاکھوں کروڑوں روپے کا نادہندہ ہے جن کی بجلی کاٹی نہیں جاتی اور سارا زور غیر سرکاری بجلی صارفین پر ہے جو دھوپ میں لمبی لائنوں میں گھنٹوں لگے رہنے کے بعد بل ادا کرتے آرہے ہیں اور ان مخلص صارفین کی کہیں قدر نہیں ہے۔ بجلی صارفین کو لوٹنے کے لیے نئے تیز رفتار میٹر لگا دیے گئے ہیں جب کہ اضافی بل الگ بھیجے جا رہے ہیں۔ جہاں لوگ بل نہیں دیتے ان سے وصولی کے بجائے علاقوں کی بجلی منقطع کرکے بل بھرنے والوں کو ناکردہ گناہ کی سزا دی جا رہی ہے۔
وہاں پی ایم ٹی اتار لی جاتی ہیں یا خراب تبدیل نہیں کی جاتیں۔ ملک بھر میں گھنٹوں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔ بجلی کی خرابی درست کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی جس پر احتجاج، جلاؤ گھیراؤ، بجلی دفاتر اور ان کی گاڑیوں پر حملے ہوتے ہیں مگر صارفین کی جائز شکایات کوئی سننے کو تیار نہیں۔ رہی کے الیکٹرک تو اس کی تو اپنی ریاست اور اپنے قانون ہی نہیں بلکہ کھلم کھلا لاقانونیت ہے جسے روکنا تو درکنار کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کے الیکٹرک کے معاملے میں کسی کو دخل کی جرأت نہیں۔ یہاں مداخلت پر حکومت سمیت ہر اعلیٰ ادارے کے پر جلتے ہیں۔
کے الیکٹرک سے کچھ پوچھنے کی کسی میں ہمت نہیں کہ وہ معاہدہ پر عمل کرکے پیداوار کیوں نہیں بڑھاتی۔ وفاقی حکومت دھمکیاں دے کر بھی کے الیکٹرک کو واپڈا کی بجلی سستی دینے پر مجبور ہے اور معاہدہ ختم ہونے کے بعد بھی بجلی دے رہی ہے۔ کراچی کے متعدد علاقے ہیں جہاں کھلے عام بجلی چوری ہونے کے باوجود لوڈشیڈنگ نہیں کی جاتی اور جہاں باقاعدگی سے بل ادا ہوتے ہیں وہاں چھ سے دس بارہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ من مانی سے نہ صرف جاری ہے بلکہ انھیں دھمکیاں بھی مسلسل مل رہی ہیں۔