کرۂ ارض سے ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی آدھی تعداد فنا ہوچکی

جنگلی حیات کے ناپید ہونے کی رفتار ماضی سے ایک ہزار سے دس ہزار گنا تک زیادہ ہوچکی ہے


محمد عاطف شیخ July 08, 2016
جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کی مالیت 50 سے 150 ارب ڈالر سالانہ ہے ۔ فوٹو : فائل

''ہاتھی زندہ لاکھ کا مرا سوا لاکھ کا '' اردو زبان کا یہ محاورہ اپنی تخلیق کے پس منظر میں جنگلی جانوروں کی غیر قانونی تجارت کے محرکات کو ضرب المثل کے طور پر لئے ہوئے ہے۔ لیکن آج جدید علم نے اس محاورہ کو اپنے لفظی مفہوم میں غلط ثابت کر دیا ہے۔

زندہ ہاتھی اب مرے ہاتھی سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ بلیک مارکیٹ میں اس وقت ہاتھی دانت کے ایک جوڑے کی قیمت 21 ہزار ڈالر تک ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ایک زندہ ہاتھی 16 لاکھ ڈالر مقامی معیشت کو صرف ایکو ٹورازم ( ماحولیاتی سیاحت) کی مد میں فراہم کر سکتا ہے۔دوسرے الفاظ میں ایک زندہ ہاتھی مرے ہاتھی کی نسبت 76 گنا زیادہ مالیت کا حامل ہے۔

تحقیق کاروں کے مطابق ایک زندہ ہاتھی ہر سال ماحولیاتی سیاحت کی بدولت مقامی معیشت کو 22966 ڈالر فراہم کرسکتا ہے۔ چونکہ ہاتھی 70 سال تک زندہ رہتاہے اس طرح وہ اپنی پوری زندگی میں 16 لاکھ ڈالر مقامی معیشت کو فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن 70 برس تک ہر روز سونے کے انڈے کا انتظار کون کرے؟ اور لالچ مرغی کو ذبح کروادیتا ہے۔ نتیجہ پچھتاوا۔ لیکن جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کرنے والے کسی بھی پچھتاوے کا شکار نہیں ہوتے اُن کے نزدیک ابھی جنگلی حیات کے غیر قانونی حصول کے بہت مواقع موجود ہیں۔

جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت دراصل اُن کی مانگ میں اضافہ کو پورا کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ اس تجارت کو جرائم کے منظم سنڈیکیٹ کنٹرول کرتے ہیں اورجنگلی حیات کو منشیات اور اسلحہ کی طرح سمگل کیا جاتا ہے۔ یہ دنیا میں منشیات، اسلحہ اور انسانی سمگلنگ کے ساتھ ساتھ ایک بڑی غیر قانونی تجارت ہے۔جس کی مالیت اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی ائیر بک 2014 '' ایمرجنگ ایشوز اپ ڈیٹ، ایل لیگل ٹریڈ ان وائلڈ لائف'' کے مطابق 50 سے 150 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ کیونکہ انسانی آبادی میں اضافہ جنگلی حیات اور اُس کی مصنوعات کی مانگ میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ خوراک،ادویات، رہائش اور لباس کے لئے جنگلی حیات کا استعمال آج ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ کیا جا رہا ہے۔

جس کی وجہ سے بہت سی حیاتیاتی اقسام (Species) کراہ ارض سے فنا ہو چکی ہیں۔ بہت سی ناپید ہونے کے قریب ہیں اور بہت سی ختم ہونے کے خطرے کا شکار ہیں۔ جن کی نشاندہی بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کی ریڈ لسٹ آف تھریٹنڈ سپیسز 2015 میں یوں کی گئی ہے کہ دنیا سے 834 اقسام کی جنگلی حیات ناپید ہو چکی ہے۔ جبکہ 69 اقسام قدرتی ماحول(Wild) سے ناپید ہو گئی ہیں۔ اسی طرح 4898 اقسام کی حیات شدید خطرے کا شکار ہیں۔ اور7323 اقسام کی جنگلی حیات خطرے کے زمرے میں آرہی ہے۔اس کے علاوہ دودھ پلانے والے جانوروں کی 25 فیصد کو اپنی بقاء کے خطرے کا سامنا ہے۔ اور جل تھلیا (خشکی اور پانی دونوں میں یکساں طور پر رہنے والے جانور) کی41 فیصد اقسام بھی معدومی کے خطرے کا شکار ہیں۔ پرندوں کی13 فیصد اقسام خطرے میں گھری ہوئی ہیں۔

ماہرین کے مطابق آج جنگلی حیات کے ناپید ہونے کی رفتار ماضی کی قدرتی رفتار سے ایک ہزار سے دس ہزار گنا تک زیادہ ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی لیونگ پلانیٹ رپورٹ 2014 کے مطابق 1970 سے 2010 تک دنیا بھر میں ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی آبادی میں52 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ یعنی گزشتہ 40 سال کے دوران کرہ ارض سے ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی آدھی تعداد فنا ہوچکی ہے۔ رپورٹ مزید انکشاف کرتی ہے کہ آج انسان کو جس قدر زیادہ قدرتی وسائل کی ضرورت ہے اُن کو پورا کرنے کے لئے اُسے ڈیڑھ زمین کی ضرورت ہے۔ یعنی یہ اب اکیلی زمین کے بس کی بات نہیں رہی بلکہ اُسے مزید ساتھی کی ضرورت ہے تاکہ وہ انسانوں کی ضروریات کی بڑھتی طلب کو پورا کر سکے۔

جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت میں منافع کی کثرت کم ہوتے جانداروں کو مزید ناپید کرنے کے قریب تر کر رہی ہے۔گینڈے کے سینگ، ہاتھی دانت، ٹائیگراور بہت سے دیگر حیاتیاتی اجسام سے تیار کی جانے والی مصنوعات صارفین سے زیادہ قیمتوں کے حصول کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ تجارت دراصل مشرقی ایشیاء کی روایتی ادویہ سازی میںجنگلی حیات کے استعمال کے علاوہ جانوروں اور اُن کی کھالوں کو وقار کی علامت کے طور پر لباس اور تزئین و آرائش کے لئے استعمال کرنے اور جنگلی جانوروں اور پرندوں کو پالتو بنانے کی غرض سے جاری و ساری ہے۔

اس کے علاوہ بد عنوانی، کمزور قوانین، کمزور عدالتی نظام، برائے نام سزاؤں اور اکثر جنگلی جانوروں کو مارنے/ پکڑنے والے مقامی غریب افراد کے پکڑے جانے کی وجہ سے ان کے پیچھے ماسٹر مائینڈ اور اُن کے نیٹ ورک کامحفوظ اور کام کرتا رہنا اوراُن میں دوبارہ حملہ کرنے کی صلاحیت کا برقراررہنا جیسے محرکات نے جنگلی حیات کے غیر قانونی کاروبار کو کم رسک اور زیادہ منافع بخش بنادیا ہے۔

دنیا میں ایسی بہت سی جگہیں موجود ہیں جہاں جنگلی حیات کا کاروباروسیع پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ یہ علاقے ''وائلڈ لائف ٹریڈ ہاٹ سپاٹ'' یعنی جنگلی حیات کے کاروبار کے قابلِ ذکر مراکز کہلاتے ہیں۔ ان میں چین کا انٹر نیشنل بارڈر، مشرقی/ جنوبی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا، یورپی یونین کی مشرقی سرحد، میکسیکو کی کچھ مارکیٹیں، کریبئن، انڈونیشیا کے کچھ حصے، نیو گنی اور جزائر سولومن نمایاں ہیں۔ ( ستمبر 2015 میں چین اور امریکہ جو کہ ہاتھی دانت کی دنیا کی دو بڑی مارکیٹ ہیں نے اعلان کیا کہ وہ اپنی ہاتھی دانت کی بین الاقوامی اور مقامی تجارت کو بند کر رہے ہیں) ان بلیک مارکیٹس کو ہاٹ سپاٹ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہاں جنگلی حیات کے منہ مانگے دام دیئے جاتے ہیں۔

مثلاً چین میںہاتھی دانت کی فی کلو قیمت 2 ہزار 2 سوڈالر ہے جو 2010 میں 750 ڈالر تھی۔ اور 2009-14 کے دوران 170 ٹن ہاتھی کے دانت افریقہ سے برآمد کئے گئے۔ جبکہ گینڈے کے سینگوں کی فی کلو قیمت بلیک مارکیٹ میں66 ہزار ڈالرتک ہے۔ اسی طرح ہر سال یورپ میں غیر قانونی طور پر ایک ار ب ڈالر مالیت کی اژدھے کی کھالیں درآمد کی جاتی ہیں۔ جبکہ پانگولین نامی جانور جس کی دنیا میں سب سے زیادہ غیر قانونی تجارت ہوتی ہے اس کی فی کلو کھال کی قیمت 600 ڈالر تک ہے۔ ایشیاء کی بلیک مارکیٹ میں ایک مکمل پانگولین کی قیمت 1000 ڈالر تک ہے۔

یہ منہ مانگی قیمتیں دنیا بھر میں جنگلی جانوروں کے بے دریغ ہلاکتوں کا باعث بن رہی ہیں۔ 2013 میں 25 ہزار ہاتھیوں کو اُن کے دانت کی غیر قانونی تجارت کی غرض سے مارا گیا۔2015 افریقہ میں ایک ہزارتین سو 38 گینڈوں کو سینگ کے حصول کی خاطر ہلاک کر دیا گیا۔ جبکہ 3 ہزارگوریلے ہر سال قدرتی ماحول سے غائب ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار دیگر جنگلی حیات بھی غیر قانونی تجارت کا شکار بن رہی ہے۔

پاکستان زندہ جنگلی جانوروں، اُن کے اعضاء اور مصنوعات کی غیر قانونی تجارت کا نا صرف ماخذ ہے بلکہ صارف اور راہداری بھی۔ پاکستان سے سمندری حیات، رینگنے والے جانور، دودھ پالنے والے ممالیہ، پرندوں، جنگلات کی مصنوعات اور طبی پودوں کی غیر قانونی تجارت ہوتی ہے۔ جبکہ تازہ پانی کے کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت ایک منظم کا روبار کی صورت میں افزائش سے برآمد تک موجود ہے۔ پاکستان سے چین، تھائی لینڈ، ہانگ کانگ، کوریا ، ویتنام اور دیگر مشرقی ایشیائی ممالک کو غیر قانونی طور پر جنگلی حیات بھیجی جاتی ہیں۔

حیاتیاتی تنوع زمین کو دوسرے سیاروں سے مختلف بناتی ہے۔ یہ حیاتیاتی تنوع دراصل پودے، جانور اور انسان ہیں۔ یہ زندگی ہے اور زمین پر زندگی کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ اور جو بھی زندگی کرہ ارض سے فنا ہو رہی ہے وہ زمیں کا بہت بڑا نقصان ہے۔ اور ہم جس بھی زندگی کو بچاتے ہیں ایسا کرنے سے ہم زمین پر ہونے والی ناقابلِ تنسیخ ماحولیاتی تبدیلیوں کے آگے بند باندھ دیتے ہیں۔

کیونکہ حیاتیاتی اجسام کو بچانا دراصل ماحول کو بچانے کا دوسرا نام ہے۔ ہر زندہ چیز قدرتی نظام کی فعالیت میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اور کسی بھی حیات کی کمی قدرت کے نظام میں تبدیلیوں کا باعث بن کر نقصانات کامحرک بن جاتی ہے۔ لیکن حیاتیاتی اجسام کا تحفظ صرف نقصان سے بچنے کا ہی نام نہیں بلکہ یہ زندگی کی بناوٹ کا تحفظ ہے اور یہ ہمارے سیارے کی سا لمیت کا ضامن بھی۔ جنگلی حیات کی بقاء کی ماحولیاتی اہمیت کے علاوہ معاشی، سائنسی، تفریحی، سماجی اور خوبصورتی کی اہمیت بھی مسلمہ حقیقت ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے ماہرین کے مطابق جنگلی جانوروں اور ایکو سسٹم کے تحظ سے 36 ارب ڈالر ماحولیاتی سیاحت کی مد میں حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ ایک گوریلا یو گنڈا کو ہر سال 10 لاکھ ڈالر سیاحتی ریونیوفراہم کررہا ہے۔ جبکہ پہاڑی گوریلوں نے روانڈا کو 2014 میں 30 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ماحولیاتی سیاحت کی مد میں فراہم کئے۔

کرہ ارض پر زندگی کا نظام حیاتیاتی اقسام اور اُن کے قدرتی مساکن کا استعمال دانشمندی سے کرنے پر منحصر ہے۔ انسان کے ساتھ ساتھ اس زمین پر بے شمار حیاتیاتی اجسام ایسے بھی موجود ہیں جن تک ابھی ہم نہیں پہنچ پائے۔اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے ورلڈ کنزرویشن مانیٹرنگ سینٹر کی ایک تازہ سٹڈی کے مطابق دنیا میں 87 لاکھ 40 ہزار اقسام کے حیاتیاتی اجسام پائے جاتے ہیں۔ جن میں سے 65 لاکھ اقسام زمین پر اور 22 لاکھ پانی میں موجود ہیں۔ اسی طرح 77 لاکھ 70 ہزار پائے جانے والے جانوروں کی ا قسام میں سے صرف 9 لاکھ 53 ہزار 4 سو 34 اقسام کو کیٹلاگ کیا جا سکا ہے۔ جبکہ 2 لاکھ 98 ہزار پودوں کی اقسام میں سے 2 لاکھ 15 ہزار6 سو 44 کو کیٹلاگ کیا گیا ہے۔ یعنی ہمارا علم جنگلی حیات کے حوالے سے ابھی بہت محدود ہے لیکن ہمارا عمل جنگلی حیات کی بقاء کے لئے مہلک ترین ہو تا جا رہا ہے۔

جنگلی حیات کی کمی کے محرکات میں مساکن کی تنزلی، غیر قانونی شکار، غیر متوازن تجارت ( غیر قانونی)، کلائیمیٹ چینج، آلودگی ،جنگلات کی کٹائی، زراعت کی توسیع،آب گاہوں کا خشک ہونا، چراہ گاہوں کا گنجائش سے زیادہ استعمال، انفراسٹریکچر کی تعمیر،انسان ا ور جانور کا تصادم نمایاں ہیں۔ ان محرکات کی موجودگی میں پاکستان میں موجود جنگلی حیات کا جو منظر نامہ بنتا ہے اُس کی وضاحت ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے منیجر ریسرچ اینڈ کنزرویشن ایم جمشید اقبال چوھدری یوں کرتے ہیں کہ'' ملکی سطح پرجنگلی حیات میں روز بروز کمی واقع ہو رہی ہے''۔ اگر چہ پاکستان میں جنگلی حیات کے لئے ساز گار ماحول کے دس میں سے چار علاقے موجود ہیں جن میں صحرا، معتدل سرسبز علاقے، مرطوب موسمی جنگلات اور پہاڑ شامل ہیں۔

اس منفرد اور طرح طرح کے قدرتی ماحول کی موجودگی کے باوجود ملک میں جنگلی حیات میں کمی خطرے کی گھنٹی ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے جنگلی حیات کے تحفظ کے ملکی قوانین کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایم جمشید اقبال چوھدری کا کہنا ہے کہ ملک میں جنگلی حیات سے متعلق قانون سازی میں ترمیم اور انھیں بین الاقوامی معاہدوں ( جن پر پاکستان نے دستخط کئے ہیں) سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی سطح پر موجود جنگلی حیات کے قوانین میں کافی فرق پایا جاتا ہے ۔ خصوصاً خطرے میں گھرے جانوروںکے شکار کے حوالے سے قوانین میں موجود تضاد کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کا موجودہ جغرافیائی خطہ کبھی جنگلی حیات سے مالا مال ہوا کرتا تھا۔ ہندوستان کا پہلامغل فرماں روا ظہیر الدین محمد بابر جب وسط ایشیا سے نکل کر خیبر کے راستے موجودہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا پہنچا تو اس نے یہاں طرح طرح کی جنگلی حیات دیکھی۔ ان میں شیر، چیتا، گینڈا، مور، نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی سر گز شت 'بابر نامہ' میں ان جنگلی حیات اور ان کے شکار کے واقعات تفصیل سے درج ہیں۔ خیبر کے انہی پہاڑوں میں موجود جنگلی حیات سے متعلق مغربی مصنف وار برٹن 1878 میں طبع شدہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔ '' پشاور سے شمال مغرب میں چند میل کے فاصلے پر گھنے جنگل موجود ہیں اور یہاں طرح طرح کے جنگلی جانور بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ان جانوروں میں اڑیال، جنگلی بھیڑ، مارخور، جنگلی بکرا، چنکارہ آزادانہ گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ گھوڑے پر سوار ہوکر جاؤ تو ایک دن میں ان کے شکار کا لطف اٹھا کر واپس پشاور آیا جاسکتا ہے۔''

لیکن آج سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ اور ممالیہ کی تقریباً چار اقسام اس خطے سے ناپید ہوچکی ہیں۔ ان میں شیر ، ببر شیر، آبی جوہڑوں کے گرد پائے جانے والے ہرن کی قسم swamp deer اور گینڈا شامل ہیں۔ یہ تو پاکستان کے قیام سے پہلے کی بات ہے۔ 1947 کے بعد بھی ہم نے کالا ہرن کو عدم توجہ کا شکار ہوکر تیزی سے معدوم ہوتے دیکھا ہے۔ اس کے علاوہ ا یشیاٹک چیتا، بنگال ٹائیگر، گھڑیال اور Hangul بھی معدومیت سے دوچار ہوچکے ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان سے حاصل اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ملک میں دودھ پلانے والے جنگلی جانور(ممالیہ)، پرندے، رینگنے والے جانور، جل تھلیا اور تازہ اور سمندری پانی کی مچھلیوں کی کل 2063 اقسام پائی جاتی ہیں۔

جو دنیا میں پائی جانے والی مذکورہ اقسام کا 3.11 فیصد ہیں۔ پاکستان میں ممالیہ کی 195 اقسام موجود ہیں جو عالمی اقسام کا 3.53 فیصد ہے۔ جبکہ پرندوں کی ملکی اقسام کی تعداد 668 ہے جو عالمی اقسام کا 6.40 فیصد، رینگنے والے جانوروں کی اقسام کی ملکی تعداد 192 اور جل تھلیا کی 22 ہے جو بالترتیب عالمی اقسام کا 1.86 اور 0.29 فیصد ہے۔ اسی طرح تازہ اور سمندری پانی کی مچھلیوں کی اقسام کی ملکی تعداد 986 ہے جو عالمی اقسام کا 2.96 فیصد ہے۔

پاکستان کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہاں ممالیہ کی تین ایسی اقسام پائی جاتی ہیں جو روئے زمین پر اور کہیں نہیں۔ مگر ان میں سے ایک یعنی بلوچستان کا کالا ریچھ معدومی کے شدید خطرے سے دوچار ہے جبکہ باقی دو یعنی شمالی علاقہ جات کی اُڑن گلہری اور دریائے سندھ کی اندھی ڈولفن (بھولن) کی بقا کو بھی خطرے کا سامنا ہے۔ بقائے ماحول کی عالمی انجمن (IUCN) کی ریڈ لسٹ آف تھریٹنڈ سپیسز 2015 کے مطابق پاکستان میں پائی جانے والی 24 اقسام کی ممالیہ کو بقاء کے خطرے کا سامنا ہے۔ اسی طرح پرندوں کی 32 اقسام، رینگنے والے جانوروں کی 11 اور مچھلیوں کی 36 اقسام کی زندگی کو خطرے کا سامنا ہے۔ جبکہ 12 اقسام کے پودے بھی اپنی بقاء کو درپیش خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔اس ریڈ لسٹ کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں جانوروں کی9 اقسام شدید خطرات کا شکار ہیں۔ جبکہ 29 اقسام اپنی بقاء کے خطرات کا سامنا کر رہی ہیں۔

پاکستان میں اپنی بقاء کو لاحق خطرات کا سامنا کرنے والے جانوروں میں شمال میں پایا جانے والا کستوری ہرن، دریائی جنگلات کا باسی پاڑا، پاک بھارت سرحدی پٹی پر پائی جانے والی نیل گائے، صحراؤں کا مکیں چنکارہ غزال، پہاڑی ڈھلوانوں پر رہنے والا اڑیال، کوہساروں کی بلندی پر موجود مارخور اور آئی بیکس، پاک چین سرحد سے متصل علاقوںمیں پائی جانے والی روش (مارکو پولو شیپ) شمال اور جنوب کی انتہاؤں میں موجود گورخر اور دریائے سندھ کے محدود ہوتے مسکن کی مکیں انڈس ڈولفن، چیونٹی خور اودبلاؤ، مشک بلی، صحرائی بلی، تیندوا، لگڑ بھگڑ، اُڑن گلہری، بجو، سیاہ گوش، برفانی چیتا، بھورا ریچھ، سبز کچھوے، تازہ پانی کے کچھوے، انڈین تلور،مغربی ججو رانا (Westren Tragopan)، سفید سر والی مرغابی، گدھ، بلوچستان کے پہاڑوں میں رہنے والا کا لا ریچھ اور ملک کے طول و عرض میں پایا جانے والا بھیڑیا، تھر کا مور اور کالا بچھو شامل ہیں جو دھیرے دھیرے معدومیت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اگر ان کے تحفظ کی سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو مستقبل قریب میں یہ جانور بھی ہمارے ملک سے ناپید ہوکر کہانیوں کا حصہ بن جائیں گے۔

بات کو کہانیوں تک پہنچنے سے بچانے کے لئے دنیا بھر میں جنگلی حیات کے تحفظ کی بہت سی کو ششوں میں سے ایک نیشنل پارکس کا قیام بھی ہے۔دنیا میں اس وقت 6555 نیشنل پارکس ہیں۔ ان میں سے 26 نیشنل پارکس پاکستان میں موجود ہیں۔ جو ملک کے مجموعی رقبہ کے3 فیصد پر مشتمل ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے اعدادوشمار کے مطابق گلگت بلتستان میں نیشنل پارکس کی تعداد 5 ہے۔ آزاد جموں کشمیر میں 7 ، خیبر پختونخوا میں6 ، پنجاب میں4 ، بلوچستان میں2 ، سندھ میں ایک اور اسلام آباد میں بھی ایک نیشنل پارک موجود ہے۔ یہ 26 نیشنل پارکس 30 ہزار 4 سو 94 مربع کلو میٹر رقبہ پر محیط ہیں۔

ماہرین ماحول کرہ ارض کو ایک ایسی عمارت قرار دیتے ہیںجس کے ستون حیاتیاتی اجسام ہیں اور کسی بھی ایک ستون میں عدم توازن عمارت کو ڈھانے کا سبب بن سکتا ہے۔ تو کیا پھر ہم عمارت کو بچائیں یا اسے گرنے دیں۔ اب اس فیصلہ کا وقت آگیا ہے اور یہ فیصلہ ہم سب کو مل کر کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں