مت قتل کرو آوازوں کو
سنو ظالمو! اس کائنات میں آوازیں زندہ رہتی ہیں کیونکہ یہ آوازیں دلوں پر دستک دیتی ہیں
DASKA:
مت قتل کرو آوازوں کو یہ خوشبو ہیں یہ نغمے ہیں
جہاں انساں تو مرجاتے ہیں آوازیں زندہ رہتی ہیں
سنو ظالمو! اس کائنات میں آوازیں زندہ رہتی ہیں کیونکہ یہ آوازیں دلوں پر دستک دیتی ہیں، یہ آوازیں دھڑکنوں میں پرورش پاتی ہیں، یہ آوازیں احساس کوگرماتی رہتی ہیں، یہ آوازیں دنیا میں گردش کرتی ہیں اور ستاروں کی طرح جگمگاتی رہتی ہیں۔
آج جو شخصیات ہمارے درمیان نہیں ہیں، ان کی آوازیں آج بھی چمک رہی ہیں دمک رہی ہیں ام کلثوم، ملکہ پکھراج، سہگل، بیگم اختر، محمد رفیع، نور جہاں، مہدی حسن، اقبال بانو، مہ ناز، جگجیت سنگھ، غلام فرید صابری کی آوازیں زندہ ہیں اور اب امجد صابری کی آواز بھی زندہ وتابندہ رہے گی۔کائنات کا دامن ان آوازوں کے لیے ہمیشہ کشادہ ہی رہے گا، جن ظالموں نے امجد صابری کو شہید کیا ہے وہ سمجھ رہے ہیں کہ امجد صابری مرگیا ہے۔
نہیں، نہیں، وہ مرا ہی نہیں وہ تو اور امر ہوگیا ہے مگر تم ظالمو! اسی لمحے مرگئے تھے، اسی پل نیست و نابود ہوگئے تھے اور تمہارے لیے جہنم کی آگ اسی پل تیار کردی گئی تھی۔ ظالمو! تم تو انسان تھے ہی نہیں تم تو اپنے مردود آقاؤں کے غلام تھے تم تو ان کے روبوٹ تھے جو صرف حکم کے خلاف ہوتے ہیں تم تو ابلیس کے علم بردار تھے جو روز ازل سے ابن آدم کے دشمن ہیں۔ تم نے امجد صابری کو شہید کرکے اپنے آقاؤں کو خوش کیا ہے مگر اپنے پیدا کرنے والے اور زندگیوں کے مالک کو ناراض کیا ہے ۔امجد صابری تو مرکر زندہ جاوید ہوگیا ہے۔ افسوس صد افسوس ہمارا آج کا معاشرہ قاتلوں کا پروردہ ہے۔ ہمارا آج کا معاشرہ ظالموں، بے رحموں اور بے انصافوں کا ساتھی ہے۔
ہمارے آج کے حکمراں بے حسی کے بت ہیں۔ اپنے محلوں میں عیش وعشرت میں مگن ہیں۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ جن کا کام قوم کے افراد کی زندگیوں کو تحفظ دینا ہے، جن کا کام ہر فردکو انصاف اس کی دہلیز پر دینا ہے وہ صرف اپنے تحفظ پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کی زندگیوں میں خوشیوں کے سویرے ہیں مگر عوام الناس کی زندگیوں میں قدم قدم پر محرومیاں اور اندھیرے ہیں۔ عوام کا سکون برباد ہوچکا ہے، ملک میں امن ناپید ہوچکا ہے۔آج ملک میں دانشوروں، ڈاکٹروں اور فنکاروں کو چن چن کر بے دریغ مارا جا رہا ہے آج آسمان بھی بے گناہوں اور معصوم لوگوں کے قتل پر رو رہا ہے اور آسمان بنانے والے سے فریاد کر رہا ہے۔
امجد صابری کا قتل ایک انسان کا قتل نہیں سارے معاشرے کا قتل ہے وہ ایک مخلص انسان تھا وہ ایک سچا عاشق رسولؐ تھا وہ تو لوگوں میں محبت کے پھول نچھاور کرتا تھا وہ جب اپنی جادو بھری آواز میں نعت پڑھتا تھا، حمد گاتا تھا اور دل کی گہرائیوں سے کہتا تھا۔
بھر دو جھولی مری یا محمدؐ
لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
جب اس کی آواز ابھرتی تھی تو کائنات جھوم اٹھتی تھی، فرش سے عرش تک درود و سلام کی آوازیں گونجنے لگتی تھیں اور فضاؤں میں نور ہی نور بکھر جاتا تھا۔ امجد صابری انسان دوست تھا، دردمند دل کا حامل تھا وہ ڈھکے چھپے انداز میں نہ جانے کتنے بے سہارا لوگوں کا سہارا تھا، میں اسے ایک طویل عرصے سے جانتا تھا۔ میں اس کے والد عظیم فنکار غلام فرید صابری سے اکثر ملنے ان کے گھر جایا کرتا تھا۔ وہ میرے اور استاد امیر احمد خان کے مشترکہ دوست تھے وہ بہت ہی نفیس انسان اور باکمال فنکار تھے، ساری دنیا ان کے فن کی دیوانی تھی وہ لمحے مجھے اچھی طرح آج بھی یاد ہیں۔
جب ہم غلام فرید صابری، مقبول فرید صابری کے گھر میں ہوتے تھے اور باتوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا توکمسن امجد صابری ہرگھنٹے بعد کیتلی سے چائے کپوں میں انڈیل کر سب کو بڑے ادب سے دیا کرتا تھا وہ دس سال کی عمر ہی سے اپنے والد کے فن سے وابستہ ہوگیا تھا۔ اکثر والد کے ساتھ بیٹھ کر ریاض بھی کرتا تھا اسے بھی گھر کے ماحول سے متاثر ہوکر ہی فن گائیکی سے دلچسپی ہوگئی تھی پھر جب غلام فرید صابری کی قوالیوں نے دنیا بھر میں دھوم مچائی تو امجد صابری بھی ان کے ساتھ رہا کرتا تھا۔''تاجدار حرم '' جیسی لازوال قوالی کسے یاد نہیں!
والد کے انتقال کے بعداپنے والد کی گدی نشینی کا حقدار تمام بھائیوں میں صرف امجد صابری ہی تھا اور یہ بات اس کے بڑے بھائی نے بھی دل سے محسوس کی تھی، پھر امجد صابری کو فن قوالی کی پگڑی پہنائی گئی اور امجد صابری نے بھی اس پگڑی کا حق اداکردیا۔ اپنے والد کے فن کو دن رات کی محنتوں کے بعد مزید جلا بخشی اور اپنے والدکے اندازکو ہو بہو اپنانے کی بڑی کامیاب کوشش کی اور لاکھوں دلوںمیں گھرکرتا چلا گیا اور پھر محبت کا پیغام پہنچانے کے لیے یہ بھی ساری دنیا میں جانے لگا۔ یورپ امریکااورافریقہ میں بھی اس کے چاہنے والے لاکھوں کی تعداد میں ہیں اس نے اپنے والد کے نام کو اورزیادہ روشن کیا۔
میری امجد صابری سے امریکا میں بھی ملاقاتیں رہتی تھیں وہ فون پر بھی مجھ سے باتیں کرتا تھا ۔کئی باراس نے مجھ سے کچھ لکھنے کی فرمائش بھی کی تھی میں جب بھی کراچی جاتا تھا اس سے مختلف محفلوں اورپروگراموں میں ملاقاتیں رہا کرتی تھیں۔ اپنے والد کی طرح وہ محبت اور خلوص کا پیکر تھا۔ ایک دن دیرینہ دوست ندیم وارثی کے گھر کی ایک تقریب میںامجد صابری سے ملاقات میں اس سے میں نے کہا تھا۔ امجد میاں! کسی دن آپ کی ایک محفل رکھنے کاپروگرام بنا رہا ہوں۔ تو وہ اپنی مخصوص ہنسی کے ساتھ بولا۔ ''یونس بھائی! آپ بس حکم کریں '' اور آج اس ملاقات کو یاد کرکے میری آنکھیں بھیگی ہوئی ہیںاور دل اندر سے رو رہا ہے، وہ کیا انسان تھا۔ وہ تودنیا میں ایک فرشتے کا روپ تھا جو لاکھوں لوگوں کوخوشیاں بانٹتا ہو اس کو مارکر اس کے معصوم بچوں کویتیم کرکے اس کے گھر کی دیوارودر پر رنج وغم کے اندھیرے پھیلا کر ظالموں کو کیا ملا آج میرا دل بھی روتے ہوئے کہہ رہا ہے۔
ایک فنکار کو پیارے انسان کو
ظالمو! قتل کرکے تمہیں کیا ملا
اس کی آواز تو اک اُجالا سی تھی
وہ دلوں کے لیے اک سہارا سی تھی
اس کی آواز میں تھی محبت بھری
ہاں شہادت کی اس کو یہ عظمت ملی
درد غیروں کا وہ بانٹتا تھا سدا
اس کی آنکھوں میں تھا بس در مصطفیٰؐ
وہ مسافر سدا سے مدینے کا تھا
حمد اور نعت ہی زندگی اس کی تھی
پیار دنیا میں کرتے تھے اس کو سبھی
اس کی آواز تھی جیسے باد صبا
اس کو خاموش کرکے تمہیں کیا ملا
ظالمو! تم پے ٹوٹے گا قہرِ خدا