الوداع یورپی یونین الوداع

برطانوی عوام نے فیصلہ سنا دیا، برطانیہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟


آصف زیدی July 03, 2016
برطانوی عوام نے فیصلہ سنا دیا، برطانیہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ۔ فوٹو : فائل

لیجیے ! برطانوی عوام نے اپنے ووٹوں سے وہ تاریخی فیصلہ سنادیا جس کے حوالے سے کافی عرصے سے برطانیہ میں شور برپا تھا۔ ریفرنڈم اس بات پر تھا کہ ''برطانیہ یورپی یونین میں رہے یا نکل جائے؟'' اور تاریخی ریفرنڈم میں برطانوی عوام کی اکثریت نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دے دیا اور کہا کہ ہم یورپی یونین میں نہیں رہنا چاہتے بل کہ الگ حیثیت میں رہنا چاہتے ہیں۔

ریفرنڈم کے نتیجے کے بعد دنیا بھر میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ صورت حال کے پیش نظر برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ میں عوام کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اکتوبر میں کنزرویٹو پارٹی کانفرنس کے آغاز کے موقع پر ملک میں ایک نیا وزیراعظم ہونا چاہیے۔

کیمرون نے کہا کہ وہ آنے والے ہفتوں میں ملک کو سنبھالنے کیلئے کام کریں گے لیکن اْن کے خیال میں یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کا عمل ایک نئے کپتان کی سربراہی میں شروع ہونا چاہیے۔ کیمرون کا کہنا تھا کہ ملک کو اب ایک نئے وزیراعظم کی ضرورت ہے جو یورپی یونین سے اخراج کے عمل کا آغاز کرے اور اُسے پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ اگرچہ یورپی یونین سے علیحدگی وہ راستہ نہیں جس پر وہ چلنے کا مشورہ دیتے لیکن وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ یورپی یونین کے بغیر رہ سکتا ہے۔

عالمی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق کے مطابق برطانیہ میں جمعرات کو ہونے والے تاریخی ریفرنڈم میں ووٹنگ کی شرح 71.8فی صد رہی اور 3 کروڑ سے زیادہ افراد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ نتائج کے مطابق52 فی صد عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں جب کہ48 فی صد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا۔ ریفرنڈم کے نتائج کو 28 رکنی یورپی تنظیم کے لیے بہت بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

برطانیہ 43برس کے ساتھ کے بعد یورپی یونین کو الوداع کہنے والا پہلا ملک بن جائے گا۔ تاہم علیحدگی کے حق میں ووٹ کا مطلب برطانیہ کا یورپی یونین سے فوری اخراج نہیں ہے۔ اس عمل میں کم از کم2 برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

انگلینڈ میں بھی سیاسی جماعتیں اور ان کے راہ نما اس عوامی فیصلے پر ملاجلا ردعمل ظاہر کررہے ہیں، یو کے انڈیپنڈنٹ پارٹی کے راہ نما نائیجل فرار نے اسے برطانیہ کا 'یومِ آزادی' قرار دیا ہے، جب کہ یونین کا حصہ رہنے کے حامی کیمپ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ 'تباہ کن' ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ برطانوی عوام نے تو یورپی یونین کی اہمیت کو مسترد کردیا لیکن اس فیصلے کے بعد یورپی یونین کی مخالف تنظیموں نے فرانس، نیدرلینڈ اور اٹلی میں بھی ریفرنڈم کا مطالبہ کردیا ہے اور کہا ہے کہ عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ ان کا ملک یورپی یونین کے ساتھ جُڑا رہے یا نہیں۔

مستعفی ہونے کا اعلان کرتے وقت ڈیوڈ کیمرون نے وعدہ کیا کہ وہ برطانیہ کو اُس کا راستہ تلاش کرنے کے عمل میں جو ممکن ہو سکے گا کریں گے۔ میرے لیے مناسب نہیں کہ ان حالات میں ملک کی قیادت کروں کیوںکہ عوام نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے جس کا میں حامی تھا۔ ہمیں اب یورپی یونین سے بات چیت کے لیے تیار ہونا ہوگا، جس کے لیے اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کی حکومتوں کو مکمل ساتھ دینا ہوگا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ برطانیہ کے تمام حصوں کے مفادات کا تحفظ ہو۔

ادھر یورپی راہ نماؤں نے برطانیہ سے کہا ہے کہ وہ جتنا جلدی ہوسکے یورپی یونین سے نکل جائے، کیوںکہ اس میں تاخیر غیریقینی کو ہوا دے گی۔ برطانوی عوام کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد یورپی راہ نماؤں نے تنظیم میں یک جہتی اور استحکام کے ساتھ ساتھ تبدیلی اور اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک باقی ماندہ27ممالک کو متحد رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

برسلز میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ برطانیہ کی ممکنہ علیحدگی کے باجود یورپی اتحاد قائم رہے گا۔ تجزیہ نگاروں کو اس بارے میں ہذیانی ردعمل سے گریز کرنا چاہیے۔ یورپین پارلیمنٹ کے صدر مارٹن اسکلز، یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک، یورپین کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ نکر اور ڈنمارک کے وزیرِاعظم مارک رْوتے نے بھی ہنگامی اجلاس منعقد کیے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ریفرنڈم کے نتائج کو یورپ کے لیے فیصلے کی گھڑی قرار دیا اور یورپی راہ نماؤں کا اجلاس بلا لیا۔ مرکل کا کہنا تھا کہ یورپی عوام کی امیدیں برطانیہ سے مختلف ہیں۔ فرانس کے صدر فرانسوا اولاند سمیت بعض یورپی راہ نماؤں نے اپنے اپنے ملک میں بحران کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔

آسٹریا کے وزیرِخارجہ سمیت کئی راہ نماؤں نے خدشہ ظاہر کیا کہ برطانیہ کے انخلا سے پوری تنظیم کو خطرہ ہو گا۔ جرمن وزیرِخارجہ فرینک والٹر کا کہنا تھا جمعہ کا دن یورپ اور برطانیہ کے لیے انتہائی دکھ بھرا دن ہے۔ ان کے پولش ہم منصب کا کہنا ہے کہ یہ یورپ اور پولینڈ دونوں کے لیے ایک بری خبر ہے۔ پرتگال کے صدر مارکو ریبیلو ڈی سوزا کا کہنا تھا کہ یورپی یونین مضبوط رہے گی اور ایک مشترکہ شناخت کی جو قدر بنائی گئی ہے۔ اس کا دفاع کرے گی۔ ڈنمارک کے وزیرِاعظم لارس لوئکے راسموسین نے یورپی یونین سے جڑا رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اٹلی کے وزیرِاعظم میٹیو رینزی سمیت کئی راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کو بدلنا چاہیے اور مزید انسان دوست اور منصفانہ ہونا چاہیے۔

ریفرنڈم کے بعد امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ امریکا برطانوی عوام کے فیصلے کا احترام کرتا ہے۔ برطانیہ اور امریکا آئندہ بھی ایک دوسرے سے جڑے رہیں گے۔ اوباما کا کہنا تھا کہا کہ امریکا برطانوی عوام کے فیصلے کا احترام کرتا ہے۔ نیٹو کے رکن ملک کے طور پر برطانیہ کو امریکا کی خارجہ، سلامتی اور اقتصادی پالیسیوں میں مرکزی اہمیت حاصل رہے گی۔

٭برطانوی ریفرنڈم کے بعد
اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن نے کہا ہے کہ برطانیہ کے یورپ سے نکلنے کے فیصلے کے بعد اسکاٹ لینڈ کے برطانیہ کا حصہ رہنے سے متعلق ایک اور ریفرینڈم کا 'قوی امکان' ہے۔ اسکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ نے برطانوی عوام کی جانب سے یورپی یونین کو چھوڑنے کے فیصلے پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے لیے یہ جمہوری طور پر قابل قبول نہیں ہے کہ اس کی مرضی کے خلاف اسے یورپی یونین چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔

یاد رہے کہ یورپی یونین میں رہنے سے متعلق ریفرنڈم میں اسکاٹ لینڈ کے 62 فی صد عوام نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن نے کہا کہ جن لوگوں نے 2014 میں اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کے خلاف ووٹ دیا انھیں اپنے فیصلے کا نئے سرے سے جائزہ لینا ہو گا۔ریفرنڈم کے فیصلے سے یہ واضح ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے عوام اور باقی برطانوی عوام کے خیالات میں واضح فرق ہے جو قابل افسوس ہے۔ یورپی یونین کو چھوڑنے سے متعلق برطانوی عوام کے فیصلے کے بعد اسکاٹ لینڈ کی کابینہ کا اجلاس جلد ہوگا۔

امریکا کی ریپبلکن جماعت کی جانب سے ممکنہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی ریفرنڈم پر کہا کہ برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دے کر اپنا ملک واپس حاصل کر لیا ہے، جو ہوا وہ زبردست بات ہے، یہ تاریخی اور حیرت انگیز ووٹ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں لوگ ناراض ہیں، وہ اپنی سرحدوں پر ناراض ہیں۔

اس فیصلے کا اثر دنیا بھر کی معیشت اور عالمی سیاسی صورت حال پر بھی پڑے گا، امیر ترین ممالک کے گروپ جی سیون کی سربراہ کانفرنس میں بھی برطانیہ کے یورپی یونین کو چھوڑنے کے ووٹ کو عالمی پیداواری ترقی کے لیے شدید خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ یہ اجلاس برطانوی ریفرنڈم سے چند روز قبل ہوا تھا۔ گروپ نے خبردار کیا ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے سے بڑھتی ہوئی عالمی تجارت، سرمایہ کاری اور ملازمتوں کے رحجان کا رخ تبدیل ہو سکتا ہے۔

جلد طاقت ور، قابل قبول اور متوازن پیداواری طریقۂ کار حاصل کرنے کے لیے ہمیں معاشی پالیسی کو مضبوط بنانے کے لیے تعاون کے ذریعے مضبوط اور متوازی پالیسی کی ضرورت ہے۔

قارئین کو بتاتے چلیں کہ ریفرنڈم کا نتیجہ آتے ہی سب کچھ تبدیل نہیں ہوجائے گا، اس میں کافی وقت لگے گا۔

معاہدہ لزبن کے آرٹیکل50کے تحت عوامی فیصلے کی روشنی میں برطانوی وزیراعظم کو یورپی یونین سے علیحدگی کی باضابطہ درخواست کرنا ہو گی۔ جب برطانوی وزیراعظم یونین سے علیحدگی کی باقاعدہ درخواست کرے گا اس تاریخ کے 2برس کے اندر اس مرحلے کو مکمل کیا جانا لازم ہے۔ علیحدگی کی اس میعاد میں صرف اسی صورت میں اضافہ ہو سکتا ہے جب یورپی یونین کے تمام اراکین متفقہ طور اس کی منظوری دیں۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے باقاعدہ علیحدگی کے بعد شاید برطانوی پاسپورٹ کو بھی تبدیل کرنا ہوگا، کیوںکہ برطانوی پاسپورٹ کے اولین صفحے پر یورپی یونین لکھا ہوا ہے۔ یورپی ہیلتھ انشورنس کارڈ بھی اس وقت تک کارآمد رہے گا جب تک برطانیہ کی یورپی یونین سے باقاعدہ علیحدگی نہیں ہوجاتی۔ اس طرح جب تک برطانیہ باضابطہ طور پر یورپی یونین سے علیحدہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک موجودہ ڈرائیونگ لائسنس ہی چلے گا۔

برطانوی عوام کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے حق میں ووٹ ڈالنے کے بعد بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے برطانیہ کی کریڈٹ ریٹنگ کو کم کرتے ہوئے 'منفی' کر دیا ہے۔ موڈیز کا کہنا ہے کہ ووٹ کا نتیجہ 'غیریقینی صورت حال کا ایک طویل دور' ہے۔ ریفرنڈم کے نتیجے میں 'ملک کے درمیانی مدت کے ترقی کے امکانات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے' اور اس نے برطانیہ کے طویل مدتی فراہم کنندہ اور قرض کی ریٹنگ کو 'مستحکم' سے 'منفی' کر دیا ہے۔

برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کی خبروں کے بعد دنیا بھر میں بازارِ حصص میں مندی دیکھنے میں آئی اور برطانوی پاؤنڈ عشروں کی ریکارڈ سطح تک گرگیا۔

اب دیکھتے ہیں کہ یہ صورت حال کتنے عرصے جاری رہتی ہے اور برطانیہ کی معیشت اور وہاں کے سیاسی ، سماجی نظام پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کا تعین آئندہ مہینوں میں ہوجائے گا، لیکن اس وقت صورت حال برطانیہ ارباب اقتدار کے لیے پریشان کن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں