197ممالک میں تھنک ٹینک موجود ہیں مشاورت جو آج تھنک ٹینک کی صورت اختیارکرچکی

زندگی کے ہر شعبے کی ترقی ان سے وابستہ ہو گئی ہے


محمد عاطف شیخ July 03, 2016
زندگی کے ہر شعبے کی ترقی ان سے وابستہ ہو گئی ہے ۔ فوٹو : فائل

گزرے وقتوں میں جب کسی کو مشورے کی ضرورت ہوتی تو وہ کسی سیانے کی تلاش کرتا۔ یہ سیانے اپنے علم، تجربہ اور مہارت کی بنیاد پر مشورے کے قابل سمجھے جاتے تھے۔ اور دانا بادشاہ اپنے امور سلطنت کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے ان ذی شعور احباب سے صلاح ومشورے کا خصوصی اہتمام کرتے اور انھیں اپنے دربار کا حصہ بناتے۔ یوں پبلک پالیسی کے سلسلے میں کیا جانے والا مشاورت کا یہ سفرمنازل طے کرتا ہوا آج کی جدید دنیا میں تھنک ٹینک کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جن سے ناصرف حکومتیں بلکہ افراد اور کاروباری ادارے بھی مستفید ہو رہے ہیں۔

عالمگیریت ( گلو بلائزیشن) کے اس دور میں بقا، ترقی اور اختیار صرف اُن ہی کو حاصل ہے جو علم، تجربہ اور مہارت کی بنیاد پر مرتب کردہ مشوروں کو اپنی قلیل اور طویل المدتی پالیسیوں کا حصہ بناتے ہیں۔ اور ان کے تسلسل کے ساتھ جاری رہنے کا بھی ا ہتمام کرتے ہیں۔ مشاورت کا یہ عمل آج دنیا بھر میں 6846 تھنک ٹینکس سے لیا جارہا ہے۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ تحقیق اور حقائق کی پرکھ (تجزیہ) سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں پالیسی سازی کی راہ پر کئی ممالک تو کہیں آگے نکل گئے تو کئی ابھی راستے میں ہی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

امریکا کی ہی مثال لے لیں اس جیسی ترقی، اختیار اور بقا کے سب ہی خواہاں ہیں لیکن اس حقیقت پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے کہ اس وقت دنیا کے 27 فیصد تھنک ٹینک امریکی ہیں۔ جو اپنی حکومت، سوسائٹی اور میڈیا کی مشاورت، راہنمائی اور معلومات کے لئے مختلف شعبہ جات میں متحرک ہیں۔ اور ان کے صلاح مشوروں کو امریکی انتظامیہ نا صرف اہمیت دیتی ہے بلکہ اپنی پالیسیاں ان کی روشنی میں بھی مرتب کرتی ہے۔ اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک خصوصاً وطن عزیز میں تھنک ٹینکس سے استفادہ کی صورتحال کوئی اتنی حوصلہ افزا نہیں۔ سیاست سے معیشت اور خارجہ سے داخلہ امور تک ہماری پالیسیاں اکثر تنقید کی زد میں رہتی ہیں۔ اور ان کا منصوبہ بندی سے عاری ہونے اور تسلسل سے جاری نہ رہنے کا بھی شکوہ عمو ماً کیا جاتا ہے۔

لیکن اکثر ترقی یافتہ اور ترقی پذیرممالک کی حکومتوں اور انفرادی پالیسی سازوں کو ایک مشترکہ مسئلہ کا بھی سامنا رہتا ہے کہ حکومتی فیصلہ سازی کے لئے مہارت پر مبنی علم کو کہاں سے سامنے لایا جائے۔ کیونکہ پالیسی سازوں کی یہ ضرورت ہے کہ وہ جن معاشروں پر حکمرانی کر رہے ہیں اُن کے بارے میں اُن کے پاس قابلِ فہم، قابلِ اعتبار، قابلِ رسائی اور مفید معلومات ہوں۔ ان کو اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ جاری پالیسیاں کیسا کام کر رہی ہیں۔ تاکہ ان کے بہترنتائج کے لئے اگر ضرورت ہو توان کے متبادل کا انتظام کیا جاسکے۔ اس طرح کی بڑھتی ہوئی ضروریات نے آزادانہ پبلک پالیسی ریسرچ کے اداروں کو پنپنے کے مواقع فراہم کئے جنہیں ہم عرف عام میں تھنک ٹینک کہتے ہیں۔

تھنک ٹینک کی باقاعدہ اصطلاح رانڈ کارپوریشن (RAND Corporation) سے نکلی ہے۔ جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا کے لئے سٹرٹیجک سوچ و بچار کا محفوظ ماحول فراہم کیا۔ جنگ عظیم دوم سے قبل تھنک ٹینک برطانوی اور امریکی رجحان ( اینگلو امریکی) سمجھا جاتا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد اس طرح کے ادارے دنیا بھر میں پھیل گئے اس وقت دنیا کے 197 ممالک میں تھنک ٹینک موجود ہیں جن کی کم سے کم تعداد فی ملک ایک سے لے کر زیادہ سے زیادہ 1835 ہے۔

ہر سال یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے تھنک ٹینکس اینڈ سول سوسائیٹز پروگرام کی گلوبل گو ٹو تھنک ٹینک انڈکس رپورٹ کے تحت دنیا بھر میں ہزاروں تھنک ٹینکس کے حوالے سے ممالک کی مختلف درجہ بندیاں کی جاتی ہیں۔ مثلاً سب سے زیادہ تھنک ٹینکس کے اعتبار سے ممالک کی رینکنگ کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر اور علاقائی اعتبار سے بھی تھنک ٹینکس کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے اور کارہائے نمایاں کے حوالے سے بھی ان اداروں کی رینکنگ کی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ تھنک ٹینکس کے حوالے سے 2015 ء کی درجہ بندی میں 1835 کی تعداد کے ساتھ امریکا سب سے آگے ہے۔ 435 ایسے اداروں کے ساتھ چین دوسرے اور 288 کی تعداد کے ساتھ برطانیہ تیسرے نمبر پر ہے۔

جبکہ عالمی درجہ بندی کے پہلے دس ممالک میں دنیا کے 54 فیصد تھنک ٹینکس کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے 11 فیصد تھنک ٹینکس اسلامی تعاون کونسل ( او آئی سی) کے 57 میں سے 52 ممالک میں کم از کم ایک اور زیادہ سے زیادہ 59 فی ملک کی تعداد میں موجود ہیں۔ اپنے 59 تھنک ٹینکس کے ساتھ ایران اسلامی دنیا کا سب سے بڑا اور عالمی سطح کا 19 واں ملک ہے۔ جبکہ نائیجیریا 48 کی تعداد کے ساتھ اسلامی ممالک میں دوسرے اور دنیا میں 27 ویںنمبر پر ہے۔ اسلامی دنیا میںتیسرے نمبر کا اعزاز بنگلہ دیش کے پاس ہے جس کے 35 تھنک ٹینکس اُسے دنیا بھر میں37 ویں پوزیشن پر برا جمان کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں موجود تھنک ٹینکس کی تعداد 20 ہے اور اسے او آئی سی ممالک میں 13 ویں اور دنیا بھر میں 63 ویں پوزیشن حاصل ہے۔ جبکہ سارک ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔

اور خطے کے 5.23 فیصد تھنک ٹینکس کو پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ تمام سارک ممالک میں مجموعی طور پر 382 تھنک ٹینکس کام کر رہے ہیں جو عالمی تعداد کا 5.57 فیصد ہے۔سارک ممالک میں کم ازکم 6 سے لے کر 280 تھنک ٹینکس فی ملک موجود ہیں۔ بھارت 280 کی تعداد کے ساتھ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا اور دنیا کا چو تھا بڑا ملک ہے۔ بنگلہ دیش کا خطے میں دوسرا اور عالمی سطح پر 37 واں نمبر ہے۔

تھنک ٹینکس اداروں کی ترویج اور اضافے کے اعتبار سے چار ادواراہم ہیں۔ ان ادوار میں تھنک ٹینکس کے قیام کی لہر اٹھی۔ جنگ عظیم دوم سے قبل تھنک ٹینکس کی پہلی نسل سامنے آئی۔ یہ نسل شہری زندگی، انڈسٹریلائزیشن اور بیسویں صدی کی معاشی ترقی سے پیدا ہونے والے مسائل کے ردعمل میں پیدا ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پورے یورپ میںتھنک ٹینکس کی دوسری لہر اٹھی۔ اس عرصے کو سرد جنگ، سپر پاورز کی لڑائی اور تیسری جنگ عظیم چھڑنے جیسے مسائل کے دوران خارجہ پالیسی کے اداروں، سکیورٹی اور ترقیاتی مطالعے کے اداروں کے پھلنے پھولنے کا زمانہ کہا جا سکتا ہے۔

1970 کے بعد دنیا بھر میں تھنک ٹینکس کے پنپنے کا تیسرا دور شروع ہوا۔ اس عرصے میں تھنک ٹینکس کی اہم سرگر میوں کا تعلق معاشی اور سیاسی عدم استحکام یا سوویت یونین کے انجام اور لاطینی امریکہ اور ایشیا کے ممالک میں جمہوریتوں کے آنے سے متعلق بنیادی تبدیلیوں سے تھا۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اب تھنک ٹینکس کی چوتھی لہر چل رہی ہے۔ یہ دور اپنی خصوصیات کے اعتبار سے مختلف ہے۔ کیونکہ اس کو تھنک ٹینکس کی طرز کے اداروں کے پھیلاؤ سے متصف نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ رابطوں کے نئے طریقے ہیں جنہیں گلو بلائزیشن اور علاقائی فورسز نے آگے بڑھا یا ہے۔

دنیا بھر میں تھنک ٹینکس کی تعداد ان کے کام کے دائرہ کارا ور اثر پذیری میں اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ مختلف فاؤ نڈیشنز، سیاسی جماعتیں، کارپوریشنز، کاروباری دنیا کے بڑے نام اور حکومتیں اربوں ڈالرز خرچ کر کے غور وفکر کرنے کے لئے ان اداروں کی مدد کر تے ہیں۔ ان بڑے اخراجات کے موثر ہونے پر فطری طور پر ان اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے سوالات اٹھتے ہیں۔ بہتر کار کردگی بہتر رتبہ کا باعث بنتی ہے۔ اس حوالے سے گلوبل گو ٹو تھنک ٹینک (GGTTT) نے دنیا بھر کے ٹاپ کے تھنک ٹینکس کی درجہ بندی کی اور امریکا کے '' بروکنگس انسٹی ٹیوٹ'' (Brookings Institution)کو دنیا کا سب سے بہتر تھنک ٹینک قرار دیا۔برطانیہ کا '' کتھام ہاؤس'' (Chatham House)اور امریکا کا '' کارینجی انڈوومنٹ فار انٹر نیشنل پیس '' (Carnegie Endowment for International Peace)دوسرے اور تیسر ے نمبر پر آئے۔ بھارت کا ''سینٹر فار سول سوسائٹی'' اکلوتا جنوب ایشیائی تھنک ٹینک ہے جو دنیا کے 100 بہترین تھنک ٹینکس کی فہرست میں شامل اور79 ویںنمبر پر ہے۔

ٹاپ 100 کی اس فہرست میں اسلامی تعاون کونسل ( او آئی سی) کے 57 ممالک میں سے صرف 5 ممالک کے 6 تھنک ٹینکس نے ہی جگہ بنائی ہے۔ ترکی کے دو لبنان، مصر، انڈونیشیااور ملائیشیا کا ایک ایک تھنک ٹینک اس فہرست میں شامل ہے۔ لبنان کا '' کارنیجی مڈل ایسٹ سنٹر''(Carnegie Middle East Center) اس فہرست میں 34 ویں نمبر پر ہے۔ مصر کے ''الاحرام سنٹر فار پولیٹیکل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز'' (Al-Ahram Center for Political and Strategic Studies) کو 49 واں نمبر حاصل ہے۔ انڈونیشیا کے '' سنٹر فار پبلک پالیسی اسٹڈیز '' کو 70 ویں، ترکی کے '' ترکش اکانومک اینڈ سوشل اسٹڈیز فاؤنڈیشن'' اور '' ایسوسی ایشن فار لبرل تھنکنگ '' کو بالترتیب 74 واں اور 88 واں مقام حاصل ہے۔ جبکہ ملائیشیا کے '' سنٹر فار پبلک پالیسی اسٹڈیز'' اس فہرست میں99 ویں نمبر پر ہے۔ یونیورسٹی آف پنسیلوانیا کے تھنک ٹینکس اینڈ سول سو سائٹیز پروگرام کی اس درجہ بندی میں برطانیہ اپنے 15 بہترین اداروں کے ساتھ دنیا کے ٹاپ100 تھنک ٹینکس میں سر فہرست ملک ہے۔ امریکا 14 اورجرمنی 9 بہترین تھنک ٹینکس کے ساتھ اس رینکنگ میں دوسری اور تیسری پوزیشن پر ہے۔

یہ انسٹی ٹیوٹ اکثر تدریس، پالیسی سازی، حکومتوں اور سول سوسائٹی کے درمیان پل کا کام کر تے ہیں۔ ان کا کام اطلاقی اور بنیادی تحقیق کو اس قدرسادہ بنانا ہے کہ اُسے آسانی سے سمجھا جاسکے۔ جو قابل اعتبار اور پالیسی سازوں اور عوام کی رسائی میں ہو۔ آج تھنک ٹینک انڈسٹری متنوع ہے ۔ ایسے اداروں کی بہت سی نئی اقسام سامنے آچکی ہیں۔ یہ اپنے حجم، اسٹرکچر، پالیسی کے پھیلاؤ اور سیاسی اہمیت کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ کچھ ادارے غیر جانبدار رہ کر اور غیر نظریاتی بنیادوں پر کام کرنے کے خواہاں ہیں اور سماجی اور معاشی مسائل پر سائنسی اور تکنیکی اپروچ کا دعویٰ کرتے ہیں۔

کچھ تھنک ٹینکس اکیڈمک طرز کے ادارے ہیں۔ ان کی توجہ تحقیق پر ہے اور ان کی دلچسپی یو نیورسٹی کے مفادات اور علمی بنیاد پر قائم معاشرے پر ہے۔دیگر ادارے بظاہر جانبداریت یا نظریاتی بنیادوں پر بھی قائم کئے گئے ہیں۔کئی ادارے عام طور پر اپنے خیالات پر دلائل دینے اور ان کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔ اس طرح کے ادارے اپنے خیالات کو پھیلانے میں سادہ ذرائع یا میڈیا کی بھرپور کوریج کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ طرز عمل زیادہ تر یورپ اور شمالی امریکا میں اپنایا جاتا ہے۔ اپنے شعبوں سے متعلق تخصیص کرنا ماحولیاتی تھنک ٹینکس، معاشی پالیسی کے تھنک ٹینکس اور علاقائی مسائل پر مرکوز تھنک ٹینکس کے شعبے میں ہونے والی پیش رفت ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کی بنا پر '' ورچول ٹینکس'' میں بھی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

تھنک ٹینکس کو عمومی طور پر سات اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی قسم خودمختار اور آزاد نوعیت کے تھنک ٹینکس پر مشتمل ہے۔ اس قسم کے ادارے کسی بھی گروپ یا ڈونر کے اثر سے آزاد اور اپنے کام میں خودمختار ہوتے ہیں۔ اور حکومت سے فنڈنگ حاصل کرتے ہیں۔ دوسر ی قسم بظاہر آزاد تھنک ٹینکس کی ہے۔ یہ حکومت کے اثر سے تو آزاد ہوتے ہیں لیکن کسی ایک گروپ یا ڈونر کے زیر اثر ہوتے ہیں جو اُن کو زیادہ تر فنڈنگ فراہم کرتے ہیں۔ تیسر ی قسم کے تھنک ٹینکس حکومت سے الحاق شدہ ہیں۔ یہ حکومتی ڈھانچے کے ایک باقاعدہ حصہ کے طور پر ہوتے ہیں۔ چوتھی قسم بظاہر سرکاری تھنک ٹینکس پر مبنی ہے۔ یہ ادارے خاص طور پر حکومت سے فنڈنگ حاصل کرتے ہیں۔

لیکن یہ حکومتی ڈھانچے کا با قاعدہ حصہ نہیں ہوتے۔ پانچویں قسم جامعات سے الحاق شدہ تھنک ٹینکس پر مشتمل ہے جو جامعات کے پالیسی تحقیق کے سینٹرز کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ اگلی قسم سیاسی جماعتوں کے الحاق شدہ تھنک ٹینکس کی ہے۔ یہ ادارے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ باقاعدہ طور پر وابستہ ہوتے ہیں۔آخری قسم کے تھنک ٹینکس کارپوریٹ ( برائے منافع) ہوتے ہیں۔ یہ پبلک پالیسی کی تحقیق کے ایسے ادارے ہیں جو کسی کارپوریشن کے ساتھ الحاق شدہ ہوتے ہیں اور آمدن اور منافع کے لئے کام کرتے ہیں۔

تھنک ٹینکس کو اگر چہ آج زیادہ مسائل، زیادہ ایکٹرز، زیادہ مقابلہ اور زیادہ تنازعات جیسے اندیشوں کا سامنا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر تھینک ٹینک دنیا بھر میں مضبوط ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کیونکہ دنیا کے ہر خطے کے عوام کی بہتری کے لئے پائیدار معیشت، سماجی اور سیاسی ترقی کے حوالے سے ان پبلک پالیسی ریسرچ آرگنائزیشنز کا کردار تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں بقا، ترقی اور اختیار کے حصول کے خواب کو حقیقت کا روپ دیتا ہے۔

تھنک ٹینک کی تعریف
٭ اقوام متحدہ کے ادارے برائے ترقی ( یو این ڈی پی) کے مطابق ایسی آرگنائزیشنز جو پبلک پالیسی سے متعلقہ کسی بھی موضوع پر باقاعدگی سے تحقیق اور ایڈوکیسی کے کام میں مصروف ہو ۔ یہ جدید جمہوریتوں میں علم اور طاقت کے درمیان ایک پل ہیں۔

٭ یونیورسٹی آف پنسیلوانیا کے تھنک ٹینکس اینڈ سول سوسائٹیز پروگرام کے مطابق تھنک ٹینک پبلک پالیسی کی تحقیق اور تجزیہ میں مصروف ایسے ادارے ہیں جو مقامی اور بین الاقوامی مسائل پر پا لیسی جیسی تحقیق، تجزیہ اور صلاح مشورہ دیتے ہیں۔ یہ پالیسی سازوں اور عوام کو اس قابل کرتے ہیں کہ وہ پبلک پالیسی سے متعلق باخبر فیصلے کریں۔

تھنک ٹینک کی تاریخ
دنیاکے پہلے تھنک ٹینک کی مثال 1824 میں امریکا میں دی فرینکلین انسٹی ٹیوٹ (The Franklin Institute)سے ملتی ہے جس کا بنیادی کام بینجامن فرینکلین (Benjamin Franklin)کو خراج تحسین پیش کرنا اور ان کی ایجادات کی اہمیت کو بڑھانا تھا۔ اس کے بعد 1831میں برطانیہ کا دی رائل یو نائٹیڈسروسز انسٹی ٹیوٹ (The Royal united Services Institute) قائم ہوا۔ جو دفاع اور سکیورٹی کی تحقیق کے شعبے میں کام کرتا ہے۔ دنیا کا سب سے پہلا سیاسی تھنک ٹینک دی فابین سوسائٹی(The Fabian Society) ہے جو برطانیہ میں 1884 میں قائم کیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں