اسلام آباد اب صرف پردیسیوں کا شہر نہیں رہا

رمضان کا آخری عشرہ ہو، چاند رات یا عید۔ اسلام آباد میں جم غفیردیکھ کرمحسوس ہی نہیں ہوتاکہ یہ کبھی پردیسیوں کا شہرتھا


شاہد کاظمی July 07, 2016
ایک وقت وہ بھی تھا جب یہاں لوگ صرف کچھ وقت کے لیے آتے تھے لیکن وسائل، مصروفیات اور دیگر عوامل نے لوگوں کو ان شہروں کا مستقل باسی بنا دیا ہے۔

بھئی یہ تو پردیسیوں کا شہر ہے، تعطیلات کا اعلان ہوگیا ہے۔ اب دیکھنا یہ شہر تو خالی ہوجائے گا۔ اس شہر میں اداسی ڈیرے ڈال لے گی۔ ویران ہوجائے گا بس عید پر یہ شہر تو۔

عید کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان کے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے بارے میں کچھ ایسے ہی خیالات کم و بیش ہر پاکستانی کے ہوتے ہیں۔ جی ہاں اسلام آباد کو عام طور پر پردیسیوں کا شہر بھی کہا جاتا رہا ہے۔ اس کی وجوہات یہ رہی ہیں یا یہ بیان کی جاتی رہی ہیں کہ اس شہر میں بسنے والے بیشتر وفاقی ملازمین ہیں اور اکثریت اپنے علاقوں کو روانہ ہوجاتی ہے اور گھروں پر تالے اور شہر میں ویرانی ڈیرے ڈال لیتی ہے۔

کافی عرصہ تک یہ تاثر کسی حد تک ٹھیک بھی تھا، لیکن اب حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں اور اب ایسا ہرگز نہیں رہا۔ اب اسلام آباد جیسے سرسبز و شاداب شہر میں بھی عید کی گہما گہمی اسی طرح ہوتی ہے جس طرح پاکستان کے کسی بھی دوسرے شہر میں ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا جب اس کو پردیسیوں کا شہر کہا جا سکتا تھا لیکن اب اس شہر میں قائم پی ٹی سی ایل کالونی ہو یا پمز کالونی، سپریم کورٹ کے رہائشیوں کی عمارات ہوں یا پھر میڈیا سے تعلق رکھنے والے بڑے صاحبان، وزارتوں میں کام کرنے والے بابو ہوں یا پھر سیکریٹریٹ میں فرائض سر انجام دینے والے ٹائی والے صاحب۔ آپ کو تصویر کا ایک نیا رخ یہ نظر آتا ہے کہ دوسرے علاقوں سے یہاں آنے والے بیشتر ملازمین اب مقامی فرد کا درجہ اس لئے پاچکے ہیں کہ ان کے اجداد کی قبریں تک یہاں بن چکی ہیں۔

ایک دور تھا جب اسلام آباد میں مذہبی تہواروں پر چیدہ چیدہ لوگ قبروں کے ساتھ بنی نشتوں پر بیٹھے نظر آتے تھے اور تاثر یہ دیا جاتا تھا کہ یہ موسمی پنچھیوں کا شہر ہے جو اپنے پیاروں کی قبروں تک کو چھوڑ کر اپنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔ لیکن اس دفعہ جمعتہ الوداع والے دن H-8 کے قبرستان میں جانے کا اتفاق ہوا تو تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ گورکن صاحب کے بقول عید کے دن یہاں ایک میلے کا سا سماں ہوتا ہے۔ کجا قبرستان کجا میلا۔

لیکن ایسا ہی ہے کیونکہ لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر اپنے بچوں کے ساتھ آتے ہیں کہ اب اسلام آباد ہی ان کا آبائی شہر بن چکا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال فقیر ایپی روڈ پر واقع قبرستان اور ملتی جلتی صورت حال یونیورسٹی قبرستان میں بھی ہوتی ہے۔ عیدین پر اکثر سنتے آئے کہ اسلام آباد سے پردیسیوں کو لے جانے کیلئے خصوصی بسیں و ٹرینیں چلتی تھیں۔ مگر اب فیض آباد انٹرچینج، پیرودائی بس اسٹینڈ کا راقم نے خود حال ملاحظہ کیا۔ عام دنوں سے بھی کم رش، وجہ یہ کہ لوگ اسلام آباد میں ہی رہائش کے ملکیتی حقوق لے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام و راولپنڈی کے جڑواں شہروں کا فرق اتنا کم ہوگیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد کی حدود مارگلہ ہلز سے شروع ہو کر چکری انٹرچینج تک پہنچ چکی ہے۔

اسلام آباد میں چند ملازمین دوست جن سے راقم کی ذاتی سلام دعا ہے اور علم ہے کہ ان کے آبائی علاقے دیگر ہیں، جب عید گزارنے کا دریافت کیا تو حیرانگی سے گویا ہوئے کہ یار سالوں سے یہاں ہیں، اپنی رہائش ہے، والدین کی قبریں یہاں ہے تو اب کیسا پردیس اب تو اسلام آباد ہی ہمارا شہر ہے۔ رمضان کا آخری عشرہ ہو یا چاند رات، عید کا پہلا دن ہو یا دوسرا ان ایام میں میلوڈی فوڈ مارکیٹ کے مناظر ہوں یا ڈبل روڈ کی فوڈ اسٹریٹ کے جم غفیر دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کبھی پردیسیوں کا شہر تھا۔

شہر بتدریج ارتقائی عمل سے گزرتے ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب یہاں لوگ صرف کچھ وقت کے لیے آتے تھے لیکن وسائل، مصروفیات اور دیگر عوامل نے لوگوں کو ان شہروں کا مستقل باسی بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہاں مستقل مسکراہٹوں نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ جہاں سے کبھی خصوصی ٹرانسپورٹ سے لوگ عیدین پر آبائی علاقوں کو جاتے ہیں، اب وہاں اپنے عزیزوں کے پاس دوسرے شہروں سے لوگ آتے ہیں کہ اس شہر کا موسم ہی رومانویت کا عجب تاثر رکھتا ہے۔ نفاست اس شہر کا ایک خاص وصف ہے تو پنجابی کھانوں کے مراکز بھی اسلام آباد کی خوبصورتی کو تڑکا لگاتے ہیں۔ اِس لیے یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ کل کا پردیسیوں کا شہر آج مستقل مسکراہٹوں کا مرکز بن چکا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔