ٹیکس بذریعہ موبائل فون کیوں اور کیسے

پاکستان میں لوگوں کے ٹیکس نہ دینے کی کئی وجوہات ہیں۔


سید معظم حئی July 02, 2016
[email protected]

پاکستان میں لوگوں کے ٹیکس نہ دینے کی کئی وجوہات ہیں۔ نمبر ایک کرپشن اور پاکستان میں کیسی کرپشن ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 2014ء کی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ Fighting corruption in south Asia: building accountability کے مطابق پوری دنیا میں کرپشن کے لحاظ سے جنوبی ایشیا بدترین خطہ ہے جب کہ ورلڈ بینک کے 135 ممالک میں 130000 کمپنیز پہ مشتمل Enterprise Survey کے 2013ء کے ڈیٹا کے مطابق کرپشن کے لحاظ سے پاکستان جنوبی ایشیا کے خطے میں بدترین حیثیت رکھتا ہے، جہاں جنوبی ایشیا کی 45.5 فیصد کی اوسط کے مقابلے میں رشوت دینے پہ مجبور کمپنیوں کی شرح 88 فیصد ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو نہ یہ علم ہے نہ اعتبار کہ ان کے دیے گئے ٹیکس کا روپیہ کہاں اور کیسے استعمال کیا جائے گا۔ مثلاً آپ ہی دیکھیے کہ سن 2005ء سے 2015ء تک کے دس سال میں پاکستان نے 49 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے حاصل کیے یعنی ہر سال تقریباً پانچ ارب ڈالر جو کہ سو روپے فی ڈالر کی شرح سے تقریباً 500 ارب یا 50000 کروڑ روپے بنتے ہیں، پاکستان نے اس عرصے میں ہر سال تقریباً 2.5 ارب ڈالر اپنے بین الاقوامی قرض دہندگان کو واپس کیے تو باقی کے 24, 25 ارب ڈالر کہاں گئے؟ ۔

ادھر مجموعی طور پر دیکھیے تو اتنے قرضوں کے بعد بھی پاکستان کی 40 فیصد آبادی غربت نہیں بلکہ شدید ترین غربت کا شکار ہے، اس سال جون میں جاری کیے جانے والے پاکستان کے سرکاری Multi Dimensional Poverty Index (MPI) کے اعداد و شمار سے عام لوگ تو کیا ہمارے بڑے بڑے جغادری ''محقق و مفکر'' بھی متنفر رہتے ہیں۔ تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ دیکھتے ہیں کہ پاکستان کا حکمراں طبقہ طرح طرح سے اربوں، کھربوں کماتا ہے، باہر لے جاتا ہے، یہاں ٹیکس تک نہیں دیتا۔

جولائی 2015ء میں Chevening Alumni Association اور برطانوی ہائی کمیشن کے اشتراک سے کیے گئے گول میز مذاکرے Tackling the Tax Crisis in Pakistan میں شرکا کو آگاہ کیا گیا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کی 65 فیصد ارکان اور وفاقی کابینہ کے آدھے سے زیادہ ارکان نے انکم ٹیکس ادا ہی نہیں کیا۔ عام لوگ عام طور پر اپنے حکمراں طبقے کی سماجی و معاشی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ کچھ عجب نہیں کہ وہ بھی حکمراں طبقے کی دیکھا دیکھی ٹیکس نہیں دینا چاہتے۔ چوتھی بڑی وجہ یہ ہے کہ قومی اور انفرادی طور پر ہمیں نظام خصوصاً ایک دستاویزی نظام کے ڈسپلن کے ساتھ رہنا اور کام کرنا پسند نہیں۔

آپ ٹیکس تو چھوڑیے ورلڈ بینک کے اپریل 2015ء میں جاری ہونے والے Global Findex Database کے مطابق صرف 8.7 فیصد بالغ پاکستانیوں کا کسی بھی بینک یا دوسرے مالیاتی ادارے میں کوئی اکاؤنٹ ہے جب کہ جنوبی ایشیا میں یہ شرح 45.5 فیصد ہے۔ اور جناب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اگست 2015 کے ڈیٹا کے مطابق معاشی سال 2015-16 کے صرف پہلے ہی مہینے جولائی میں کاروباری اداروں کے پاکستان میں بینک ڈپازٹس میں مہینہ با مہینہ کے حساب سے 5.25 فیصد کمی آ گئی جس کا بڑا سبب حکومت کی طرف سے ٹیکس نہ دینے والوں پہ ایک دن میں بینک سے پچاس ہزار روپے سے زائد نکالنے پر ود ہولڈنگ ٹیکس کا نفاذ تھا۔

سن 2011ء میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے 17 لاکھ ٹیکس گزاروں میں سے 16 لاکھ نے صرف تقریباً اکیس ہزار روپے سالانہ کے حساب سے ہر سال انکم ٹیکس ادا کیا۔ سن 2013ء میں پاکستان میں نیشنل ٹیکس نمبر (NTN) رکھنے والے افراد کی تعداد 3.3 ملین یعنی تینتیس لاکھ کے لگ بھگ تھی جب کہ 2012ء میں NTN رکھنے والوں میں سے صرف اٹھارہ لاکھ افراد کے ٹیکس ریٹرن اور تنخواہ کی اسٹیٹمنٹ داخل کی گئیں۔ پاکستان میں GDP کے مقابلے میں ٹیکس کی 9 فیصد کے اردگرد کی شرح دنیا میں کم ترین میں سے ہے۔ پانچویں بڑی وجہ نفسیاتی ہے، بحیثیت قوم ہم دوسروں بشمول ریاست کا کوئی حق ادا کیے بغیر اپنا ہر حق چاہتے ہیں۔ جیسے ہم خود بے ایمانی چھوڑے بغیر کرپشن سے پاک معاشرہ، خود صفائی کیے بغیر صاف ماحول، درخت لگائے بغیر گرمی کا خاتمہ اور ٹیکس دیے بغیر ہر سہولت چاہتے ہیں۔

موبائل فون بینکنگ، مارکیٹنگ اور شاپنگ کا استعمال پہلے ہی پاکستان میں کامیابی سے پھیل رہا ہے۔ ہم موبائل فون کے ذریعے ٹیکس وصولی کا ایک آسان اور وسیع نظام بنا سکتے ہیں۔ ہم موبائل فون ٹیکس کلیکشن سسٹم کا آغاز ریٹیل سیکٹر سے کر سکتے ہیں۔ 2011-12 میں تقریباً 20 لاکھ دکانوں پہ مشتمل پاکستان کے ریٹیل و ہول سیل سیکٹر کی Worth ورتھ 3.6 کھرب روپے یعنی ملک کے GDP کے تقریباً 18 فیصد تھی۔ پاکستان میں دکانوں کی اتنی بڑی تعداد میں موجودگی کی وجہ ملک میں وسیع صنعتی ترقی کا نہ ہونا ہے جس کی بنا پہ لوگ اپنا روزگار خود پیدا کرنے پہ مجبور ہیں۔ بدقسمتی سے دکانداروں کا بہت بڑا حصہ ٹیکس نہیں ادا کرتا، بجلی کی چوری اور ناجائز منافع غوری بھی کرتا ہے۔

تمام رجسٹرڈ ریٹیلرز کے موبائل فون کے کریڈٹ سے ان کے ٹیکس سلیب کے مطابق 50 روپے سے لے کر 5000 روپے تک کی روز کی کٹوتی کی جائے جس کے لیے ان ریٹیلرز کو اپنے موبائل فون میں روزانہ ٹیکس کٹوتی کے لیے اپنے ٹیکس سلیب کی کم سے کم حد تک کا کریڈٹ رکھنا ضروری ہو گا۔ یہ کٹوتی روزانہ کے علاوہ جو ریٹیلرز چاہیں ان کے لیے ماہانہ بنیادوں پہ بھی ہو سکتی ہے۔

موبائل فون اکاؤنٹ میں مطلوبہ کریڈٹ نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس کٹوتی کے ناغے کی صورت میں پینلٹی دینی ہوگی۔ کیونکہ تمام موبائل فون رجسٹرڈ ٹیکس دہندہ ریٹیلرز کے موبائل نمبر کے ساتھ ساتھ ان کے شناختی کارڈ، رہائشی اور تجارتی پتے اور دوسرے تمام کوائف رجسٹریشن کے وقت دیے گئے ہوں گے اس لیے کسی ریٹیلرز کا اپنا موبائل فون بند کر کے یا سم بدل کر ٹیکس سے بچنا ممکن نہ ہو سکے گا۔

ٹیکس بذریعہ موبائل فون ایک آٹو میٹک نظام ہوگا جس میں ٹیکس دہندگان کا FBR کے لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں ہو گا جو انھیں نہ صرف طرح طرح کی مشکلوں، دھمکیوں اور ناجائز مطالبوں سے بچائے رکھے گا بلکہ جمع شدہ ٹیکس بھی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ سے محفوظ رہے گا۔ یہ نئے ٹیکس دہندگان ٹیکس کے پیچیدہ تخمینے کے نظام اور ہر مالی سال کے محفوظ دنوں میں ایک بڑی رقم بطور ٹیکس جمع کرانے سے مکمل طور پر محفوظ ہوں گے کیونکہ روز یا ماہانہ ٹیکس کٹوتی ریٹیل آڈٹ کی بنیاد پر دیے گئے ٹیکس سلیب پر پانچ سال کے لیے طے شدہ ہو گی چنانچہ ٹیکس کی ٹارگٹ شدہ اور حاصل شدہ رقم میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہوگا۔

ٹیکس بذریعہ موبائل فون نظام کے لیے ظاہر ہے کہ FBR کو موبائل فون کمپنیوں سے طول المیعاد معاہدے کرنے ہوں گے۔ موبائل فون کے ذریعے جمع شدہ رقم براہ راست وزارت خزانہ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوتی رہے گی بغیر کسی طویل و پیچیدہ بیوروکریٹک رکاوٹوں اور کرپشن کے۔ اس ٹیکس نظام سے موبائل فون کمپنیز کا کاروبار بھی بڑھے گا جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو سکیں گے۔ حکومت کے اشتراک سے موبائل فون کمپنیز موبائل فون ٹیکس نظام میں رجسٹرڈ ریٹیلرز کے لیے خصوصی پری پیڈ اور پوسٹ ہیڈ پیکیجز/ کارڈز وغیرہ بھی مارکیٹ کر سکتی ہیں۔

ایک دفعہ ٹیکس بذریعہ موبائل فون کا نظام چل نکلا تو نہ صرف قومی خزانے میں روزانہ / ماہانہ کے اربوں روپے آ سکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔